تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     18-07-2016

برطانوی سیاست کی ہنگامہ خیزی

برطانوی سیاسی میدان میں گزشتہ تین ہفتوں کے دوران ہونے والی تبدیلیوں کا تصور کرنا بھی محال تھا۔ درحقیقت اگر کوئی شخص ان واقعات کو کسی فلم کے لیے تجویز کرتا (جبکہ یہ پیش نہ آئے ہوتے) تو لوگ اُس کی حماقت کا مذاق اُڑاتے۔ اُنہیں یقین نہ آتا کہ برطانوی سیاست کے اکھاڑے میں ایسے عجیب واقعات بھی پیش آ سکتے ہیں۔ پہلے یہ سوچیں کہ برطانیہ نے حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے دنیا کے سب سے بڑے اور کامیاب ترین معاشی بلاک سے خود کو الگ کر لیا۔ اس کے بعد وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون استعفا دے دیتے ہیں، جس کے بعد اقتدار کے لیے ہونے والی کشمکش میں بورس جانسن کے ساتھ اُن کے دوست مائیکل گوو وہی کچھ کرتے ہیں جو بروٹس نے سیزر کے ساتھ کیا تھا۔ اس کے بعد اندرا لیڈسم‘ تھریسا مے کے حق میں دستبردار ہو جاتی ہیں اور تھریسا مے کو ٹوری پارٹی کا لیڈر اور وزیر اعظم چن لیا جاتا ہے، اور وہ اگلے ہی روز کابینہ میں بے رحم رد و بدل کر ڈالتی ہیں۔ 
اس ہنگامہ خیز دور میں سر جان چلکوٹ کی پریشان کن رپورٹ بھی منظر عام پر آ گئی۔ اس نے بھی سیاست دانوں، جنرلوں اور انٹیلی جنس افسروں کی غلطیوں پر انگلی رکھ دی۔ سابق وزیر اعظم، ٹونی بلیئر بطور خاص تیز و تند تنقید کی زد میں آ گئے۔ جس دوران یہ سب کچھ ہو رہا ہے، لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر، جرمی کوربین کو اپنی پارٹی میں ایک طرح کی خانہ جنگی کا سامنا ہے۔ لیبر کی صفوں میں پائی جانے والی افراتفری اس حد تک ہے کہ بطور وزیر اعظم، اپنے آخری ہفتہ وار سوالات کے گھنٹے میں، ڈیوڈ کیمرون نے جرمی کوربین پر طنزیہ جملے کستے ہوئے کہا: ''ہم نے استعفیٰ دے دیا اور ایک نئے وزیر اعظم نے اپنا منصب بھی سنبھال لیا، لیکن ادھر، لیبر پارٹی ابھی تک اپنے انتخابی قوانین کے متعلق بھی فیصلہ نہیں کر پائی‘‘۔
درحقیقت کنزرویٹو کی فیصلہ کن کارروائی اور نئے قائد کو فوری اقتدار کی منتقلی اُن دونوں جماعتوں میں ایک فرق کو واضح کرتی ہے۔ لیبر پارٹی کی نسبت ٹوریز اپنے اختیارات بہت دوٹوک انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ لیبر پارٹی نہ صرف اپنے نئے قائد کی تلاش میں ہے بلکہ اسے نئے نظریاتی روابط کی بھی ضرورت ہے۔ لیبر پارٹی پہلے ٹونی بلیئر اور پھر گورڈن برائون کی قیادت میں ایک طرح کی کنزرویٹو پارٹی کا ہی دھندلا سا عکس بن کر رہ گئی تھی۔ اس کے ورکنگ کلاس سے تعلق رکھنے والے حامیوں کی بڑی تعداد محسوس کر رہی تھی کہ اس میں ان کی کوئی نمائندگی نہیں ہے کیونکہ یہ شہروں میں رہنے والے دولت مند طبقے کی جماعت بن چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بہت سے حامیوں نے بریگزٹ کے لیے ووٹ ڈالا، حالانکہ اس کی قیادت یورپی یونین کے ساتھ رہنا چاہتی تھی۔ 
اس وقت نئی وزیر اعظم کی طرف سے کابینہ میں صفائی کے نام پر بے رحم تبدیلیوں کا عمل جاری ہے؛ تاہم یہ عمل قابل فہم ہے، لیکن دنیا بھر کے مبصرین کو جس اقدام پر سب سے زیادہ حیرت ہوئی، وہ لندن کے سابق میئر اور بریگزٹ کے سرگرم حامی، بورس جانسن کو سیکرٹری خارجہ مقرر کرنا تھا۔ وہ کافی عرصے سے ایک لااُبالی اور غیر سنجیدہ شخصیت ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ موصوف کی زبان بھی خاصی ''رنگین‘‘ ہے، اور عوامی گفتگو کے دوران انتہائی رومانوی اور غیر سفارتی جملے استعمال کر جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ٹوری پارٹی کی طرف سے رکنِ پارلیمنٹ ہونے کے باوجود ''دی ٹیلی گراف‘‘ کے انتہائی بھاری مشاہرہ لینے والے کالم نگار بھی ہیں۔ سیاسی پنڈت بورس جانسن کی بطور سیکرٹری خارجہ تقرری کی وجہ اُن کا بریگزٹ کا حامی ہونا سمجھتے ہیں؛ چنانچہ تھریسا مے کی حکومت کو یقین ہے کہ یورپی یونین سے تجارتی روابط ختم ہونے کے بعد اب بورس جانسن کو دیگر ممالک کی طرف سفر کرتے دیکھا جائے گا۔ اس طرح وہ زیادہ سے زیادہ عرصہ برطانیہ سے دور رہیں گے، اور تھریسا مے حکومت کے لیے یہ بھی ایک کامیابی ہو گی۔ کچھ یہ بھی سوچتے ہیں کہ چونکہ بورس جانسن اس سنجیدہ منصب کے اہل نہیں؛ چنانچہ وہ ایک دو دوروں کے دوران ہی کچھ سنگین حماقتیں کر گزریں گے، جس کی وجہ سے مس مے کو اُنہیں فارغ کرنے کا جواز ہاتھ آ جائے گا۔ 
تھریسا مے کے صفائی کے عمل کی زد میں آنے والوں میں مائیکل گوو بھی شامل ہیں۔ اس چالباز سیاست دان نے ریفرنڈم کا اعلان ہوتے ہی اپنے دوست ڈیوڈ کیمرون کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ ریفرنڈم میں کامیاب ہوتے ہی اس نے ایک اور دوست، بورس جانسن کو دغا دیا۔ اس سے پہلے یہ طے کیا گیا تھا کہ بورنس جانسن ڈیوڈ کیمرون کے جانشین کے طور پر آگے آئیں گے، لیکن ریفرنڈم میں کامیابی کے بعد مائیکل گوو نے وعدے کی خلاف وزری کرتے ہوئے خود کو وزارت اعظمیٰ کے امیدوار کے طور پر پیش کر دیا؛ چنانچہ بورس جانسن کو منصب کی دوڑ سے الگ ہونا پڑا؛ تاہم جس وقت مبصرین سوچ رہے تھے کہ اب بورس جانس کا سیاسی کیریئر اختتام پذیر ہوا تو مس مے نے سب کو حیران کرتے ہوئے اُنہیں کابینہ میں ایک انتہائی اہم عہدہ دے دیا۔ اس دوران لیبر پارٹی کی مشکلات کا کوئی اختتام ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ پارلیمانی پارٹی کے بھاری عدم اعتماد کے ووٹ کے باوجود جرمی کوربین کا اصرار ہے کہ اُس کے حریف اُسے عام انتخابات میں چیلنج کریں۔ دراصل وہ اپنے پُرجوش حامیوں پر بھروسہ کرتے ہوئے پُرامید ہیں کہ وہ اُنہیں پھر پارٹی قائد منتخب کر لیں گے۔ اس وقت اینجلا ایگل اور اون سمتھ بھی میدان میں کود پڑے ہیں، لیکن ہو سکتا ہے کہ بعد میں وہ جرمی کوربین کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی ایک امیدوار پر متفق ہو جائیں۔ جرمی کوربین کے حریفوں کے سامنے اصل مسئلہ لیبر پارٹی کے نوجوان ووٹر ہیں جو جرمی کوربین کے سحر میں مبتلا ہیں۔ اُن کے حریف الزام لگاتے ہیں کہ جوش و جذبہ اپنی جگہ پر لیکن جرمی کوربین قیادت کی رمز سے نا آشنا ہیں؛ چنانچہ وہ اگلے عام انتخابات میں پارٹی کو کامیاب کرانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ 
اس دوران ایک امکان یہ بھی ہے کہ مس مے قبل از وقت عام انتخابات کا اعلان کرکے اپنا مینڈیٹ حاصل کر لیں۔ اگرچہ گزشتہ کولیشن حکومت کے دور میں لیبر پارٹی نے کچھ ترامیم متعارف کرائی تھیںجو حکومت کو پانچ سال سے پہلے ختم کرنے سے روکتی تھیں لیکن ایک شق ''خصوصی حالات‘‘ کی باقی ہے جسے استعمال کرتے ہوئے مس مے تازہ انتخابات کی طرف جا سکتی ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد یقینا حالات تازہ عام انتخابات کا تقاضا کرتے ہیں؛ تاہم تازہ مینڈیٹ کے علاوہ تھریسا مے لیبر پارٹی کی صفوں میں پڑنے والی دراڑوں کا بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی تاکہ ان کے ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کر سکیں؛ چنانچہ کون کہتا ہے کہ برطانوی سیاست بوریت سے بھرپور کھیل ہے۔
پس تحریر: میں لارڈز میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کھیلی جا رہی حالیہ سیریز کے پہلے ٹیسٹ میچ کے پہلے دن کا کھیل دیکھنے گیا، اور پاکستانی کپتان، مصباح الحق کی شاندار سنچری اور ''پُش اپ‘‘ دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ اگرچہ لارڈ ز کا ماحول تاریخی روایت سے بھرپور دکھائی دیتا تھا لیکن کہنا پڑے گا میچ کے دوران بوریت سے لبریز لمحے بہت زیادہ تھے۔ جدید کرکٹ، چاہے ٹیسٹ میچ ہی کیوں نہ ہو، میں ایسی بوریت کم کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اس تاریخی گرائونڈ میں چاروں طرف لگے تشہیری ہورڈنگز میں پی آئی اے کی غیر حاضری واضح تھی۔ غالباً اُسے رقم کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے؛ تاہم کچھ میرا حساب بھی قومی ایئرلائن کی طرف نکلتا ہے۔ میں نے تین ماہ سے اس کی طرف سے ایک فلائٹ، جو میں نے نہیں لی تھی، کے ریفنڈز کا منتظر ہوں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved