تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     16-07-2016

آئینی اداروں کی مشکلات

چند روز سے پاکستان میں ایک ''لاوارث کشمکش‘‘ ہو رہی ہے۔ یہ اس رات شروع ہوئی‘ جب پاکستان کے بڑے شہروں میں اچانک چیف آف آرمی سٹاف کی تصویروں کے بڑے بڑے بینر نمودار ہوئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہیں چھپوانے اور بڑے شہروں کے مرکزی مقامات پر لگانے والے کا نام اور ٹیلیفون نمبرز بھی اس میں درج تھے۔ پہلا تبصرہ یہ ہوا کہ بینر حکومت نے لگوائے ہیں تاکہ اپوزیشن کو بدنام کیا جائے۔ مگر اس کے بعد یہ الزام لگانے والوں نے بھی حکومت پاکستان سے ہی مطالبہ کیا کہ وہ بینر لگانے والوں کو ڈھونڈ کر ان کے خلاف موثر کارروائی کرے۔ لیکن ایک انتہائی حساس موضوع سامنے آنے کے باوجود کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ اگر موضوع کی نوعیت کو دیکھا جائے‘ تو پاکستان کا سب سے حساس ترین اور سنجیدہ حلقوں میں زیربحث موضوع ہی یہ ہے۔ ایک طرف حکومت کے ''کچن سپیکرز‘‘ بہانے بہانے سے نہ صرف اس موضوع کو زیربحث لاتے رہے بلکہ پردے میں رہ کر ‘ چیف آف آرمی سٹاف کے بارے میں اظہار خیال بھی فرماتے رہے۔ جبکہ چیف آف آرمی سٹاف کی نہ کوئی سیاسی لابی ہے اور نہ ہی ان کے حق میں بیانات جاری کئے جاتے ہیں۔درپردہ کچھ کہانیاں ضرور سننے میں آ رہی ہیں‘ جن میں کچھ یہ ہیں کہ چیف آف آرمی سٹاف نے اب سے کوئی ایک سال پہلے ‘اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے وفاقی حکومت سے درخواست کی تھی‘ جسے مسترد کر دیا گیا۔ سننے میں آیا ہے کہ دو یا تین مرتبہ کی درخواست کے بعد‘ چیف آف آرمی سٹاف نے خود ہی اعلان کر دیا کہ وہ توسیع لینے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس دوران کئی افواہوں کے درمیان ایک نئی افواہ یہ سننے میں آ گئی کہ وزیراعظم نے کورکمانڈرز کانفرنس کے ایک انتہائی اہم اجلاس میں شرکت سے گریز کیا‘ حالانکہ اعلیٰ سطح کے متعدد قومی اہمیت رکھنے والے موضوعات زیرغور لائے جانا تھے‘ جن میں پاک چین اقتصادی راہداری کے بارے میں کچھ تشویشناک معاملات بھی سامنے آئے ۔ قیاس کیا جا رہا تھا کہ زیربحث آنے والے معاملات چین اور پاکستان ‘دونوں کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل تھے۔ لیکن وزیراعظم نے اس انتہائی اہم کانفرنس میں شرکت سے گریز کیا جبکہ چین سخت تشویش میں مبتلا رہا۔ اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی نے جتنا زور پکڑا‘ اس کی مثال پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔انتہائی حساس اور قومی معاملات پر کورکمانڈرز کانفرنس میں وزیراعظم کا شرکت سے گریز ‘انتہائی تشویش ناک معاملہ تھا۔ 
وزیراعظم کی قومی معاملات سے بظاہر لاتعلقی دیکھنے میں آ رہی ہے‘ اس پر ملک کی انتہائی اہم شخصیات کی طرف سے بھی اظہار خیال ہونے لگا ہے۔ آج ہی چیف جسٹس آف پاکستان نے ایسے موضوع پر سخت لہجے میں اظہار خیال کیا ہے‘ جس سے عموماً اس ادارے میں گریز کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیرجمالی نے‘ الیکشن کمیشن کے ارکان کا12 جون سے پہلے تقرر نہ ہونے پر سخت لہجے میں سوال کیا اور فرمایا کہ ''وزیراعظم ملک سے باہر تھے‘ واپسی کے بعد 
ارکان کے تقرر کے لئے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مشاورت کا عمل جاری ہے۔ آئینی طور پر مدت ختم ہونے کے بعد 45 روز میں‘ الیکشن کمیشن کے ارکان کا تقرر ضروری ہوتا ہے۔ اس میں ابھی 27جولائی تک کی مدت باقی ہے۔‘‘ چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ''الیکشن کمیشن کے غیرفعال ہونے کی وجہ سے سارا نظام متاثر ہو رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس دن یہ اسامیاں خالی ہوئیں‘ اسی وقت نئے ممبران کے تقرر کے لئے مشاورت کا عمل شروع کر دیا جاتا۔ ان اسامیوں کے خالی ہونے کا انتظار کیوں کیا گیا؟ ادارہ جاتی عمل میں انتظار نہیں کیا جاتا۔ ان چیزوں سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔آئینی ادارے کے غیر فعال ہونے سے متعلق‘ ازخود نوٹس لینے کا مقصد یہ ہے کہ ملک میں قانون اور آئینی عمل داری کو یقینی بنایاجائے۔ 27جولائی سے قبل یہ اسامیاں پرہونا چاہئیں۔ اگر 12 جون سے پہلے عمل شروع ہو جاتا‘ تو آج الیکشن کمیشن غیرفعال نہ ہوتا۔ حکومت کو غیرفعال الیکشن کمیشن کے معاملے پر کھیل نہیں کھیلنے دیں گے۔ ہمارا واحد مقصد یہ ہے کہ مقررہ وقت میں نئی تقرریاں کی جائیں تاکہ یہ معاملہ بھی 6سال تک نہ چلتا رہے‘ ورنہ اداروں کا تو حال یہ ہے کہ 8سال سے ملک میں مردم شماری نہیں ہو سکی۔‘‘ بعدازاں سماعت دو ہفتوں کے لئے ملتوی کر دی گئی۔دریں اثناء سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات کے لئے الیکشن کمیشن کی جانب سے پیش کردہ تجاویز کو غیراطمینان بخش قرار دے دیا اور تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد‘ اپنی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل بنچ نے انتخابی اصلاحات پر عملدرآمد نہ ہونے سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔ اس دوران الیکشن کمیشن‘ تحریک انصاف اور ورکرز پارٹی کی مشترکہ کمیٹی نے انتخابی اصلاحات کے حوالے سے تجاویز پیش کیں جبکہ سیکرٹری الیکشن کمیشن ‘بابر یعقوب فتح محمد کا کہنا تھا کہ ہمارے اصلاحاتی پروگرام میں وال چاکنگ‘ بینرز‘ پوسٹرز‘ ہورڈنگز اور بل بورڈز کے علاوہ جلسوں جلوسوں پر بھی پابندی کی تجویز دی گئی۔ انتظامیہ کی طرف سے صرف کارنر میٹنگز کی اجازت ہونی چاہیے۔ اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ'' الیکشن کمیشن جس طرح کی تجاویز لایا ہے وہ صرف کتابوں میں ہی ملتی ہیں۔ کیا الیکشن کمیشن آئندہ انتخابات 1985ء کی طرح کرانا چاہتا ہے؟ اگر سب چیزوں پر پابندی لگا دینا ہے‘ تو پھر الیکشن ہی رہ جاتا ہے‘ الیکشن کمیشن اس پر بھی پابندی لگا دے۔ صرف سرکاری ٹی وی پر اشتہار چلایا جائے گا‘ تو وہ کون دیکھے گا؟ اگر انتخابات کی تمام تر سرگرمیاں روکنی ہیں تو پھر الیکشن ہی روک دیں۔ جب تک تمام سیاسی جماعتیں اصلاحات پر متفق نہ ہوں‘ اس وقت تک عملدرآمد نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ نیز چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کسی امیدوار کا بل بورڈ بڑا ہو تو وہ ذمہ داری لینے سے انکار کر دیتا ہے۔ لہٰذا اس پر پابندی درست ہے۔ عدالت عظمیٰ نے دلائل سننے کے بعد الیکشن کمیشن کو تیار کردہ ضابطہ اخلاق پر تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی حمایت کی جبکہ سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی۔
سنجیدہ سیاسی حلقوں کا اب بھی یہی کہنا ہے کہ جنرل راحیل شریف جب سے طاقت کے دائرے میں بطور چیف آف آرمی سٹاف داخل ہوئے ہیں‘ انہوں نے ہمیشہ سیاست میں براہ راست مداخلت سے گریز کیا اور وہ ایسی سکیموں میں شامل ہونے سے گریزاں رہے‘ جن کا مقصد پاکستان مسلم لیگ کی و فاقی حکومت پر غلبہ حاصل کر کے‘ اس پر اپنی مرضی مسلط کریں‘ جبکہ وہ ملک میں جمہوریت کے تسلسل کے لئے مدد گار کی طالب ہو۔
تاریخی طور پر امریکہ‘ پاکستان میں فوجی حکومتوں کا حامی رہا ہے۔ براہ راست فوجی حکومتوں کی پشت پناہی کے نتیجے میں نہ صرف امریکہ‘ پاکستان بلکہ پڑوسی ملکوں کی حکومتوں کے ساتھ تعلقات میں بھی ناہموار ی کا شکار رہا۔ پرانا کھلاڑی ہونے کی وجہ سے امریکہ اچھی طرح سمجھتا ہے کہ ملک میں پاور کو کہاں سے کنٹرول کیا جاتا ہے؟ و ہ فوج کے ساتھ معاملات کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ 
جنرل راحیل شریف ہمیشہ سے ایک وار ٹائم جنرل رہے ہیں۔ وقت نے انہیں ایک ایسی صورتحال میں ڈال دیا جس میںانہیں ملک میں سرگرم دہشت گردوں کے خلاف بے رحمی سے کارروائی کرنا پڑی۔ جبکہ ان کے پیش رو جنرل اشفاق پرویز کیانی ‘ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن سے ہمیشہ گریز کرتے رہے۔ عمومی طور پر پاکستان میں عدم استحکام‘ امریکہ کے لئے اہم مسئلہ رہا ہے۔ پاکستان کی سکیورٹی کا انحصار تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ایٹمی پروگرام پر ہے۔ اس پروگرام کو دنیا میں سکیورٹی کا انتہائی سنجیدہ معاملہ تصور کیا جاتا ہے۔ خصوصاً پاکستان کے جدید ترین ایٹمی اسلحہ کے ذخیروں میں مسلسل اضافہ‘ امریکہ کے لئے ہمہ وقت تشویش کا باعث ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے داخلی استحکام اور عدم استحکام پر‘ امریکہ کی گہری نظر رہتی ہے۔پاکستان میں کوئی سیاسی طاقت اتنی منظم اور مستحکم نہیں کہ وہ عدم استحکام کی صورت میں ‘ہمارے ایٹمی اثاثوں کے مکمل تحفظ کی ضمانت دے سکے۔ جب بھی جمہوریت اور فوج کے کنٹرول میں سے کسی ایک کے انتخاب کا معاملہ درپیش ہو گا‘ امریکہ ہر صورت میں فوج کو ترجیح دے گا۔ یہ بات وزیراعظم نوازشریف کو اچھی طرح معلوم ہے۔ ان دنوں وہ اسی کشمکش میں مبتلا ہیں۔لگتا ہے کہ وہ آخری فیصلہ کرتے ہوئے کسی ایسے حل کی طرف جائیں گے‘ جس میں ان کی حکومت کے لئے بھی کوئی خطرہ نہ ہو اور ملکی و قومی سلامتی کے سوال پر دونوں میں اتفاق رائے ہو جائے۔میرا جھکائو آج بھی اس حل کی طرف ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved