کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا ضروری ہو یا نہ ہو، بولنا ضرور ضروری ہوتا ہے۔ یا کم از کم ایسا سمجھ لیا گیا ہے۔ اب کلیہ یہ ٹھہرا ہے کہ بولیے گا تو پائیے گا۔ جب تک آپ بولیں گے نہیں، کسی کو معلوم نہ ہو پائے گا کہ آپ کیا کہنا، کرنا اور پانا چاہتے ہیں۔ مگر کیا بولنا ویسا ہی لازم ہے جیسا پھیپھڑوں میں آکسیجن بھرنا؟ بہت سوں کو اِس حالت میں دیکھا گیا ہے کہ بات بات پر منہ کھولنا کچھ اِس طور ناگزیر سمجھتے ہیں جیسے ایسا نہ کرنے کی صورت میں سب کچھ کھو جائے گا یا بہت کچھ ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ اِس میں کیا شک ہے کہ بولنا ہماری بنیادی ضرورت ہے مگر یہ ہر وقت کی ضرورت ہرگز نہیں۔
آئیے، آپ کو افریقا لیے چلتے ہیں۔ شمال مغربی افریقا میں ایک قبیلہ آباد ہے جسے ''نوپے‘‘ کہا جاتا ہے۔ دیگر قبائل کی طرح نوپے قبیلے میں بھی بہت سی لوک کہانیاں مشہور ہیں۔ لوک داستانوں کے کردار نوپے قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد میں خاصے مقبول ہیں اور وہ اُن کی داستانیں سُن سُن کر بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ نوپے قبیلے کی ایک لوک داستان ایک شکاری سے متعلق ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک شکاری شکار کے لیے جنگل میں گیا۔ وہاں اُس کی نظر ایک ہرن پر پڑی۔ ہرن بہت خوبصورت اور توانا تھا۔ شکاری نے ہر حال میں اُس ہرن کا شکار کرنے کی ٹھان لی۔ مگر ہرن پھر ہرن تھا، آسانی سے کہاں ہاتھ آنے والا تھا؟ وہ سرپٹ دوڑتا رہا اور شکاری کو دوڑاتا رہا۔ یہ کھیل بہت دیر تک جاری رہا۔ پھر شام ہونے کو آئی۔ ہرن تو نہ تھکا، شکاری کا گھوڑا ضرور تھک گیا۔ اِدھر ہرن کہیں دکھائی نہ دیتا تھا اور اُدھر سُورج دھیرے دھیرے مغرب کے پاتال میں ڈوبتا دکھائی دے رہا تھا۔ شکاری پر خوف طاری ہوا۔ اُس نے واپسی کا ارادہ کیا مگر کچھ دور جانے ہی پر اندازہ ہوگیا کہ وہ بھٹک گیا ہے۔ بھرپور جنگل اور اکیلی جان! شکاری کا تو خوف کے مارے بُرا حال ہوگیا۔ مگر کرتا بھی کیا؟ جنگل کے کسی کونے میں چُھپ کر جیسے تیسے رات گزارنے کے سِوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ جنگل میں رات شروع ہو چکی تھی۔ ایک تو اندھیری رات اور وہ بھی جنگل کی! جانوروں کی آوازیں دھیرے دھیرے بلند ہونے لگیں۔ اُس نے جنگل میں ایک گوشہ تلاش کیا جو بظاہر محفوظ تھا۔ وہاں شکاری نے بستر بچھایا اور لیٹ گیا۔ رات ذرا اور ڈھلی تو ڈھلتی تاریخوں کا چاند نکل آیا۔ دُھندلی سی چاندنی میں شکاری کو اپنے پاس ایک کھوپڑی دکھائی دی۔ شکاری پر مزید خوف طاری ہو گیا۔ مگر مرتا کیا نہ کرتا کہ مِصداق کھوپڑی کو اپنے پہلو میں برداشت کیے لیٹا رہا۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ کھوپڑی میں کچھ حرکت پیدا ہوئی۔ شکاری نے کچھ دیر یہ تماشا دیکھا تو اُس کا خوف کچھ کم ہوا۔ پھر اُس نے ہمت کرکے کھوپڑی سے پوچھا۔ ''تجھے یہاں کون لایا؟‘‘ کھوپڑی کا منہ ذرا سا کھلا، گویا مسکرا رہی ہو۔ ذرا سے توقف کے بعد کھوپڑی کے جبڑے ہلے اور جواب ملا۔ ''بولنے کی عادت، اور کون؟‘‘
جواب سُنائی تو دیا مگر شکاری کی کھوپڑی میں نہ سمایا یعنی سمجھ میں نہ آیا۔ اُس نے وضاحت کی تو کھوپڑی نے کہا: ''بے محل اور بلاضرورت بولنے سے بچنا انسان کے لیے لازم ہے۔ ورنہ اِسی طور جنگل کو ٹھکانے کے طور پر قبول کرنا پڑتا ہے‘‘۔ شکاری کھوپڑی کی بات سے بظاہر متفق ہوتے ہوئے سو گیا۔ کچھ دیر بعد تڑکا ہوا۔ شکاری کی آنکھ کھلی۔ اُس نے کھوپڑی کی طرف دیکھا۔ وہ ساکت و جامد پڑی تھی۔ شکاری نے اُسے کئی آوازیں دیں مگر وہ کچھ نہ بولی۔ کھوپڑی کی طرف سے مایوس ہوکر شکاری گھوڑے پر سوار ہوا تو کھوپڑی نے خاصی بلند آواز سے اُسے الوداع کہی! شکاری نے بھی خاصے پُرجوش لہجے میں کھوپڑی سے رخصت چاہی۔ اور پھر شہر آ گیا۔
شہر پہنچ کر شکاری نے کھوپڑی والی بات دوستوں کو بتائی۔ دوستوں نے اِس بات کو آگے بڑھایا۔ ہوتے ہوتے یہ بات شہر کے حاکم تک پہنچی۔ اُس نے شکاری کو بلا بھیجا۔ شکاری حاکم کی خدمت میں حاضر ہوا اور جنگل میں گزاری ہوئی رات اور کھوپڑی سے گفتگو کا قصہ اُسے سنایا۔ حاکم کو یقین نہ آیا۔ وہ بولا: ''پرانی، گلی سڑی کھوپڑی
بھلا کیسے بول سکتی ہے؟‘‘ شکاری نے کہا کہ اگر یقین نہیں آتا تو چل کر دیکھ لیجیے اور خود بھی اُس سے بات کیجیے۔ اگر میری بات غلط نکلے تو جو چاہیں سزا دیجیے گا۔ حاکم نے سپاہیوں کا دستہ تیار کیا تاکہ وہ جنگل میں جاکر شکاری کی بیان کردہ کھوپڑی سے گفتگو کرے۔ سپاہیوں کو حکم تھا کہ کھوپڑی نہ بولے تو شکاری کی گردن اُڑا دی جائے! شکاری سپاہیوں کو جنگل کے اُس گوشے میں لے گیا جہاں کھوپڑی سے گفتگو ہوئی تھی۔ کھوپڑی وہیں پڑی تھی شکاری نے جہاں اُسے دیکھا تھا۔ اُس نے کھوپڑی کو پکارا مگر کوئی جواب نہ ملا۔ کئی بار پکارنے پر بھی کھوپڑی کے منہ سے کوئی آواز برآمد نہ ہوئی۔حاکم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سپاہیوں نے شکاری کا سَر تن سے جُدا کر دیا اور کھوپڑی کے پہلو میں رکھ کر چلے گئے۔ رات ہوئی۔ پہلے تارے نکلے، پھر چاند اُگا۔ وہی دُھندلی سی، پُراسرار چاندنی پھیل گئی۔ جب رات خاصی بیت گئی تو پُرانی کھوپڑی بولی: ''تجھے یہاں کون لایا؟‘‘ شکاری کی کھوپڑی نے خِفّت اور تاسّف سے مُزیّن تھکی تھکی اور جُھکی جُھکی سی آواز میں جواب دیا۔ ''بولنے کی عادت، اور کون؟‘‘
یہ کہانی کچھ جانی پہچانی سی نہیں لگ رہی؟ کچھ کچھ ایسی ہی کہانی ہمیں قدم قدم پر سُنائی دیتی ہے۔ ہو سکتا ہے یہ کہانی آپ کی بھی ہو۔ اور شاید ہماری اپنی بھی۔ فیضؔ نے کہا تھا ع
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
فیضؔ کا کہا ہم نے یُوں مانا ہے کہ آزاد لبوں کو اپنے لیے ''آزار‘‘ میں تبدیل کرلیا ہے! اب حال یہ ہے کہ بولنا لازم ٹھہرا ہے، خواہ کوئی سُننے کو تیار نہ ہو۔ مصیبت یہ ہے کہ جہاں خاموشی فرض کا درجہ رکھتی ہو وہاں بھی ہم بولنے کو فرض قرار دے بیٹھتے ہیں۔ اور پھر خمیازہ بھی بُھگتتے ہیں۔ بولنا ہماری ضرورت تھا اور ہے مگر اِس کے ساتھ ساتھ اب یہ ایک بیماری بھی ہے۔ بات بے بات منہ کھولنے کا عارضہ ایسا لاحق ہوا ہے کہ اب ہم سے دو گھڑی ڈھنگ سے چُپ نہیں رہا جاتا۔ اس روش پر گامزن رہنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب ہم چپ رہنے پر خود کو مجرم محسوس کرنے لگتے ہیں! پورا ماحول ہی کچھ ایسا ہو گیا ہے کہ جو خاموش رہ کر دانائی کا ثبوت دینے کی کوشش کرے وہ احمق قرار پائے اور جو بول بول کر شور مچائے وہ چور ہوتے ہوئے بھی ساہوکار کہلائے! منہ بند رکھنا پھوہڑ پن میں شمار کیا جانے لگا ہے اور بلا ضرورت بولنا فن ٹھہرا ہے۔
نوپے قبیلے کی داستان اور ہماری کہانی میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ وہاں بولنے والے کی گردن کٹ جاتی تھی اور یہاں بولنے والے خاصی بے باکی سے اُنہیں گھامڑ قرار دیتے ہیں جو خاموش رہ کر آبرو بچانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں! نوپے قبیلے کی لوک داستان کے شکاری کو بولنے کی عادت جنگل کی کھوپڑی کے پہلو میں بٹھا گئی اور یہاں یہ حال ہے کہ بولنے والے بولنے کے نام پر ذہنوں کو زہر سے بھرنے کا عمل ترک نہیں کرتے اور اُن کے صبر و سُکون کی گردن اڑا کر دم لیتے ہیں جو بلا ضرورت بولنے سے گریز کی راہ پر گامزن ہوں! یہاں کھوپڑی کوئی سوال نہیں کرتی کیونکہ دَھڑ پر موجود سَر ہی کھوپڑی کا کردار ادا کرنے پر بضد ہیں۔ اب یہ بات تو اللہ ہی کہ معلوم ہے کہ بولنے، بلکہ بولتے رہنے کی عادت ہمیں نوپے قبیلے کی لوک داستان میں موجود کھوپڑی کی صورت کس جنگل کے کس گوشے تک پہنچاکر دم لے گی!