آج فقط ایک واقعہ، کہ میٹھے بول میں کتنا اثر ہے، اور وہ کیا کیا معجزے دکھا سکتا ہے:
مسز اینڈریا برائون جیسے ہی فیکٹری کے گوشت کے شعبے میں ۔اپنا کام مکمل کر کے کولڈ روم کے بڑے کیبن سے باہر نکلی تو اسے کچھ شک سا گزرا کہ شاید وہ کولڈ روم میں گوشت رکھنے والے ایک بڑے کیبن کا ٹمپریچر چیک کرنا بھول گئی ہے اس لئے وہ جلدی سے واپس اس کیبن تک پہنچی لیکن اس کا وہم غلط نکلا کیونکہ اس کیبن کا درجہ حرارت بالکل درست حالت میں تھا مطمئن انداز میں سر ہلاتے ہوئے باہر جانے کیلئے جیسے ہی اس نے کولڈ روم کا مرکزی دروازہ کھولنا چاہا تو یہ جان کر اس کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی کہ گوشت رکھنے والے بلاک کا مرکزی دروازہ اس سے اندر جاتے ہوئے غلطی سے بند ہو گیا ہے اس نے اپنی پوری طاقت سے چیختے ہوئے دروازے کو زور زور سے کھٹکھٹانا شروع کر دیا نہ جانے کتنی دیر تک وہ دروازے کو زور زور سے توڑتی رہی لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ اس فیکٹری میں اس کے علاوہ اور کوئی ذی روح موجود نہیں ہے وہ مائنس20 ڈگری ٹمپریچر میں یکا و تنہا بے بسی کی حالت میں قید ہو چکی تھی اور وہ تلخ حقیقت اس کے سامنے تھے کہ اگر تھوڑی دیر تک وہ یہاں سے باہر نہ نکل سکی تو وہ یہیں پر منجمد ہو کر رہ جائے گی ۔ اپنی موت کے تصور سے ہی اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے گھر میں دو سال کی پیاری سی بیٹی کی تصویر اس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگی جو اس وقت کھڑکی کے ساتھ لگ کر شیشوں میں سے دیکھتے ہوئے اس کا انتظار کر رہی تھی مسز اینڈریا نے ایک بار پھر گلا پھاڑ پھاڑ کر چیختے ہوئے اپنی پوری قوت سے دروازے کو بجانا شروع کر دیا وہ اس وقت تک دروازہ کھٹکھٹاتی رہی چیختی رہی جب تک اس کے جسم میں طاقت تھی اور پھر وہ بے سدھ ہو کر ٹھنڈے فرش پر گر گئی اسے لگا کہ موت کا فرشتہ اس کے قریب ہی کہیں پہنچ چکا ہے اور وہ اپنی بے بسی پر اس چھوٹے سے وہم کو کوسنے لگی جس نے اسے اپنے فرائض کی ادائیگی کیلئے اس سرد خانے کے کیبن کا درجہ حرارت دوبارہ چیک کرنے پر مجبور کر دیا تھا ۔
اسے یقین تھا کہ اس کے ساتھی فیکٹری ورکر ز َوہاں سے جا چکے ہوں گے اور اسے اب کسی طرف سے مدد کی امید نہیں رہ گئی تھی اس نے اپنی زندگی کو ختم ہوتے ہوئے دیکھ کر خدا سے اپنے تمام گناہوں اور انسانیت سے کی جانے والی کسی بھی قسم کی زیا دتی پر معافی مانگی کیونکہ اب اسے یقین ہو چلا تھا کہ اس کا آخری وقت قریب آ چکا ہے کیونکہ اب تو بڑی مشکل سے وہ اپنے اعضا کو پوری طرح حرکت دینے سے محروم ہوتی جا رہی تھی۔۔۔ اس نے اپنے چاروں جانب در دیوار کو حسرت بھری نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا اور جب اس نے کیبن میں لگے ہوئے کلاک کی جانب دیکھا تو اسے یہ دیکھ کر حیرانگی سی ہوئی کہ وہ اب تک ایک گھنٹے سے زائد اس سرد ترین کیبن میں گزار چکی ہے اب اسے احساس ہونے لگا کہ وہ اس یخ بستہ فرش کا ہی ایک حصہ بنتی جا رہی ہے وقت گذرتا گیا اور اسے کچھ بھی احساس نہ رہا کہ وہ کہاں ہے کدھر ہے ؟۔ جیسے ہی اس کی سانس بند ہونے
کے قریب پہنچی تو جان کنی کی حالت میں اس نے اپنے تصور میں دیکھا کہ وہ اپنی ننھی منی گڑیا جیسی بیٹی سے کھیل رہی ہے جسے وہ کبھی چومنے لگتی ہے تو کبھی اس کے بالوں میں ہلکی ہلکی انگلیاں پھیرنے لگتی ہے اسے ایک سکون سا ملنا شروع ہو گیا اس نے دیکھا کہ اس کی گڑیا جیسی بیٹی نے اسے اپنے گرم لباس اور گرم بازئوں میں اٹھا لیا ہے اور وہ اسے لے کر کہیں دور جا رہی ہے وہ حیران سی ہو رہی تھی کہ دو سال کی گڑیا کے بازئوں میں اتنی طاقت کیسے آ گئی جو اس جیسی بڑی عورت کو اس نے اپنے بازئوں میں اٹھا لیا ہے؟ ۔لیکن وہ خوش تھی کہ اس کی بیٹی اس قابل ہو گئی ہے کہ اس کی دیکھ بھال کر سکے۔
فیکٹری کے بیرونی مرکزی دروازے پر اپنے فرائض انجام دینے والا گارڈ مائیکل آج بار بار اپنے سر کو کھجاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسے کچھ گڑ بڑ سی محسوس ہو رہی ہے تمام ورکرز اپنی اپنی ڈیوٹی مکمل کرنے کے بعد جا چکے ہیں اور اب اسے بھی اپنی ڈیوٹی ختم کر کے گھر جانا چاہئے کیونکہ اس کی شفٹ کو بھی ختم ہوئے پندرہ منٹ سے زائد گذر چکے ہیں۔ اسے کیوں لگ رہا ہے کہ کوئی ایک ورکر ایسا ہے جو اپنا کارڈ پنچ کرنے کے بعد اسے باہر جاتے ہوئے نظر نہیں آیا اور اگر ایسا ہے تو پھر وہ فیکٹری ورکر کون ہو سکتا ہے اور ابھی تک وہ فیکٹری کے اندر کیا کر رہا ہے؟ اچانک اس کے سر میں ایک چھناکا سا ہوا اور وہ جلدی سے گوشت کے اس کولڈ روم کی جانب تیزی سے دوڑنے لگا اور جلد ہی وہ اس ورکر کی ڈیوٹی کی جگہ پہنچا جس کامرکزی دروازہ بند تھا اس نے زور سے دروازہ کھولا تو اس کے سامنے ایک خوفناک منظر تھا جس نے ایک لمحے کیلئے اس کے اوسان خطا کر کے رکھ دیئے اس کے سامنے مسز اینڈریا برائون انتہائی یخ بستہ حالت میں اکٹھی اور اکڑی ہوئی پڑی تھی۔۔۔گارڈ مائیکل نے ایک لمحے کی بھی تاخیر کئے بغیر مسز اینڈریا کو اپنا بازئوں میں اٹھاتے ہی اپنے لمبے گرم کوٹ کے اندر چھپا یا اور تیزی سے باہر کی جانب دوڑ لگا دی ایمر جنسی روم سے اس نے ایمبولینس کیلئے فون کر دیا اور چند منٹوں بعد مسز اینڈریا کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں ڈاکٹروں کی ٹیم نے اس کی جان بچانے کی بھر پور کوششیں شروع کر دیں۔
مسز اینڈریا معجزانہ طور پر موت کے منہ میں جانے سے بچ گئی۔۔۔۔گارڈ مائیکل سے جب پوچھا گیا کہ اسے یہ خیال کیسے آیا کہ مسز اینڈریا برائون باہر نہیں گئی کیا اس سے پہلے بھی اسے ایسا کوئی اتفاق ہو چکا ہے گارڈ نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ مجھے یہاں کام کرتے ہوئے سات سال ہو چکے ہیں لیکن ایسا اتفاق پہلے کبھی بھی نہیں ہوا یہاں سینکڑوں لوگ کام کرتے ہیں جو روزانہ یہاں کام کیلئے آتے اور پھر کام ختم کرنے کے بعد چلے جاتے ہیں لیکن مسز اینڈریا واحد ایسی ورکر ہیں جو صبح اپنے کام کیلئے کارڈ پنچ کرتے وقت اسے صبح بخیر کہنا نہیں بھولتی اور اسی طرح جب وہ اپنے کام سے فارغ ہو کر کارڈ پنچ کرتے ہوئے باہر نکلنے لگتی تو مسکرتے ہوئے مجھے'' کل تک کیلئے خدا حافظ‘‘ کہنا نہیں بھولتی جبکہ فیکٹری کے باقی ورکرکارڈ پنچ کرنے کے بعد چپکے سے باہر چلے جاتے ہیں سوائے اپنی اور فیکٹری کی معمول کی تعطیلات کے ایک دن بھی ایسا نہیں گذرا کہ مسز اینڈریا نے فیکٹری میں آتے اور جاتے ہوئے انتہائی میٹھی اور خوشگوار مسکراہٹ سے مجھے سلام نہ کیا ہو اورآج بھی جب مسز اینڈریا صبح اپنی ڈیوٹی پر آئیں تو انہوں نے ہمیشہ کی طرح اپنی پیار بھری مسکراہٹ سے مجھے صبح بخیر کہا۔۔۔اور جب فیکٹری میں مقررہ وقت پر چھٹی ہوئی تو سب ورکر باہر نکل گئے تو نہ جانے کتنی دیر تک وقفے وقفے سے سوچتا رہا کہ آج کچھ گڑ بڑ سی کیوں لگ رہی ہے جیسے جیسے میں سوچتا گیا میری بے چینی بڑھنے لگی اور پھر اچانک یک دم مجھے خیال آیا کہ مسکراہٹ اور '' کل تک کیلئے خدا حافظ‘‘ کے الفاظ ابھی تک نہیں سنے اور پھر مجھے یقین ہو گیا کہ مسز اینڈریا کے ساتھ کچھ گڑ بڑ ہے اور میں تیزی سے اُس شعبے کی جانب بھاگا جہاں وہ جان کنی کی حالت میں پڑی ہوئی تھیں ۔۔ مسز اینڈریا نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے مائیکل کی جانب دیکھا تو وہ عقیدت سے ان کا ہاتھ پکڑ کر بولا میڈم یہی وہ بے لوث مسکراہٹ ہے جس نے آپ کی جان بچائی کیونکہ یہ ہمیشہ مجھے احساس دلاتی تھی کہ دنیا میں کوئی ایسا بھی ہے جسے میرا خیال ہے۔۔!!