تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     16-07-2016

دیواریں بول اٹھیں!

سری نگر سمیت مقبوضہ کشمیر کی ہر دیوار پر بڑے بڑے الفاظ میں Indian dogs get out کے لکھے ہوئے الفاظ نہ جانے بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ ساتھ ہمارا ملکی میڈیا بھی کیوں عوام سے چھپا رہا ہے؟ مصر میں تحریر چوک کا تو ہر موقع پر حوالہ دیا جاتا ہے لیکن ''بھارتی کتو دفع ہو جائو‘‘ جیسے نعروں سے مزین ہر دیوار پر بھارتی فوج کے خلاف اُن نفرت انگیز تحریروں کو کیوں اجاگر نہیں کیا جاتا جنہوں نے مقبوضہ وادی کو '' دیوار تحریر‘‘ بنا دیا ہے ۔ ایسی سینکڑوں تصویروں میں سے چند ایک میں نے اپنے موبائل میں محفوظ کر رکھی ہیں۔ ایسی ہی ایک تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بھارتی فوج کا ایک سپاہی ایک دیوار کے قریب کھڑا ہے اور اس پر لکھے ہوئے موٹے موٹے حروف میں مذکورہ الفاظ کشمیریوں کے جذبہ جنون کو آشکار کر رہے ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ اب یہ تحریر باقاعدہ ایک نعرے کی صورت کشمیر بھر میں پھیلتی جا رہی ہے۔ دوسری تصویر میں ایک کم سن بچی اپنے ہاتھ میں پکڑے ادھ کھائے سیب کو چوک میں کھڑے بھارتی فوج کے افسر کی طرف انتہائی غصے اور نفرت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے پھینک رہی ہے۔ اس قسم کی نہ جانے کتنی تحریریں کشمیر میں بھارت کے فوجی تسلط کے خلاف عوامی نفرت کی پوری کہانی بیان کر رہی ہیں۔ اگر ہمارے میڈیا کا ایک مخصوص حصہ کسی مصلحت یا سرکار کے ساتھ کسی بندھن کی وجہ سے یہ تصویریں نہیں دکھا نا چاہتا تو انہیں ایک بھارتی انجینئر جی سی راگھو، جسے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے بارڈر روڈ آرگنائزیشن میں کام کرنے کے لئے ملٹری کی انجینئرنگ برانچ کی جانب سے گزشتہ ماہ 
بھارتی فوج کے ساتھ منسلک کیا گیا، اپنے ایک دوست اریش کو ایس ایم ایس میں لکھے ہوئے یہ جملے کیوں چھپائے جا رہے ہیں: '' ہر روز بھارتی کتو واپس جائو، بھارتی کتو واپس جائو کے توہین آمیز نعرے سن سن کر مجھے تو شرمندگی سی محسوس ہونے لگی ہے اور جب بھارتی فوجی کشمیریوں کی لاشیں گھسیٹے ہوئے ندی کے تیز بہتے ہوئے پانیوں میں پھینکتے ہیں تو مجھے یہ مناظر دیکھتے ہوئے گھبراہٹ سی ہونے لگتی ہے۔ میری بار بار کی درخواستوں کے با وجود مجھے واپس نہیں بھیجا جا رہا۔ ہر طرف خون اور چیخ و پکار دیکھ کر مجھ سے تو اب بھوجن بھی صحیح طریقے سے نہیں کھایا جا رہا۔ جس جگہ پر میں بھارتی فوج کے ہمراہ مقیم ہوں وہاں سے میں نے خود دوپنڈتوں کے گھروں کو آگ کے شعلوں کی نذر ہوتے ہوئے دیکھا ہے اور یہاں کے ہندو کہتے ہیں کہ بھارتی فوج کے حالیہ مظالم کی وجہ سے اس قسم کے منا ظر کوئی آٹھ دس سال بعد دوبارہ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ کوئی دس سال قبل جب کشمیر میں پاکستانی مجاہدین کی وجہ سے علیحدگی کی جنگ تیز ہو گئی تھی تو اسی طرح کشمیری پنڈت اپنے گھر بار چھوڑ کر جموں ، دہلی اور کچھ دوسری جگہوں پر اپنی سینا کے منع کرنے کے با وجود جانا شروع ہوگئے تھے۔ اب ان پنڈتوں کو بڑی مشکل سے ایک بار پھر بھارت کی فوج اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی با قاعدہ پلاننگ سے آباد کیا جا رہا ہے جس میں انہیں تیس سے پچاس لاکھ تک فی خاندان امدادی ر قم، زمین اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات کے علا وہ دی جا رہی تھی تاکہ وہ وادی میں فوج کی جانب سے مہیا کی گئی مخصوص جگہوں پر اپنے گھر تعمیر کر سکیں‘‘۔ پیلٹ فائرنگ (pellet firing) سے 36 کشمیریوں کی شہادتوں اور1400 سے زائد نوجوانوں کے بھارتی فوج کی جانب سے سفاکانہ طریقے سے زخمی کئے جانے پر جب دنیا بھر کی رائے عامہ بشمول اقوام متحدہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی تو اسے کچھ یاد دلانا فضول ہے کیونکہ جو لوگ پانی کا ایک قطرہ منہ پر گرنے سے جاگ جاتے ہیں ان پر پورا ٹب پھینکنے کے بعد بھی آنکھیں نہ کھلیں تو یقین کر لیں کہ وہ آپ کے ساتھ نہیں بلکہ اس ظلم میں ظالم کے برا بر کے شریک ہیں۔ بد قسمتی سے مقبوضہ کشمیر کو اقوام متحدہ اور اقوام عالم نے اپنی قراردادوں کا پابند کرتے ہوئے 68 سالوں سے بھارتی فوج کی قید میں دیا ہوا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اقوام متحدہ سمیت ان سب نے ابھی تک ایک لاکھ 
سے زائد کشمیریوں کے جنازے نہ دیکھے ہوں۔ پاکستان اور بھارت میں تعینات اقوام متحدہ کی مبصر فوج کشمیریوں اور پاکستانیوں کی جانب سے اس قدر احتجاجی یادداشتیں وصول کر چکی ہے کہ گزشتہ سال کی رپورٹ کے مطا بق ان کے پاس اب انہیں رکھنے کے لیے جگہ بھی کم پڑنے لگی ہے، لیکن اس کے با وجود اقوام عالم کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگ سکی۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان نے تو کشمیریوں کی بھارتی فوج کے ہاتھوں شہا دتوں پر پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے بھی صاف ہی انکار کر دیا ہے۔ لہٰذا بتوں سے امیدیں رکھنا ہی فضول ہے۔
برہان وانی کی شہا دت پر کشمیریوں کے احتجاجی جلوس پر بھارتی فوجیوں کی جانب سے کی جانے والی گولیوں کی بارش سے اب تک عورتوں اور بچوں سمیت 36 کشمیری شہید ہو چکے ہیں اور کوئی 1400 سے زیا دہ شدید زخمی حالت میں مختلف ہسپتالوں میں پڑے ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ بھارتی سکیورٹی فورس ان ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کے اندر بھی زہریلی آنسو گیس کے گولے پھینک رہی ہے جہاں ان زخمیوں کو علاج کے لئے لایا جا رہا تھا۔ اس شیلنگ کی وجہ سے اب تک دس سے پندرہ سال عمر کے بچوں کی دم گھٹنے سے شہا دتیں ہو چکی ہیں اور زخمی ہونے والوں میں بھی بچوں کی تعداد سب سے زیا دہ ہے۔ ایسا محسو س ہو رہا ہے کہ وہ کم سن بچے جنہوں نے اپنے سامنے 2008-2010ء کے دوران اپنے 210 سے زائد رشتہ داروں کو بھارتی فوج کی گولیوں کی بھینٹ چڑھتے دیکھا تھا اور جنہوں نے یتیمی کے دکھ سہتے ہوئے اپنے سامنے ماں باپ ا ور بھائیوں کے جسموں کو گولیوں کی بوچھاڑ سے چیتھڑے بنے ہوئے قبروں میں اترتے دیکھا تھا، آج وہی بچے برہان وانی کی بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادت کے بعد آگ کے گولے بن کر سڑکوں پر نکل آئے ہیں ۔ لگتا ہے کہ ان لڑکوں کو اب اپنی زندگیوں کی کوئی پروا نہیں، وہ اسی راستے پر چل پڑے ہیں جس پر ان کے بھائی اور ماں باپ قربان ہوئے تھے۔ ان کی منزل آزادی ہے، وہ آزادی جو ان کا حق ہے، وہ آزادی جس کا ان سے اقوام عالم نے وعدہ کر رکھا ہے۔
8 جولائی کوبھارتی فوج نے تو اپنے طور پر برہان وانی کو شہید کرنے کے بعد فتح کا جشن منانا شروع کر دیا تھا لیکن وہ بھول گئی کہ برہان وانی کی شہا دت پر ہزاروں کی تعداد میں نکلنے والے کشمیریوں نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کی اور برہان وانی کی منزل ایک ہے اور وہ 36 نوجوان جنہیں بھارتی گولہ بارود نے بھون دیا ہے، ان شہیدوں کے جنازے اب وانی وانی کی فلک شگاف آوازوں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔21 جولائی کو آزاد کشمیر اسمبلی کے انتخابات کے لیے پولنگ ہو رہی ہے، جس میں پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے کشمیری پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچ کر اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں گے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ سب کشمیری ووٹ ڈالنے کے لئے نکالے گئے اپنے قیمتی وقت کی طرح کسی دن اپنے اپنے شہروں میں ایک ساتھ اکٹھے ہو کر بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف بھی دیوار بن جائیں! کیا ان سب کے پاس ووٹ کا حق استعمال کرنے کی طرح اس احتجاج کیلئے بھی کچھ وقت ہو گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved