تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     18-07-2016

مصر اور ترکی کے بعد؟؟

اس میلینیم کے آغاز میں اکثریت کا خیال تھا کہ یہ صدی مارشل لا کی نہیں ہے،فوجی اقتدار پچھلی صدی کا قصہ ہیں۔پچھلی صدی کی آخر ی چوتھائی میں یہ کہا جانے لگا کہ مارشل لائوں کا زمانہ گزر گیا۔نیا میلینیم جمہور کے نام ہے،یعنی عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے ،عوام کے لیے۔
جمہوریت کا یہ تصور خوش کن سہی لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس رہے۔بر سرِ اقتدار گھرانے امیر سے امیر ترین ہو گئے۔ 'ھٰذا من فضل ربی‘ نے ساری دنیا میں ان کے بینک اکاؤنٹ اور اثاثوں کی نئی فصل اگادی۔اقتدار کے ساتھ کاروبار نے وہ رونق لگائی کہ خدا کی پناہ۔بچے بھی ارب پتی ہونے لگے۔ملکی ادارے ناکام ہوئے اور حکمرانوں کے ذاتی کاروبار میں دن دگنی رات چوگنی ترقی ہوتی گئی،ہوش ربا ترقی ۔اقتدار کی خواہش، عدل کے آخری مندر سے جا ٹکرائی۔اعلیٰ ترین عدالت کے جج انصاف کی کرسیاں چھوڑ کر بھاگ نکلے ۔فوج جیسا ادارہ ذاتی ملازموں جیسے سلوک کا حقدار ٹھہرا۔صبح لگا دو شام کو ہٹا دو۔نتیجہ 12اکتوبر 1999ء کے دن سامنے آیا۔اور تاریخ بدل گئی۔نیا میلینیم پھر مارشل لا کا میلینیم ٹھہرا۔کہیں مفاہمت ،کسی جگہ پسپائی مگر ہر جگہ ''سٹیٹس کو‘‘کا راج۔خلقِ خدا کا راج افسانہ تھا اور افسانہ ہے۔ان حالات میں3اہم مسلم ملکوں کا سیاسی منظر نامہ سمجھنا ضروری ہے۔تینوں آئینی ملک جہاں کسی نہ کسی طرح کے انتخابات ہوتے ہیں اور متحرک میڈیا موجودہے۔
پہلے مصر کا ذکر ہو جائے، خاص طور پر آزادی چوک سے طلوع ہونے والے جدید مصرکا،جہاں حسنی مبارک کی لیڈر شپ کو ہٹا کر انتخابات ہوئے،جن کے نتیجے میں مرسی کو صدارت کا عہدہ ملا۔مرسی نے آتے ہی اپنے فرقے کی حکومت قائم کرنے کا قصد کیا۔ مزاحمت کی جو تحریک، آزادی اسکوائر سے حسنی کے خلاف شروع ہوئی تھی، وہ پھر لوٹ آئی۔ مصر کے سیاستدان سر جوڑ کر بیٹھے۔لبرل سیکولر طبقے اور حسنی کی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف لڑنے والے ان کے ساتھ ہوگئے ۔ نتیجہ جنرل فتاح سیسی کی صورت میں نکل آیا۔پھر نیا پارلیمان بنا ،الیکشن ہوئے اور ساتھ صدر مرسی اور ان کے حامیوں کے خلاف غداری سمیت فوجداری جرائم میں ٹرائل بھی شروع ہو گیا۔حسنی مبارک اور اس کا خاندان اقتدار کے منظر سے ہٹ کر''سیف ہاؤس‘‘ میں چلا گیا۔جدید تاریخ کا پہیہ پھر الٹا گھوما ۔ حسنی پر مقدمہ چلانے کے لیے بنایا گیا پنجرہ صدر مرسی کے کام آیا۔ جس پنجرے میںحسنی وکٹری کے نشان بناتا تھا اب وہیں سے مرسی کو وہی نشان بناتے عالمی میڈیا دکھا تا ہے۔چیرہ دستی اور زبردستی کسی کو بھی راس نہیں۔حسنی ہو یا مرسی ،کرسی نے دونوں سے بیوفائی کر دی۔ ع
حذر اے چیرہ دستاںسخت ہیں فطرت کی تعزیریں
مصر میں ایفرو عرب کی آخری منظم فوج ہے،جس نے ملک کو عراق، لبنان اور لیبیا بننے سے بچا یا۔جنرل سیسی کے مخالفین اس پر ویسے ہی الزام لگا رہے ہیں جیسے حسنی اور مرسی پران کے مخالف لگاتے تھے۔
خوش قسمت ترکی دوسرا ملک ہے جو بد قسمت ثابت ہوا۔صدر طیب اردوان 2003ء میں بر سرِ اقتدار آئے۔ 10سال وزیراعظم رہنے کے بعد آئین نظریہ ء ضرورت کے مطابق تبدیل کیا۔2014ء میں ترکی کی صدارت کا عہدہ سنبھال لیا۔کرسی مضبوط کرنے کے لیے اردوان نے سب کا نمبر کاٹ ڈالا۔ان کے انتہائی قریبی ،اہلِ خانہ پر مالی بے ضابطگیوں کے تگڑے الزامات لگے۔کردوں پر بے رحمانہ حملے ان کی شناخت ٹھہری۔آزاد میڈیا کے لفافے نہ قبول کرنے والے صحافیوں کی پہلے ناکہ بندی ہوئی،پھر انہیں فوجداری ٹرائل کرنے والی عدالتوں کے کٹہرے تک کھینچا گیا۔ترکی نیٹو کا وہ واحد ملک ہے جہاں انسانی حقوق پر بڑے سوالیہ داغ نمایاں ہیں۔بد ترین اور ٹوٹل سنسر شپ بھی۔جمہوریت کے تخفظ کے لیے یہ سارے حفاظتی اقدامات اس ہفتے دھرے کے دھرے رہ گئے،جب ترکی کی فوج دو حصوں میں تقسیم ہوئی۔ 
اس حوالے سے آزاد بلاگرز کی رائے خاصی دلچسپ ہے،جن کے مطابق ترکی کے جرنیل اور عسکری اشرافیہ طیب اردوان برانڈ جمہوریت کے پھل فروٹ کھانے میں شامل ہیں،لیکن ترک فوج کے جونیئر افسران اس ''مفاہمت‘‘ کا حصہ بننے پر تیار نہ ہوئے، لہٰذا ان افسروں نے جمہوریت کا مستقبل محفوظ بنانے کی جستجو میں اپنی جانوں کو غیر محفوظ کر دیا۔ظاہر ہے قائم مقام آرمی چیف بغاوت کی ناکامی کے بعد فوجی عدالتیں لگائے گا،جہاں نوجوان افسروں کا کورٹ مارشل ہو گا اور انہیں بغاوت کے الزام میں تختہ دار پر کھینچا جائے گا۔
فرض کریں یہ سب کچھ ایسے ہی ہو جیسے نظر آ رہا ہے،تو اہم ترین سوال پھر بھی اپنی جگہ باقی ہے ۔ کیا ترکی میں جمہوریت حقیقی ہے یا عوام کی رائے حکمران خاندان کی مینجمنٹ اور ٹریک 2- سرمایہ کاری کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔کیا بے چینی ختم ہو گئی؟ نظام کی خرابیاں دور ہوئیں؟یا خون کی ہولی ہمیشہ کے لیے رک گئی؟پاکستانی قوم ترکی کے لیے سدا دعاگو ہے۔
اب آئیے پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کی جانب۔ان پر تبصرے کے لیے کچھ اشارے مدِ نظر رہیں،جو یہ ہیں۔کیا اقتدار میں بیٹھی ہوئی انجمنِ تاجران کشمیر اور فوجی قیادت کا وژن اہم قومی امور پر ایک ہے؟کیا فوج اور حکومت کشمیر پالیسی پر یکساں مؤقف رکھتے ہیں؟ کیا پاکستان کی رِٹ کی بحالی کا مقدمہ فوج لڑ رہی ہے یا انجمنِ تاجرانِ کشمیر؟کیا سٹریٹجک تعلقات میں فوج کے علاوہ حکومت نے کبھی کوئی دلچسپی لی؟ کیا موجودہ سیاسی منیجرز بھارت اور افغانستان کی طرف سے فوج اور پاکستان پر لفظوں کی بمباری کا جواب دیتے ہیں۔ان اشاروں کا جواب غیر سیاسی شخص بھی یقینا نفی میں دے گا۔ 
اگلا سوال یہ ہے اس بد اعتمادی کی وجہ کون بنا؟اس کا جواب وہ لوگ آسانی سے دے سکتے ہیں، جو وزیراعظم نواز شریف سے اٹک ،جدہ ، لندن وغیرہ میںپچھلے الیکشن سے پہلے ملتے رہے۔وزیراعظم نے ہر ملاقاتی سے ہمیشہ کہا مسئلے کا حل کچھ جرنیلوں کو لٹکانا ہے۔لیکن کبھی مخصوص نام نہیں لیے۔وزیراعظم بننے کے بعد ان کے سامنے اس بد اعتمادی سے خاتمے کے دو فوری راستے کھلے تھے ۔پہلا،کوئی معتبر شخص وزیر دفاع لگایا جاتا،جو سول ملٹری تعلقات قائم رکھنے کے لیے پل بنا سکے۔دوسرا راستہ بہتر حکمرانی تھا ۔بے لاگ احتساب اور سخت ترین معاشی ڈسپلن کے ساتھ۔اب ہر طرف سے ناکام اور مایوس ہو کر حکومت نے گلو بٹ پالیسی اپنا لی ہے۔جہاں پتا بھی کڑکتا ہے کشمیری تاجران کی اقتداری انجمن چیخ پڑتی ہے کہ وہ دیکھو خفیہ ہاتھ۔ہماری فوج ترکی اور مصر کی مسلح افواج سے ہزاروں گنا زیادہ منظم ،پروفیشنل اور کمیٹڈہے۔مصر اور ترکی کے بعد حکمران فوج کی سیاست میں مداخلت کا راگ تسلسل کے ساتھ الاپتے ہیں،جس کے دوممکنہ مقاصد ہو سکتے ہیں۔
پہلا ،سیٹی بجا کر عوام کو بوٹوں کی آواز سنانے کی ریہرسل ۔ دوسرا فوج کو مسلسل دباؤ میں رکھ کر مودی کے ایجنڈے کے لیے میدان صاف کرنا۔فیصلہ آپ خود کر لیں ،مصر اور ترکی کے بعد پاکستان میں یہ سب کون کروا رہا ہے۔رہے حکمران، تو وہ اس شعر کو آئینہ جان کر اس میں اپنا رخِ زیبا تلاش کر لیں۔ ؎
مرے مزاج کا اس میں کوئی قصور نہیں
ترے سلوک نے لہجہ بدل دیا میرا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved