میرے رئیس‘ میرے شاعر کی زبان سے اور قلم سے نکلا ہوا ہر لفظ‘ ہر جملہ‘ ایک نقطہ‘ ایک شوشہ محفوظ ہو جائے‘ لمحہ لمحہ قید کر لوں۔ ضروری ہے کہ ہر وقت کا ساتھ ہو‘ بالکل پخ بن کر چپک کر رہ جائے آدمی۔ یہ خیال دل میں بیٹھا تو اپنا مقدر اتنا ہی تو تھا‘ ردّی کی ٹوکری ٹٹولنا شروع کر دی‘ یہ حرکت ناگوارِ خاطر ہوئی۔ 'یہ کیا کرتے رہتے ہو‘ یہ کہا اور ردّی تقریباً چھین کر ٹوکری میں پھینک دی لیکن میں نے نظر بچا کر دوبارہ جیب و داماں کو گرانبار کر ہی لیا‘ دو ایک دن چھوڑ کر میں بمشکل تمام انہیں باور کرانے میں کامیاب ہوا کہ یہ جو آپ کوہکنی کرتے کرتے تراشیدہ جواہر چھانٹ لینے کے بعد کنکر پتھر پھینک دیتے ہیں‘ کعبے سے ان بتوں کو نسبت دور کی نہیں‘ بے حد قریب کی ہے‘ کاوشِ فکر کی صحیح قدر و قیمت کے تعین کا بنیادی پتھر یہی تو ہیں۔ وہ نرم کیا پڑے میں نے گھر کا کوئی کونہ کھدرا نہیں چھوڑا‘ سب کھنگال ڈالا‘ سب کچھ سمیٹ لایا اور حضرت کے گھر میں ایک آہنی صندوق رکھوا دیا‘ ہر طرح کا کاغذی کباڑ اس میں ڈالتے رہتے ہیں۔ دوسرے تیسرے مہینے کوئی جاتا ہے اور گٹھڑی لاد کے لے آتا ہے‘ یہ طرح طرح کے نوادرات کا مرقع ہوتا ہے‘ زیادہ تعداد عوامی خطوط کی۔ اس کے بعد مشاہیرِ عصر کے مکتوبات اور سب سے بڑھ کر ادھورے‘ پورے‘ پونے قطعات اور کبھی کبھی غزلیات‘ ردّی لانے والوں میں کون پیش پیش رہا‘ محمد افضل کوری‘ قطب الدین کوری‘ ہری چند اور اُمبیندا جی وغیرہ۔ یہ لوگ رئیس سے خاصے بے تکلف بھی ہیں۔
گھر کی ہر چیز پر نظر رہتی ہے۔ گملے قرینے رکھیں گے‘ کیاریوں میں پانی روزانہ باقاعدگی سے ربڑ کی نالیاں بچھا بچھا کر ڈالنا‘ پانی کے ذخیرے میں کمی آ جائے تو بیتاب ہو کر بولائے بولائے پھرنا‘ داماد کے اشتراک سے خریدی گئی ایک پرانی موٹر میں دور دور سے پانی کے کنستر ڈھوئے جانے کے انتظامات کی نگرانی اور شور مچانا‘ موٹر رکشا والوں سے چونّی دونّی پر بحث و تکرار کرنا بھی جانتے ہیں اور اگر وہ اپنی معروف بے احتیاطی سے سڑکوں کا گز بننے کی کوشش کرے تو اور تیز‘ اور تیز چلانے کی تاکید کرکے بدحواسی کے مزے لیتے ہوئے میں نے دیکھا ہے۔ کون گھر میں آ رہا ہے کون جا رہا ہے اس پر تو نظر رکھتے ہی ہیں‘ یہ بھی دیکھتے ہیں لے کر تو کوئی کیا جائے گا‘ لا کیا رہا ہے۔ اس سے بھی بڑی دلچسپی ہے‘ میں نے بارہا اپنی بساط بھر گھی‘ زرکار جوتے وغیرہ نذر گزارے مگر جب وہ خود پہلی بار محمد آباد آئے تو میری پانچ سالہ بیٹی تمکنت جیلانی کے لیے نائلون کا ایک کُرتہ لائے جس کی قیمت کھینچ تان کر بھی دو روپے کم ہی رہی ہو گی‘ زیادہ نہیں۔ گھ بھر میں ہنسی اڑ گئی‘ اس سے تو اچھا تھا ٹریفک یک طرفہ رہتا‘ چل ہی رہا تھا۔ میں نے بیوی سے کہا: بیوقوف! یہ ایک عظیم شاعر کا تحفہ ہے‘ تبرک جان کر بیٹی کو پہنا دو بلکہ محفوظ کر دو تاکہ ہماری آئندہ نسلیں رئیس الشعراء سے ہمارے تعلقات پر گواہ بن جائیں۔
رئیس کا گھر زیارت گاہِ خاص و عام ہے‘ جسے دیکھو منہ اٹھائے چلا آ رہا ہے‘ بالکل اجنبیوں کے لیے یونہی سا چوکی پہرہ بھی رعب و داب کے لیے ہے تو‘ ویسے کوئی روک ٹوک نہیں‘ رنگ برنگے جناور بھانت بھانت کی بولیاں بول کر کہیں دونوں وقت ملا کر اڑتے ہیں‘ وہ تو کہیے شب بیداری کے رسیا نہیں ورنہ راتوں پر بھی دن کا گمان ہو‘ کچھ بن کے جاتے ہیں‘ ایک آدھ بنا کے نکل جانے میں بھی کامیاب ہو جاتا ہے‘ بیسیوں غرض کے بندے‘ ہر ایک زیادہ سے زیادہ قریب آنے کی تگ و دو میں مصروف‘ ہم بھی کب پیچھے رہے ہیں‘ بابائے مہاجرین تو وہ اب بنے ہیں‘ یاروں نے بابا‘ بابا کی جے جے کار برسوں سے مچا رکھی ہے‘ ایک دوسرے کو گرانے بڑھانے کی کوشش پر مسکرائے بغیر نہیں رہا جاتا۔ سازشیں بھی ہوتی ہیں الزام تراشیاں بھی‘ وہ پلید جو گھر میں تاک جھانک کے مرتکب ہوئے‘ تاڑ لیے گئے۔ میں نے خبردار
کیا تو فرمایا‘ تم کیا سمجھتے ہو میں کچھ نہیں جانتا‘ تجاہلِ عارفانہ سے کام لے رہا ہوں۔ واقعی حضرت نے دونوں کو کیفر کردار تک پہنچایا‘ قمر اور زلفی جانے تھے کون‘ عجیب پٹانگ آدمی‘ ٹانگیں دبا رہے ہیں‘ پائوں دبا رہے ہیں‘ نیم وا آنکھوں سے یہ اداکاری صاحب خانہ بھی دیکھ کر محظوظ ہوتے رہے‘ رقابتیں چلیں‘ چاقو بھی چلے‘ تب کہیں دفع ہوئے ہمیشہ کے لیے۔ ایک صاحب نے ایران دبئی وغیرہ سے آ کر دور کا رشتہ جوڑا۔ اپنی دو جوان بیٹیوں اور بیٹے کو رئیس کے ہاں چھوڑ گئے۔ سرگرمیاں کسی نہ کسی حد تک پراسرار سی نظر آنے لگیں۔ سرشار دیکھ کر تقی صاحب وغیرہ نے تفریح لینے کے لیے یہ کہہ کر حواس باختہ کر دیا کہ پولیس آپ کے مہمانانِ عزیز اور آپ کی تاک میں ہے۔ نشہ ہرن تو نہیں ہوا‘ بوکھلائے بہت۔ یہ کاروباری لوگ بہت سیانے ہوتے ہیں‘ ہوٹل کے کرائے سے بھی بچ گئے اور کھانا پینا تو مفت میں تھا ہی۔ ایک بیٹی اپنے ادارے کے لیے کراچی سے بظاہر مزدور بھرتی کر کے لے جانے کی ذمہ دار تھی‘ بے حد حسین و جمیل‘ رئیس ہماری بھانجی ہیں‘ ہماری بھانجی ہیں‘ کہہ کہہ کر کچھ اس طرح اس آہو چشم حسینہ پر مسلط رہے کہ ہمیں جی بھر کے دیکھ لینے کی بھی حسرت ہی رہی۔ آگے چل کر اپنے روزنامچے میں اقرار کیا‘ یہ لوگ بہت دکھ دے گئے‘ کیوں نہ دیتے وہ تو تھے ہی فریبی۔ رئیس ڈھیل اور طرح دینا بھی خوب جانتے ہیں‘ انور شعور معروف شاعر‘ تھے تو جون ایلیا کے یاروں میں سے ایک‘ روز کا آنا جانا‘ رئیس سے بھی نیاز مندانہ اور حجاب آمیز بے تکلف صاحب سلامت۔ بیکار اس لیے تھے کہ کہیں ٹک کر کوئی کام نہ کیا۔ شام کی
چائے پر جو ایک دن آڑے ہاتھوں لیے گئے تو بیچارے کا ایک رنگ آتا اور ایک جاتا دیکھ کر مجھے بڑا ترس آیا۔ پھر وہ ذرا فاصلے سے رہنے لگے‘ اور اب تو ماشاء اللہ اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح عہدہ برآ ہو رہے ہیں۔ سحر انصاری‘ محمد علی صدیقی ایک اور پروفیسر کہ سب جون کے یار اور رئیس کے حاضر باش بھی تھے۔ عملی‘ علمی ہر طرح کی دنیا میں رئیس کا سایہ ان پر بھی پڑا‘ ہمتیں بڑھائیں‘ حوصلے دیے‘ مشورے دیے‘ افکار و آرا کو سراہا‘ بحثیں اور مذاکرات سبھی کچھ ہوا۔ محمد علی صدیقی کی انگریزی زبان پر قدرت کی تعریفیں کرتے تھے‘ وہ ہیں بھی قابلِ تعریف‘ سحر انصاری کی غزل گوئی اور معاشقے‘ دونوں کے مداح۔ لیے دیے رہنے کا ایک نخرہ میں نے یہ بھی دیکھا‘ ایک مشترک دوست کے ہاں اچانک مشہور گائیک مہدی حسن آ دھمکے‘ ستمبر کی جنگ پاک و ہند میں رئیس کے لکھے ہوئے جنگی ترانے شاعر کی موجودگی میں مہدی حسن نے گائے اور محظوظ بھی ہوئے۔ لیکن یہاں بالکل انجان بن گئے‘ باقاعدہ تعارف کرایا تب پہچانے اور اُٹھ بھی کھڑے ہوئے‘ سیڑھیاں طے کرکے ہم صحن میں اتر چکے تھے‘ اوپر سے گنگناتی ہوئی سی آواز پڑی‘ کیا کرتے دوبارہ جان محفل بننا پڑا۔ مہدی حسن بحیثیت ایک عقیدت کیش بچھے جاتے اور کہتے جاتے تھے: حضور اپنا مجموعہ کلام عنایت فرمائیں تو میں آپ کی غزلیں گایا کروں گا...
آج کا مقطع
دیوان ہی اپنے نام سے چھپوا دیا‘ ظفر
اے سینہ زور کیا کوئی ایسا بھی چور ہے