تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     18-07-2016

اُٹھا بندوق اور لگا نشانہ… مَردوں پر!

بہت سی باتوں پر ہماری ہنسی چُھوٹ جاتی ہے۔ جب کوئی کہتا ہے کہ محنت کا صِلہ حاصل ہو کے رہتا ہے تب ہمیں ہنستے ہنستے خیال آتا ہے کہ بات کسی اور زاویے سے برحق ہے یعنی کسی کی محنت کا صِلہ کسی نہ کسی کو تو ملتا ہے! اِسی طور جب کوئی کہتا ہے کہ لالچ بُری بلا ہے تو ہم ہنسے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جب تک لالچ کے نتیجے میں کوئی بڑی خرابی پیدا نہ ہو تب تک لالج کہاں بُری بلا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے، بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ ہم نے معاملات اِس کے برعکس دیکھے ہیں۔ سیکھنا تو بہت دور کی بات ہے، لوگ کچھ کیے بغیر بھی بہت کچھ حاصل کر لیتے ہیں اور سیکھنے کے عمل میں عمر کا بڑا حصہ کھپا دینے والے بے چارے اُن کے منہ تکنے پر مجبور ہوتے ہیں یا پھر اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں! ایک اور بات بھی ہے جس پر ہنسی روکنا ہمارے اختیار میں نہیں۔ یہ کہ ہم جس دُنیا میں جی رہے ہیں وہ مَردوں کی ہے! جب بھی کوئی آب و گِل کے اِس کھیل کو مَردوں کی دنیا قرار دیتا ہے تب ہمیں میر تقی میرؔ یاد آجاتے ہیں ؎ 
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی 
قصہ مختصر یہ کہ ہم کو عبث بدنام کیا! 
ہم اور آپ... سبھی اِس دُنیا کا حصہ ہیں۔ اور اِس دُنیا کو مَردوں کی قرار دینے والوں میں مَردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی پیش پیش ہیں۔ اِس دُنیا میں مَردوں کو جو نام نہاد اختیارات مِلے ہوئے ہیں اُن کی بنیاد پر ہم تو بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہی مَردوں کی دُنیا ہے تو ایسی دُنیا سے ہم باز آئے! ایک معاملہ ایسا ہے جس میں خواتین لاکھ تھک جائیں مگر نہیں تھکتیں۔ آپ سوچنے بیٹھ گئے۔ اِس میں سوچنا کیا؟ ٹھیک ہے آپ کے ذہن میں غیبت، لگائی بُجھائی، طنز و تشنیع اور دوسرے بہت سے معاملات بھی ہوں گے مگر بھئی، ہم تو آرائش کی بات کر رہے ہیں۔ آپ پھر غلط فہمی کا شکار نہ ہو جائیں اِس لیے وضاحت کیے دیتے ہیں کہ ہمارا اشارا گھر کی آرائش کی طرف نہیں بلکہ ذاتی چمک دمک کی طرف ہے۔ کائنات کی تصویر میں وجودِ زن سے رنگ اُسی وقت پیدا ہو گا ناں جب زن میک اپ، وضع قطع اور ملبوسات پر خاطر خواہ توجہ دے گی۔ آرائش یعنی میک اپ اور فیشن کے حوالے سے جو تحقیق کی جاتی ہے وہ بھی لوگوں کو خوب ہنساتی ہے۔ ایک زمانے تک ہم یہ سمجھتے رہے کہ خواتین کے اُمور سے متعلق تحقیق کا بازار گرم رہے گا اور ہماری طبیعت کو ہشّاش بشّاش رکھنے کا سامان کیا جاتا رہے گا مگر دوسرے بہت سے اندازوں کی طرح ہمارا یہ اندازہ بھی غلط نکلا۔
ماہرین اور محققین جب خواتین کے حوالے سے دادِ تحقیق دیتے دیتے تھک گئے تو ''خود کش حملے‘‘ کرنے پر بضد ہو گئے یعنی مَردوں کو نشانے پر لینے لگے‘ اور اب معاملہ یہ ہے کہ طِبّی اور معاشرتی اُمور پر تحقیق کے لیے کوئی ڈھنگ کا موضوع نہیں ہوتا تو مَردوں کے بارے میں کسی نہ پہلو سے تحقیق کا ڈول ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ماہرین اور محققین کو مَردوں کے حوالے سے چند موضوعات بہت مرغوب ہیں۔ وہ اپنی تحقیق اور تجزیے کی گاڑی اِن چند موضوعات کی چورنگی کے گِرد ہی گھماتے رہتے ہیں! مَرد گھر کا چولھا جلتا رکھنے کے لیے کتنی محنت کرتے ہیں، کتنے مراحل سے گزرتے ہیں اور کتنی پریشانیوں کا ڈٹ کر سامنا کرتے ہیں‘ اِس کے حوالے سے تحقیق کرنے کا ماہرین کو کم ہی خیال آتا ہے۔ اور آئے بھی کیسے؟ خود اُنہیں کون سی محنت کرنا پڑتی ہے! اُنگلیوں پر گِنے جانے والے موضوعات ہیں‘ جن کے پنجرے میں مَردوں کی زندگی کے تمام پہلو قید کر دیئے گئے ہیں۔ جب کچھ نہیں سُوجھتا تو ماہرین مَردوں کو موٹاپے کے نام پر ڈراتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ موٹاپا فلاں فلاں بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ موٹاپے کی زد میں آئے ہوئے مَردوں میں موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ موٹاپے کے حوالے سے مَردوں کو اِس قدر ڈرایا جاتا ہے کہ بہت سے مَرد تو شاید ایسی خبریں پڑھ پڑھ کر ہی ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور اِس دُنیا کو خیرباد کہہ دیتے ہیں! 
خواتین کو صنفِ نازک تسلیم کرکے بہت سی ذمہ داریوں سے سبک دوش اور بری الذمّہ قرار دے دیا گیا ہے۔ دھڑلّے سے دعوٰی کیا جاتا ہے کہ مَرد بہت مضبوط ہوتے ہیں۔ ارے کیا خاک مضبوط ہوتے ہیں؟ ہم نے رنڈووں کو دو تین سال میں قبرستان کا رُخ کرتے دیکھا ہے جبکہ بیوائیں ''غم کے سہارے‘‘ دو دو تین تین عشرے جی جاتی ہیں! اگر اِس موضوع پر زیادہ تحقیق فرمائی جا رہی ہو تو ذرا سی ورائٹی پیدا کرنے کے لیے مَردوں کے گنجے ہو جانے کی وجوہ تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے! یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی کہ مَرد اگر گنجے ہوتے ہیں تو فکر اور پریشانی سے۔ اور پریشانی کوئی اپنی ذات کی نہیں ہوتی، اہل خانہ ہی کی ہوتی ہے یعنی اِس معاملے میں بھی بے چارے مَرد ناکردہ جرم کی سزا پاتے ہیں اور بے باک ہوکر جینے کی تمنا میں بے بال ہو کر مرتے ہیں! اگر موٹاپے اور گنج پن کو تحقیق کی چَکّی میں کچھ زیادہ ہی پیسا جا رہا ہو تو معاشرتی تعلقات کے حوالے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ بے وفائی تو مَردوں کی سرشت کا حصہ ہے اور وہ کبھی کسی ایک کے ہوکر نہیں جی سکتے! ٹھیک ہے، مگر ایک وقت میں نصف درجن لڑکوں کی کمائی سے شاپنگ کرنے والیوں کے بارے میں بھی کچھ تحقیق کی جائے گی یا نہیں! 
بے چارے مَرد۔ الزام یہ ہے کہ مَردوں کی اِس دُنیا میں خواتین کی ذرا نہیں چلتی۔ خدا ہماری آنکھوں کو سلامت رکھے کہ اِن آنکھوں نے معاملہ اِس کے برعکس ہی دیکھا ہے۔ یعنی یہ کہ ہر معاملے میں خواتین کی مرضی ہی سِکّہ رائج الوقت کا درجہ رکھتی ہے! ہر فورم پر خواتین چیخ چیخ کر مَردوں کی بالا دستی اور مظالم کا رونا روتی ہیں اور دوسری طرف دل خراش حقیقت یہ ہے کہ ہم مَرد ہر معاملے میں اپنی آرزوؤں کو دِل میں گھونٹ کر، اپنی آواز کو حلق ہی میں دبوچ کر رہ جاتے ہیں! گھریلو زندگی ہی کو لیجیے۔ اگر کوئی مَرد ذرا سی ہمت کر بیٹھے اور ما فی الضمیر بیان کر بیٹھے تو خاتونِ خانہ ایسی کلاس لیتی ہیں کہ حبیب جالبؔ بے ساختہ یاد آجاتے ہیں ع 
دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دُکھ سہتے ہیں! 
اور سو المیوں کا ایک المیہ یہ ہے کہ مَرد کسی فورم پر آواز بھی نہیں اُٹھا سکتے۔ اگر اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے کی کوشش کریں تو اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپ ہی کی تو دُنیا ہے پھر اِس میں آپ کی حق تلفی؟ نہیں جناب، ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا! اور مَرد سمجھ نہیں پاتے کہ ع 
بھری دُنیا میں آخر دِل کو سمجھانے کہاں جائیں؟ 
بالی وڈ کی مشہورِ زمانہ فلم ''شعلے‘‘ کے ایک سین میں ولن گبّر سنگھ اپنے دستِ راست سانبھا سے کہتا ہے کہ اُٹھا تو ذرا بندوق اور لگا نشانہ اِس کُتّے (ویرو یعنی دھرمیندر) پر! مَردوں کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ تحقیق کے نام پر اِدھر اُدھر کی یعنی بے پَر کی اُڑانے والوں کو جب اپنی ''ریسرچ گن‘‘ کے لیے کوئی ڈھنگ کا نشانہ نہیں ملتا تو مَردوں کو نشانے پر لے کر اُن کے موٹاپے، گنجے پن یا پھر بے وفائی و طوطا چشمی پر چاند ماری کرتے ہیں! اور کوئی بھی تو نہیں جو اُنہیں اِس ''ظلم و استبداد‘‘ کی راہ میں دیوار بنے! کسی خاتون پر معمولی سے ظلم کے خلاف احتجاج کا طوفان کھڑا کرنے والی سول سوسائٹی ایسے موقع پر کہاں مر جاتی ہے؟ 
''مغل اعظم‘‘ میں شہنشاہ اکبر یعنی پرتھوی راج کپور انار کلی کے بارے میں کہتے ہیں: ''ایک کنیز نے ہندوستان کی ملکہ بننے کا خواب دیکھا اور (اِس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے) محبت کا خوبصورت بہانہ ڈھونڈ لیا!‘‘ محققین نے بھی انار کلی والا ہی طریقِ واردات اپنایا ہے۔ پہلے وہ خواتین کو تختۂ مشق بنائے ہوئے تھے۔ اب جب بھی جی چاہتا ہے، مَردوں کو نشانے پر لے کر چاند ماری شروع کر دیتے ہیں۔ اور مَردوں کا تو یہ حال ہے ع 
تِرے ''مجبور مَردوں‘‘ کی نہ یہ دُنیا نہ وہ دُنیا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved