تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     15-07-2016

تفریح نامہ

پاکستانیوں کے نصیب میں اللہ نے طرح طرح کی خوشیاں لکھ رکھی ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب کام کرنے سے بھی تھوڑی بہت خوشی مل جایا کرتی تھی۔ اُس دور کو گزرے ہوئے اِتنا عرصہ بیت گیا ہے کہ اب ٹھیک سے یاد بھی نہیں کہ کام کرنے سے ملنے والی خوشی کیسی ہوتی تھی! گزرے ہوئے زمانوں میں اہل وطن جب تفریح کا سوچتے تھے تو بات سمجھ میں آتی تھی کہ اچھا خاصا کام کرنے کے بعد تھوڑی بہت تفریح انسان کا حق ہے۔ اب ہر معاملے میں صرف تفریح کا عنصر سلامت رہ گیا ہے۔ ایسے میں لوگ جب الگ سے تفریح کا اہتمام کرتے ہیں تو ہم جیسے ''سادہ لوح‘‘ بس دیکھتے رہ جاتے ہیں، ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بن جاتے ہیں! 
اہل جہاں جب پاکستانیوں کے اجتماعی رویّے یا طرز عمل پر نظر ڈالتے ہیں تو پوری قوم کو پاگل قرار دینے سے نہیں چُوکتے۔ خوشی میں غم اور غم میں خوشی تلاش کرنا ... اور اِس سے بھی ایک قدم آگے جاکر، کشید کرلینا ہمارا فن ہے۔ اور اگر کوئی بُھولا بھٹکا فن ہم میں پایا جاتا ہو تو ہم اُس پر ناز کیوں نہ کریں! اب حال یہ ہے کہ عید الفطر یا عید الاضحٰی کے موقع پر چار پانچ چھٹیاں ایک ساتھ آرہی ہوں تو لوگ خوشی کے مارے پاگل ہوجاتے ہیں اور بھرپور تفریح کے پروگرام ترتیب دینے لگتے ہیں۔ اور پھر وہی ہوتا ہے جو اس قوم کے ساتھ ہوتا آیا ہے یعنی سب کچھ اِس بری طرح الجھ جاتا ہے کہ معاملات کو الگ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اِس بار بھی عیدالفطر اہل پاکستان پر بڑی مہربان رہی کیونکہ خیر و برکت کے پہلو بہ پہلو دو تین نہیں بلکہ پوری 6 چھٹیاں رونق افروز رہیں! کسی اور ملک میں اگر ایسا ہو یعنی کاروبار ہستی پورے 6 دن بند رہے تو ہاہا کار مچ جائے مگر یہ تو ہم ہیں کہ اِتنی ساری چھٹیوں کا ''بوجھ‘‘ ہنستے گاتے اٹھا لیتے ہیں! 
دل و دماغ کو حیران و پریشان کرنے والے نظارے ہمارے ہاں بہت سے ہیں مگر ایک نیا نظارا مارکیٹ میں آیا ہے جو دیکھنے والوں کو انگشت بہ دنداں رہ جانے پر مجبور کردیتا ہے۔ یہ نظارا ہے کئی چھٹیوں کے ایک ساتھ وارد ہونے پر تفریح کا اہتمام کرنے کا! کراچی چونکہ میگا سٹی ہے اس لیے اِس لیے اِس کی ہر بات میگا نوعیت کی ہوتی ہے یعنی بم پھٹنے سے پیدا ہونے والی کیفیت سے دوچار کرکے دم لیتی ہے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ چند چھٹیاں میسر ہونے پر لوگ گھر میں بیٹھنے اور ایک دوسرے کی معیت میں محظوظ ہونے پر مفت میں خوار ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ 
آپ اگر سمجھ نہیں پارہے تو ہم ذرا وضاحت سے بیان کیے دیتے ہیں۔ کراچی میں تفریحی مقامات کی کمی نہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ تفریح کی آرزو میں تڑپنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ جیسے ہی چند چھٹیاں ساتھ آتی ہیں، لوگ تفریح کے لیے نکل پڑتے ہیں اور جس انداز سے لوگ تفریحی مقامات کی طرف جارہے ہوتے ہیں اُسے دیکھنا بجائے خود ایک بڑی تفریح ہے! 
مصیبت یہ ہے کہ چھٹیاں میسر ہوتے ہی لوگ تیار ہوکر گھروں سے نکل پکڑتے ہیں۔ یہ بھی نہیں سوچتے کہ جہاں جارہے ہیں وہاں کا عالم کیا ہے یا کیا ہوگا۔ ٹی وی چینلز بتا بھی رہے ہوتے ہیں کہ شہر بھر میں ٹریفک جام ہے، تفریحی مقامات پر بھیڑ ہے کہ بڑھتی جارہی ہے مگر پھر بھی لوگ اہل خانہ کو کار یا پک اپ میں ٹُھونس کر نکل پڑتے ہیں۔ اور جسے فور ویل میسر نہ ہو وہ پورے گھرانے کو موٹر سائیکل پر لاد کر کِک مار دیتے ہیں۔ 
لیجیے، گھر سے تو نکل پڑے مگر جہاں جاکر تفریح کرنی ہے وہاں تک پہنچیں کیسے؟ سڑک پر آکر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تو اولمپک کی ریس جیسا معاملہ ہے۔ جس میں دم ہے وہ بڑھ کر دِکھائے! دیکھتے ہی دیکھتے ٹریفک ایسا جام ہو جاتا ہے کہ انسان کے اندر کا نظام بھی جام ہونے لگتا ہے! ایسی حالت میں موٹر سائیکل پر تمام اہل خانہ کو لاد کر تفریحی مقام کا قصد کرنے والوں کی حالت واقعی ایسی ہو جاتی ہے کہ ''آج ہے محفل دید کے قابل ... ‘‘ جیسا سماں پیدا ہوجاتا ہے! موٹر سائیکل ہو یا کوئی فور وھیل ... ہر گاڑی یکساں کیفیت سے دوچار ہوتی ہے۔ ع 
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے! 
لوگ سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ ہم نے گھر سے نکلنے کا ارادہ کیا تو ایک خلقت سڑک پر آگئی۔ ہر شخص یہ سوچتا ہے کہ چھٹی کا دن ہے، لوگ گھروں میں ہوں گے۔ اچھا ہے کہ ایسے میں اہل خانہ کو لے کر میں تفریح کے لیے نکل پڑوں۔ بس یہی سوچ ہے جو آن کی آن میں سڑک کو یوں بھردیتی ہے جیسے بارش ہوتے ہی پروانے نمودار ہوجاتے ہیں! ع 
ذرا سی دیر میں کیا ہوگیا زمانے کو! 
ایک ساتھ کئی چھٹیاں وارد ہونے پر کراچی کی ہر تفریح گاہ اِس قدر بھری ہوتی ہے کہ مشہور زمانہ فلم 2012 ء کی تھوڑی بہت شوٹنگ اِن تفریح گاہوں میں کی جاتی تو فلم کی ہولناکی کو چار چاند لگ جاتے! لوگ کچھ اِس خیال سے تفریحی مقامات کا رخ کرتے ہیں جیسے دنیا اب ختم ہونے والی ہے! اِس سال بھی عیدالفطر کے تیسرے دن یعنی جمعہ کو ہماری ڈیوٹی تھی۔ ہم روزنامہ دنیا کے دفتر جانے کے لیے نکلے تو کارساز روڈ پر میریٹائم میوزیم کے سامنے سے گزرے۔ بھیڑ ایسی تھی جیسے عید کی خوشی میں نیوی والے لڈو پیڑے بانٹ رہے ہوں! ہم وہاں سے گزر ہی رہے تھے کہ لاؤڈ اسپیکر پر گزارش بھری آواز سُنائی دی کہ میوزیم میں جگہ بالکل نہیں ہے، لہٰذا باہر موجود لوگ چلے جائیں۔ مگر لوگ تھے کہ آتے ہی جارہے تھے اور گاڑیاں پارک کر رہے تھے۔ محتاط اندازے کے مطابق بھی میوزیم کے باہر موجود افراد کی ہزار سے کم نہ ہوگی! ہماری سمجھ میں نہ آیا کہ ایسی تفریح کس کام کی کہ تفریح کی تلاش میں نکلنے والا خود ہی تفریح کا آئٹم بن جائے! ایک اور بات بھی ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ چھٹی کے موقع پر تو انسان دن بھر گھر پر ہوتا ہے، پھر سبھی ایک وقت میں گھر سے کیوں نکلتے ہیں۔ اگر کسی بڑے پارک میں شام کے وقت قیامت کی بھیڑ ہو تو اچھی خاصی سُہانی شام پر بھی شبِ دیجور کا گماں کیوں نہ ہو! 
بہت سوں کو ہم نے تفریح کے لیے گھر سے نکلنے پر صرف خواری سے دوچار ہوتے دیکھا ہے۔ جہاں جاکر تفریح کرنی ہے وہاں پہنچنے میں ڈیڑھ دو گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ تفریحی مقام پر پہنچ کر تفریح نصیب میں کہاں۔ ہر طرف، قدم قدم پر لوگ ہی لوگ۔ کھلی فضاء میں بھی سانس لینا دوبھر ہوجائے تو کیسی تفریح، کہاں کی تفریح! اور واپسی پر پھر وہی خواری بھرا سفر! گھر پہنچتے پہنچتے حالت یہ ہوجاتی ہے کہ ع 
... پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved