تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     16-07-2016

سول سوسائٹی اور کشمیر

آج جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی خبر کیا ہے؟
اخبار نویس تو ایک طرف کہ خبر کے باب میں زود حس ہوتا ہے، ایک عامی بھی جانتا ہے کہ یہ مقبوضہ کشمیر میں تشدد کی تازہ لہر ہے جو تھمنے کو نہیں آ رہی۔ یہ بھارتی ریاست کی طرف سے طاقت کا بے دریغ استعمال ہے جس نے چالیس انسانوں کی جان لے لی۔ دو ہزار زخمی ہیں۔ کتنے جوان اور بچے ہیں جن کے خوبصورت چہروں پر آنکھیں تو باقی ہیں مگر بینائی نہیں۔ اس ظلم نے وادی میں ریاست کے خلاف بغاوت کی ایک نئی لہر اٹھا دی ہے اور اب ریاست نے کرفیو کے نفاذ سے گویا اعلان کر دیا ہے کہ معاملات حکومت کے بس میں نہیں رہے۔ یہ روزنامہ 'ہندو‘ ہو یا 'ہندوستان ٹائمز‘ 'دنیا‘ ہو یا نوائے وقت، سب کے لیے جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی خبر ہے۔
یہ جان کر میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ 'سیفما‘ کے لیے یہ سرے سے کوئی خبر ہی نہیں۔ 'سیفما‘ سارک ممالک سے تعلق رکھنے والے اہلِ صحافت کی تنظیم ہے۔ اس کا ای نیوز لیٹر میرے پاس آتا ہے۔ میں نے اس کے گزشتہ کئی شمارے دیکھے۔ مجھے کہیں بھی مقبوضہ کشمیر کی کوئی خبر دکھائی نہیں دی۔ افغانستان سے لے کر نیپال تک ہر خبر ہے۔ اگر نہیں ہے تو کشمیر کی۔ ہم یہ مطالبہ تو نہیں کرتے کہ وہ مظلوموں کے حق میں کھڑے ہو جائیں مگر ایک جگہ کرفیو نافذ ہو، چالیس افراد مار دیے جائیں اور دو ہزار زخمی ہوں، اسے خبر نہ سمجھنا، کم از کم ایک اخبار نویس کے لیے ممکن نہیں۔ اس بارے میں دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ اسے دانستہ نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس نے سیفما کے اخلاقی وجود کے بارے میں بہت سے سوالات اٹھا دیے ہیں۔
گزشتہ کئی سالوں سے یہ خیال عام ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین امن کے لیے غیر ریاستی کوششیں ہونا چاہئیں۔ ریاستوں کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں جو کبھی کبھی عوامی مفادات سے متصادم بھی ہوتے ہیں۔ عام آ دمی، پاکستانی شہری ہو یا بھارتی، امن چاہتا ہے۔ اگر سول سوسائٹی کی سطح پر دونوں ملکوں کے عوام مل کر کوئی موقف اختیار کریں، تو وہ اپنی اپنی حکومتوں پر اس حوالے سے دباؤ ڈال سکتے اور انہیں مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ باہمی آویزش کو کم کریں اور اس خطے میں امن کے لیے اقدام کریں۔ بعض اوقات ان کوششوں کو ریاستوں کی در پردہ تائید بھی میسر ہوتی ہے۔ اس نوعیت کی کوششوں کو امیر اور ترقی یافتہ ممالک کی حمایت بھی حاصل ہوتی ہے۔ ان کی مدد سے وفود کے تبادلے ہوتے ہیں اور کسی تیسرے ملک میں ملاقاتوں اور کانفرنسوں کا بھی انعقاد ہوتا ہے۔ ظاہر ہے اس کے لیے سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ امیر ممالک فراہم کرتے ہیں۔
جوہری طور ہر یہ خیال بُرا نہیں۔ ریاستیں اکثر ایسا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر سب جانتے ہیں کہ ریاستوں کے جنگی جنون اور عسکری قوت میں مسلسل اضافے سے خطے کو درپیش خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ یہ جنون ظاہر ہے کہ ایک عام آ دمی کے لیے باعث تشویش ہے جو یہ چاہتا ہے کہ قوم ناگہانی آفات سے محفوظ رہے‘ جو جنگ کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ اب تو ریاستیں دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے لگی ہیں اور یوں عوام کے جان و مال براہ راست اس کی زد میں ہیں۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہو گیا ہے کہ ان ممالک میں جمہوری حکومتیں ہوں اور عوامی مفادات کو ریاستی اداروں کے مفاد کے تابع نہ بنایا جائے۔ سول سوسائٹی اگر متحرک ہو تو اس کے بہتر نتائج نکل سکتے ہیں۔
سوال لیکن یہ ہے کہ ظلم کو ظلم کہے بغیر سول سوسائٹی کا اقدام نتیجہ خیز کیسے ہو سکتا ہے؟ ہم سب جانتے ہیں کہ کشمیر کا تنازع نہ صرف پاکستان اور بھارت بلکہ پورے خطے کے لیے باعثِ اضطراب ہے۔ اگر سو ل سوسائٹی کا کوئی ادارہ اس ظلم کی روک تھام کے لیے کچھ نہیں کرتا‘ تو اس کی کوششوں کا حاصل نشستند‘ برخواستند کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے۔ یا پھر ظلم کو صریحاً نظر انداز کر نے سے کیا اس کی دیانت اور غیر جانب داری پر حرف نہیں آئے گا؟ کیا مسائل کو نظر انداز کرنے سے امن ہو سکتا ہے؟ کیا کوئی ذی شعور یہ یقین کر سکتا ہے کہ مسئلہ کشمیر سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، خطے میں امن کا امکان بھی تصور کیا جا سکتا ہے؟
حب الوطنی ایک نجیب آدمی کی پہچان ہے؛ تاہم ایک دیانت دار آدمی کے لیے یہ لازم نہیں کہ وہ اس کے لیے ریاستی اداروں کے طے کردہ پیمانوں پر بھی پورا اترے۔ اگر کوئی ایک معاملے میں ریاست کی کسی پالیسی سے اختلاف کرتا ہے تو میرے نزدیک وہ اس کا حق رکھتا ہے۔ ارون دَتی رائے جب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھاتی ہے تو اس کی حب الوطنی مشکوک نہیں ہوتی۔ اسی طرح نوم چومسکی اگر امریکہ کی سامراجیت پر نقد کرتے اور اسے عالمی امن کے لیے خطرہ کہتے ہیں تو ہم سب کی نظروں میں ان کا وقار بڑھتا ہے۔ یہ معلوم ہے کہ غیر محبِ وطن آدمی، وہ بھارت کا شہری ہی کیوں نہ ہو، ہمارے لیے محترم نہیں ہو سکتا۔ اگر 'سیفما‘ کے نیوز لیٹر میں یہ لکھا جاتا کہ مقبوضہ کشمیر میں عسکریت پسندی درست نہیں تو اس سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن کسی کے اس موقف کو وطن دشمنی نہیں کہا جا سکتا۔ میرے لیے حیرت کی بات یہ ہے کہ بطور خبر بھی اس کا تذکرہ نہیں حالانکہ دعویٰ ہے کہ وہ جنوبی ایشیا کی خبریں دے رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ رویّہ ایک تنظیم کی اخلاقی ساکھ کو متاثر کرتا ہے۔ 
پاک بھارت تعلقات میں بہتری ہم سب کی خواہش ہونا چاہیے۔ جنگی جنون اس امن کے راستے میں حائل ہے۔ یہ جنون کوئی ریاست پیدا کرے یا غیر سرکاری تنظیم‘ یہ کام قوم پرستی کے عنوان سے ہو یا مذہب کے نام پر، کسی امن پسند کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ کشمیر کے باب میں پاکستان اور بھارت کے موقف میں اختلاف ہے۔ سول سوسائٹی جدوجہد کر سکتی ہے کہ وہ دونوں ممالک کی حکومتوں پر یہ دباؤ ڈالے کہ وہ اسے پُرامن طور پر اور سفارتی کوششوں سے حل کریں؛ تاہم اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جب کوئی ریاست اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے ظلم کرتی اور ایسے حالات پیدا کرتی ہے‘ جو تشدد کو تقویت پہنچائیں تو پھر سول سوسائٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حکمتِ عملی کے خلاف آواز اٹھائے۔ آج ایک سول سوسائٹی وہ ہے جس کی نمائندگی ارون دَتی رائے کرتی ہیں۔ وہ سری نگر کے سیمینار میں شرکت کرتیں اور وہاں بھارتی ریاست کے مظالم پر تنقید کرتی ہیں۔ دوسری سول سوسائٹی وہ ہے جس کی نمائندگی سیفما کر رہی ہے۔ اسے جنوبی ایشیا کی ہر خبر ہے لیکن نہیں ہے تو مقبوضہ کشمیر کی۔ 
سول سوسائٹی کی اصل قوت اخلاقی ہوتی ہے۔ اگر وہ کسی مفاد سے آلودہ ہو جائے، اس کی دیانت مشکوک ہو جائے یا وہ غلط کو غلط کہنے سے گریز کرنے لگے تو پھر وہ اعتماد کھو دیتی ہے۔ پاکستان میں اگر این جی اوز کے خلاف ایک منفی رائے پائی جاتی ہے تو اس کا سبب یہی ہے۔ لوگ ان کی علمی اور مالی دیانت کو شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ اگر کوئی تنظیم خطے میں امن کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کرنا چاہتی ہے‘ تو اسے اپنی اخلاقی ساکھ کے بارے میں حساس ہونا ہو گا ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved