تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     17-07-2016

جاگدے رہنا، پاکستانی عوام تے نہ رہنا۔۔۔!

ترکی میں ناکام فوجی بغاوت پر پاکستان میں ترک عوام کی غیرت کو سلام پیش کیا جا رہا ہے۔ اب تک اس ناکام بغاوت میں دو سو سے زائد فوجی، پولیس مین اور سویلین مارے گئے ہیں۔ 
ترک عوام کو سلام پیش کرنے و الے بڑے سمجھدار ہیں۔ وہ یہ نہیں بتا رہے کہ 1960ء کے بعد ترکی میں چار دفعہ فوجی بغاوتیں ہوئیں اور سب کامیاب رہیں۔ اب پانچویں ناکام ہوگئی۔ یہ کیوں ناکام ہوئی؟ چار بار فوج نے قبضہ کیا تو کوئی باہر نہ نکلا، اب ترک عوام کیوں باہر نکلے؟ کیا ماضی کے وردی پوش باغی ترکوںکو پسند تھے اور آج کے باغیوں سے انہیں چڑ ہوگئی، لہٰذا سب نے باہر نکل کر بغاوت کو ناکام بنا دیا؟
یہ وہ سوال ہے جس کا ہمارے ہاں جواب دینے سے گریزکیا جا رہا ہے۔ میرا خیال ہے یہ عوام کا کمال نہیں کہ انہوں نے سڑکوں پر نکل کر سیاسی قیادت کو بچا لیا، یہ کمال اس سیاسی قیادت کا ہے جس نے اپنے لوگوں کو مجبورکر دیا کہ اگر وہ خوشحال زندگی چاہتے ہیں تو باہر نکلیں۔ سب لوگ اپنے مفاد کے لیے باہر نکلے، طیب اردوان کا اقتدار بچانے کے لیے نہیں۔ 
ترک عوام کو خراج تحسین پیش کرنے سے پہلے آپ کو ترکوں کی موجودہ قیادت کا بیک گروانڈ دیکھنا ہوگا کہ کیسے طیب اردوان نے استنبول کا میئر بن کر اس شہرکی تاریخ ہی بدل دی۔ لوگوں کی نچلے لیول پر خدمت کر کے ان کے دل جیتے اور ایسے جیتے کہ ترکوں نے اسے استنبول سے اٹھا کر ملک کا وزیراعظم اور پھر صدر بنا دیا اور آج اس کے خلاف فوجی بغاوت ناکام بنا دی۔ یہ بھی نہ بھولا جائے کہ آج ترکی میں دہشت گردی کا سماں ہے۔ چودہ حملوں میں سیکڑوں ترک مارے جا چکے ہیں۔ سیاحت کی صنعت یکدم نیچے آگئی ہے۔ ترکی کے لیے یہ مشکلات کا دور ہے کیونکہ اس کی ایران، شام اور عراق کے ساتھ سرحدیں ملتی ہیں اور ترکی پر الزامات لگ رہے ہیں کہ اس نے شام میں بشار الاسد کے خلاف لڑنے والے باغیوں کی مدد کر کے اپنے لیے مشکلات پیدا کر لی ہیں۔ بعد میں انہی باغی گروپوں نے ترکی کے اندر بھی حملے شروع کر دیے۔ فوج ناراض تھی کہ طیب اردوان کی اس پالیسی کی وجہ سے خطے میں دہشت گردی بڑھ گئی اور ترکی کی اپنی سکیورٹی بھی خطرے میں پڑگئی ہے۔ انسانی حقوق کا حشر ہم دیکھ چکے ہیں۔ دو بڑے میڈیا ہائوسز پر طیب حکومت کا قبضہ ہے اور ایک پر اس کا بیٹا بیٹھا ہے۔ سوشل میڈیا پر سختی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صحافیوں کو سب سے زیادہ ترکی میں قید کیا گیا ہے۔ اردوان پرکمنٹ(تبصرہ) کرنا جرم ہے۔ 2003ء میں ہونے و الی ناکام بغاوت کے بعد بے گناہ فوجیوںکو بھی سزائیں سنائی گئی تھیں جس پر فوج کے کچھ افسران نالاں تھے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ بغاوت کرنل لیول کے افسروں نے کی تھی، اس میں اعلیٰ فوجی قیادت شامل نہیں تھی۔ اس کے باوجود پچاس فیصد ترک طیب اردوان سے محبت جبکہ باقی پچاس فیصد اس سے نفرت کرتے ہیں۔ انہی محبت کرنے والے پچاس فیصد میں سے لوگ باہر نکلے جبکہ نفرت کرنے والے گھروں میں رہے۔ نتیجہ سامنے ہے۔ 
ہمارے دانشور جو یہ سنا رہے ہیں کہ شاید اب پاکستان میں ایسا کرنا ممکن نہیں رہے گا وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ طیب اردوان اور ہمارے شریف بادشاہوں میں بڑا فرق ہے۔ اردوان استنبول کے میئر بن کر نچلی سطح پر تبدیلی لائے، بلدیاتی نظام کے ذریعے عوام کے دل جیتے، ترکی کو کھویا ہوا مقام دلوایا۔ ہمارے پاکستانی بادشاہ سلامت اس کے برعکس ہیں۔ میاں نواز شریف سات ماہ پارلیمنٹ میں نہیں جاتے۔ میاں شہباز شریف پنجاب اسمبلی میں اپنا دیدار نہیں کراتے ۔ یہاں فوجی حکمران بلدیاتی ادارے متعارف کراتے ہیں جبکہ سیاسی حکمران انہیں تباہ کر دیتے ہیں۔ جنرل مشرف دورکے بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہوئی تو زرداری اور ان کے بعد نواز حکومت نے ان کا نام تک نہیں لیا۔ سپریم کورٹ پانچ سال سیاسی حکمرانوں سے لڑتی رہی، گزشتہ برس جا کر الیکشن ہوئے لیکن اب تک بلدیاتی اداروںکے چیئرمینوںکے انتخابات نہیں کرائے گئے۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اسلام آباد کے میئر کا کیا نام ہے؟ وہ میئر جو لندن کے ایجوائے روڈ پر چارپائی ڈال کر بیٹھا رہا کہ کہیں میاں صاحب کو ہسپتال میں کوئی ضرورت پیش نہ آجائے؟ اسلام آباد کا میئر ایسے شخص کو بنایا گیا جو سی ڈی اے کا ٹھیکدار تھا اور اس نے ایف الیون اور مری میں شاہی خاندان کو گھر تعمیر کر کے دیے۔
بلدیاتی نظام جس سے اردوان نے طاقت حاصل کی اور عوام کے دل جیتے اس پر تو ہمارے حکمران یقین ہی نہیں رکھتے۔ ان کے نزدیک یہ ادارے ان کی اور ان کے حواریوں کی طاقت پرکھلے حملے کے مترادف ہیں۔ لہٰذا سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کرا بھی دیے تو سات ماہ گزرنے کے باوجود انہیں بجٹ دیا نہ چیئرمینوں کا انتخاب ہونے دیا۔ لاہور کا کوئی میئر ہی نہیں ہے۔ ایک کشمیری، خواجہ حسان نے میئر بننا ہے جو ترکی کے دورے پر پچاس لاکھ روپے خرچ بھی کر آئے ہیں۔ مئیر کے الیکشن کی ضرورت ہی نہیں۔ نام ہی کافی ہے! 
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ میں پچھتر فیصد لوگ غریب ہیں۔ سب سے زیادہ غریب بلوچستان میں ہیں۔ پورے ملک میں غریبوں کی تعداد آٹھ کروڑ ہے۔ جب سے سیاسی حکومت آئی ہے، ملک میں لٹریسی ریٹ دو فیصد کم ہوا ہے۔ سندھ میں یہ کمی چارفیصد ہے۔ یہی آٹھ کروڑ غریب عوام دوسری طرف یہ خبریں سنتے ہیںکہ ملک کے حکمران اور ان کے بچوں کی پاناما میں آف شورکمپنیاں ہیں جن کے ذریعے انہوں نے اربوں روپے کمائے اور بیرون ملک جائیدادیں خریدیں۔ نواز شریف خاندان کی لندن کے پارک لین پر اربوں روپے کی جائیداد ہے، زرداری خاندان نے دبئی میں محل خرید رکھے ہیں۔ میں نے دبئی لیکسں کے حوالے سے ان ہزاروں پاکستانیوں کے نام دیے ہیں جنہوں نے سات ارب ڈالر کی جائیداد دبئی میں خریدی رکھی ہے۔ اگر کل کلاں، خدانخواستہ پاکستان میں ترکی کی طرح کا کوئی ایڈونچر ہوتا ہے تو کیا آٹھ کروڑ غریب عوام ان حکمرانوں کی حمایت میں سڑکوں پر نکلیں گے جن کی لندن اور دبئی میں اربوں کی جائیدادیں ہیں؟ کیا وہ یہ کہتے ہوئے قربانیاں دیں گے کہ ہماری خیر ہے، ہمارے سرداروں کے سَر سلامت رہیں؟ کیا لوگ اسحاق ڈار کے لیے باہر نکلیں گے جنہوں نے چالیس صفحات کا بیان حلفی دیا تھا کہ انہوں نے کیسے شریف خاندان کے لیے منی لانڈرنگ کی تھی؟ اب نیب نے انہیں کلین چٹ دے دی ہے۔ یا پھر لوگ رحمن ملک یا ڈاکٹر عاصم حسین کو بچانے کے لیے نکلیں گے؟ 
کمال دیکھیں! رحمن ملک کے دور میں سیف سٹی سکینڈل آیا۔ چودہ ارب روپے کا منصوبہ رحمن ملک نے بنایا، پتا چلا کہ جان بوجھ کر لاگت زیادہ رکھی گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے نوٹس لیا تو بارہ ارب روپے کا کر دیاگیا۔ سنگل ٹینڈر پر چینی کمپنی کو کنٹریکٹ ملا۔ اس کمپنی کو کام شروع ہونے سے پہلے ہی سات ارب روپے ادا کر دیے گئے۔ یہ کمپنی پھر کہیں نظر نہیں آئی۔ بڑے عرصے بعد اسلام آباد شہر میں کچھ کیمرے نظرآئے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ بارہ ارب روپے خرچ ہوگئے ہیں۔ ماشاء اللہ! رحمن ملک جن کے خلاف تحقیقات ہونی چاہیے تھی وہ سینیٹ کی اس کمیٹی کے سربراہ ہیں جو ان کے خلاف تحقیقات کرنے کی مجاز ہے۔ پچھلے ہفتے الٹا رحمن ملک نے وزارت داخلہ سے سیف سٹی پروجیکٹ پر بریفنگ لی۔ اس پر بہاولپورکی دھرتی سے تعلق رکھنے والے اورکینیڈا میں رہائش پذیر خوبصورت نوجوان صاحبزادہ شاہ جہاں نے کمال کمنٹ کیا، وہ لکھتے ہیں، جب پیپلز پارٹی اقتدار میں تھی تو انہیں اپنی اپنی وزارتوں کا سب علم تھا۔ اپنی وزارت کی ہر اچھی بری چیزکا دفاع کرنا ان کے ایمان کا حصہ تھا۔ اب جب سے یہ اپوزیشن میں آئے ہیں ایسے اداکاری کرتے ہیں کہ انہیں کچھ پتا ہی نہیں کہ وہاں کیا ہوتا ہے۔ رحمن ملک اداکاری کرتا ہے 
کہ مجھے بتائوکہ سیف سٹی پروجیکٹ میںکیا ہوا تھا، جیسے اسے کچھ پتا نہ ہو؛ حالانکہ یہ سب سکینڈل اس کے دور میں آیا تھا۔ اسی طرح سلیم مانڈوی والا جو وزیرخزانہ تھے اور اب سینیٹ کی فنانس کمیٹی کے سربراہ ہیں، وہ حیران ہو کر سیکرٹری خزانہ وقار مسعود سے پوچھتے ہیں، بتائیں فلاں فلاں چیزیں کیسے غلط ہو رہی ہیں۔ سلیم مانڈوی والا بھی ایسے اداکاری کرتے ہیں جیسے انہیں علم نہ ہو کہ وزارت خزانہ میں کیا کچھ ہوتا ہے۔ انہیں سب علم ہے لیکن اداکاری لا جواب کرتے ہیں۔ شاہ جہاں کہتے ہیں، اصل سوال ان سے یہ پو چھا جانا چاہیے کہ حکومت میں ہوں تو آپ کو سب پتا ہوتا ہے، اگلے دن اپوزیشن میں آجائیں تو آپ بھولے بن جاتے ہیں جیسے علم ہی نہ ہو کہ سکینڈل کیسے ہوتے ہیں اورکیسے لوٹ مار ہوتی ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں، اب خواجہ آصف پانی و بجلی کے وزیر ہیں، انہیں اپوزیشن میں آنے دیں، یہ اگلے پانچ سال پوچھتے رہیںگے کہ وزارت کیسے چلتی ہے۔ 
ترکی کے عوام اس لیے سڑکوں پر نکلے کہ انہیں طیب اردوان کے دور میں ہونے و الی اپنی خوش حالی اور معیار زندگی خطرے میں پڑتا نظرآیا۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آٹھ کروڑ غریب عوام، سندھ کے پچھتر فیصد غریب یا پھر بلوچستان کے لوگ باہر نکل کر آپ کی لندن اور دبئی میں جائیدادوں کا دفاع کریںگے تو یہ آپ کی بھول ہے۔ بھوکے کو روٹی کی فکر ہوتی ہے جبکہ مڈل کلاس کو یہ فکر ہوتی ہے کہ مال پانی چھن نہ جائے، اس لیے وہ اپنے حقوق کے لیے لڑتی ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ عوام آپ کے لیے بھی سڑکوں پر نکلیں تو پھر انہیں خوشحالی کا چسکا لگائیں، ان کا معیار زندگی بہترکریں، اندھا دھند حرام کی دولت اکٹھی کرنے کے حرص پر قابو پائیں۔ لوگوںکو احساس دلائیں کہ وہ ان کے بغیر رل جائیں گے، جیسے ترکوں کا طیب اردوان کے بارے میں خیال ہے۔
اور ہاں، یہ بھی خیال رہے کہ آپ لندن اور جدہ میں سات برس رہے تھے تو ان دنوں میں پاکستانی عوام اپنے آپ کو زیادہ خوش حال سمجھتے تھے، بادشاہ سلامت! باقی کرنی آپ سب نے اپنی مرضی ہے! جاگدے رہنا، پاکستانی عوام تے نہ رہنا۔۔۔!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved