تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     17-07-2016

گولیاںکشمیریوں کو نہیں‘ پاکستان کو لگ رہی ہیں

سوال یہ ہے کہ پہلے ترکی پر لکھوں؟ یا کشمیر پر۔کشمیر میں لڑنے والے بھائی‘ ہمارے ہیں۔ جبکہ ترک بھی ہمارے بھائی ہیں۔ لیکن اس سچائی کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ کشمیریوں سے ہمارا خون کا رشتہ ہے اور ترکوں سے مذہب کا۔ خون ہمیشہ لفظوں اور تحریر لکھنے والی روشنائی سے زیادہ گاڑھا ہوتا ہے۔ جن لوگوں کو کشمیر یاد نہیں آتا‘ وہ تسلی رکھیں‘ کشمیری بہت جلد ان کی جان چھوڑنے والے ہیں۔ کشمیری نوجوان‘ اس فیصلے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں کہ پاکستان کے آسرے پر مزید لڑنا اور خون بہانا بیکار ہے۔ خون وہ بہاتے ہیں اور تجارت دوسرے کرتے ہیں۔ آپ نے کشمیریوں کے لئے رکھا کیا ہے؟ ایک مولانا فضل الرحمن؟ کون کشمیری ہے جو‘ ان سے اپنے جدوجہد آزادی میں کسی مدد کی توقع رکھے گا؟کشمیری کیا جانتے نہیں کہ حضرت مولاناجب کشمیر کمیٹی کی ایک میٹنگ بلاتے ہیں‘ تو اس پر حکومت پاکستان کا خرچ کیا آتا ہے؟ میری شنید کے مطابق 6کروڑ ہے اور انہوں نے کشمیر کمیٹی کے نام پر جتنے بیرونی دورے کئے ہیں‘ ان پر بھی کروڑوں سے کم خرچ نہیں آیا۔ مولانا تو صرف کشمیر کے نام پر روپیہ اور ڈالر وصول کرنے والی پلٹن کے کپتان ہیں۔ اس پلٹن میں اور کتنے ہیں جو کشمیر کے نام پر اندھا دھند دولت سمیٹ رہے ہیں؟ مقبوضہ کشمیر کے اندر بھی اور باہر بھی‘ لٹیروں کی ایک پوری نسل ہے‘ جس نے اپنے نوجوانوں کو تحریک آزادی سے بیزار کر دیا ہے۔ میں اس تحریک آزادی کی بات نہیں کرتا‘ جسے نوجوان اپنے خون سے چلا رہے ہیں۔ میں اس نام نہاد تحریک آزادی کی بات کرتا ہوں‘ جس کی دکان پاکستان میں کھلی ہو یا بھارت میں؟ دھن کی وصولی صرف پاکستان سے ہوتی ہے یا برصغیر سے باہر بیٹھے ہوئے کشمیریوں سے‘ جو اپنے خون پسینے کی کمائی ''اصل جہاد کشمیر ‘‘کے لئے وقف کرتے ہیں۔
''اصل جہاد کشمیر‘‘ وہ ہے‘ جس میں کشمیری مسلمانوں کی ہر نئی نسل ‘ بھارتی اسلحے کی نئی نسل کا اپنے سینے پر تجربہ کراتی ہے۔ ہر پانچ سال کے بعد بھارتی حکومت‘ کشمیریوں پر استعمال کرنے کے لئے اسلحہ کی ایک نئی نسل میدان میں لاتی ہے اور اس کی آزمائش کشمیریوں کے سینے پر کی جاتی ہے۔ ابھی چند روز پہلے بھارتی فوج نے‘ آزادی مانگنے والے مظلوم کشمیریوںپرنئے کارتوس یا بلٹس چلائے۔ یہ وہ اسلحہ ہے‘ جو عالمی قوانین کے مطابق ممنوع ہونا چاہیے۔ یہ کارتوس آزادی مانگنے والے نہتے شہریوں کے چہروں کو نشانہ بنا کر چلایا جاتا ہے۔ منہ پر لگتے ہی اس کے چھرے سیدھے آنکھوں کا رخ کرتے ہیں اور عمومی طور پر اس کا ہدف بننے والے کی دونوں آنکھیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ ورنہ ایک آنکھ تو بہرحال ختم ہو جاتی ہے۔ جنگی قوانین میں اس طرح کے کسی بھی اسلحے کو جائز قرار نہیں دیا گیا۔ جب پاکستان میں کشمیر کے مسئلے پر سرکاری میٹنگ ہوئی‘ تب تک بھارت اس غیرقانونی اسلحہ کا استعمال شروع کر چکا تھا۔ ہماری حکومت چاہتی‘ تو اقوام متحدہ کی گلی سڑی قراردادوں کو جھاڑ کر لہرانے کے بجائے‘ اس ممنوعہ اسلحے کے استعمال پر اعتراض اٹھاتی‘ جو بے حیائی اور دیدہ دلیری سے‘ بنیادی حقوق مانگنے والے نہتے شہریوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ صرف استعمال ہی نہیں کیا جا رہا‘ اس کا نشانہ بننے والوں کا ہسپتالوں تک تعاقب کیا جاتا ہے اور وہاں زیرعلاج پڑے زخمیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر‘ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کیا کوئی ایسا جنگی قانون موجود ہے‘ جس کے تحت بھارتیوں کو ناجائز اسلحہ استعمال کرنے اور نشانہ بننے والے زخمیوں پرہسپتالوں میں پہنچ کر تشدد کرنے کی اجازت دی جاتی ہو؟ 
کشمیری اپنی آزادی کے لئے خون بہا رہے ہیں۔ اپنی آبادیاں برباد کرا رہے ہیں۔ اپنی آزادی سے محروم ہیں اور آزادیء کشمیر کی ''دکان‘ ‘ہمارے حکمرانوں نے کھول رکھی ہے۔ وہ دن کب آئے گا؟ جب مظلوم کشمیری عوام اور محب وطن پاکستانی‘ اپنے حکمرانوں سے پوچھیں گے کہ تم نے کشمیر کمیٹی کس لئے بنا رکھی ہے؟ اس پر خرچ ہونے والی رقم غریب پاکستانیوں کے خون پسینے کی کمائی ہے‘ جسے ہمارے موجودہ وزیرخزانہ اسحق ڈارحیلے بہانوں سے نچوڑ کر اپنے مقاصد کے لئے ضائع کرتے ہیں۔ یہ مقاصد کیا ہیں؟ میں عرض کرتا ہوں۔ جو کروڑوں روپے کشمیر کے نام پر حضرت مولانا کو دیئے جاتے ہیں‘ ان کے بدلے میں حضرت مولانا‘ کشمیریوں کے لئے کچھ نہیں کرتے۔ صرف ان کشمیریوں کے لئے کرتے ہیں‘ جو پاکستان میں اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ان کے خلاف کوئی تحریک اٹھے‘ تو حضرت مولانا اپنا چوغہ پہن کر جا پہنچتے ہیں اور احادیث اور تاریخ کے حوالے سنا کر‘ اپنے مقتدر اور محسن کشمیریوں کو بل پیش کر دیتے ہیں اور حکمران کشمیری خریدار‘ مولانا کا سودا خرید کر‘ ان سے خصوصی ملاقاتیں بھی کرتے ہیں اور وہ مرغن کھانے بھی کھلاتے ہیں‘ جو مقبوضہ کشمیر کے ''امرائ‘‘ کو بھی نصیب نہیں ہوتے۔ ہمارے دیانتدار وزیرخزانہ‘ 
بجٹ سے کشمیر کمیٹی کے لئے مختص رقم نکال کر‘ مولانا فضل الرحمن کے حوالے کر دیتے ہیں اور پھر مولانا کمال کرتے ہیں۔ کشمیر کمیٹی کے فنڈ سے مولانا ایسے معززین کو کھانے کھلاتے اور ان کی خاطرداری کرتے ہیں‘ جن کا نہ کشمیر سے کوئی تعلق ہوتا ہے اور نہ کشمیر کی جدوجہد آزادی سے۔ اس فنڈ سے فیضیاب ہونے والے وہ صاحب اختیار لوگ ہوتے ہیں‘ جو مولانا کو سرکاری خزانے سے دی گئی بلٹ پروف گاڑیوں کی دیکھ بھال اور ان کے پیٹرول کی فراہمی میں خلل نہ آنے دیتے ہوں۔ اس فنڈ میں ڈیزل کہیں نہ کہیں سے جھانکتا ہوگا۔ مگر اس کی مجھے خبر نہیں۔ البتہ خیبرپختونخوا میں عوام کچھ نہ کچھ ضرور جانتے ہوںگے۔ کیونکہ ڈیزل کا نام سنتے ہی وہ بے اختیار وجد میں آ کر نعرے لگانے اور ڈیزل ڈیزل پکارنے لگتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے ارکان جو کہ عوامی بجٹ کے محافظ ہیں‘ کیا انہوں نے بجٹ پاس کرتے وقت یہ سوال اٹھایا کہ کشمیر کمیٹی کو جانے والا فنڈ کہاں اور کیسے استعمال ہوتا ہے؟ اس فنڈ کا کشمیری عوام کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟ حکومت پاکستان اس فنڈ سے تنازعہ کشمیرمیں اپنے موقف کے حق میں عالمی برادری کے اندر کتنی تائید حاصل کرتی ہے؟ ہماری کشمیر کمیٹی کے چیئرمین جو کہ دلی میں خصوصی اثرورسوخ رکھتے ہیں‘ اس سے مظلوم کشمیریوں کو کیا فائدہ پہنچاتے ہیں؟ کشمیر کمیٹی کو جو فنڈز ملتے ہیں‘ وہ پاکستانی عوام کے خون پسینے کی کمائی ہے۔ کیا ہمارے اراکین قومی اسمبلی نے بجٹ پاس کرتے وقت وزیرخزانہ اسحق ڈار سے کبھی پوچھا کہ یہ رقم کس کے حوالے کی جاتی ہے؟ اس کے خرچ کا حساب کون دیتا ہے؟ پاکستانی عوام کی محنت سے جمع کیا گیا جو ایک ایک پیسہ کشمیریوں کے نام پر بٹورا جاتا ہے‘ اس کا کتنا حصہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے مفاد میں خرچ ہوتا ہے؟ یوں تو ہمارے ملک میں ہر طرف دھاندلی مچی ہے۔ ہمارے بجٹ کا ہر پیسہ غریبوں کی جیب سے نکال کر‘ امرا کے مفادات کے لئے خرچ کیا جاتا ہے اور اس کا بھی بڑا حصہ پاناما کی آف شور کمپنیوں کے کھاتوں میں جمع ہو جاتا ہے۔ ہماری بے بسی دیکھئے کہ جب ہم ان کھاتوں میں جمع شدہ چوری کی رقم کا حساب مانگتے ہیں‘ تو سامنے سے ہمیں ڈرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہمارا ہی پیسہ اور ہمی پر غراہٹیں؟ نہ پاکستان کے مظلوم عوام اپنے نام پر لئے گئے پیسے کا حساب لے سکتے ہیں اور نہ ہی مظلوم کشمیری۔ ہم کن لوگوں کے چنگل میں پھنس گئے ہیں؟ ایک طرف بھارت اپنی فوجیں لے کر کشمیریوں کو کچل رہا ہے اور دوسری طرف نریندر مودی براستہ جاتی عمرہ‘ پاکستانیوں کے سینے پر مونگ دل رہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved