تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     19-07-2016

ہوئے تم دوست جس کے

ترکی ہمارا برادر ملک ہے۔ وہاں کے حالیہ سانحے پر‘ ہمیں خوشی سے بھنگڑے ڈالنے چاہئیں یا اظہار افسوس کرنا چاہیے؟ ایک دوست یا بھائی کے برے وقت میں‘ اس کی مدد کرنا ممکن نہ ہو‘ تو کم از کم اظہار افسوس ضرور کرنا چاہیے۔ پاکستان میں حکومت کے حامی اور حاشیہ بردار‘ اس سانحہ پر بھی بغلیں بجا رہے ہیں۔ یہ رویہ ایسا ہے کہ بے شک دوست اور بھائی کا گھر جل جائے‘ ہمیں محفوظ رہنا چاہیے۔ہم اسی قسم کے لوگ ہیں۔ گزشتہ روز میں نے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی حالت زار یا حقیقی صورت حال بیان کی تھی‘ جس پر بے شمار کشمیریوں نے میرے ساتھ مل کر اظہار غم کیا۔ آج بھی مجھے امید ہے کہ ترکی اور پاکستان کے ہمدرد‘ میری رائے پر غور فرمائیں گے۔ حالیہ سانحہ کے بعد‘ ترکی پر کیا گزری اور گزر رہی ہے؟ ترکی کی فوج‘ پوری مسلم دنیا میں پاکستان کے بعد‘ سب سے زیادہ منظم اور طاقتور سمجھی جاتی ہے۔ حالیہ واقعات کے نتیجے میں ترکی کا یہ امتیاز برقرار رہا یا اسے نقصان پہنچا؟ اسے کم سے کم تر‘ عقل والا بھی ‘کسی منظم فوج کے اندر بغاوت پر‘ اظہار تشویش ہی کرے گا۔ فوج میں بغاوت کا مطلب ہوتا ہے‘ فوجی طاقت کا کمزور ہونا اور اس کا منظم اور متحد رہنا‘کسی بھی ملک کی دفاعی طاقت کی مضبوطی کا ثبوت ہے۔ جو کچھ ترکی میں ہوا‘ وہاں کے عوام کے لئے دکھ اور صدمے کی بات ہے۔ کون ہے‘ جو ترکی میں فوجی بغاوت پر بغلیں بجا رہا ہے؟ اور کون ہے‘ جو اسے عوام کی فتح قرار دے رہا ہے؟ دفاعی سائنس کے ہر ماہر کی ایک ہی رائے ہوتی ہے کہ جس فوج میں بغاوت ظاہر ہو جائے‘ تو یہ اس کے زوال کی پہلی نشانی ہوتی ہے اور ترکی میں جو کچھ ہوا‘ وہ اس کے زوال کی دردناک نشانی ہے۔ کون ہے‘ جو ترکی کے اندر باہمی خونریزی پر خوشی کا اظہار کر رہا ہے اور پھر کہتا ہے کہ میں ترکوں کا دوست ہوں؟دنیا کی اعلیٰ ترین افواج میں سے ایک ایسی فوج ‘ جسے ہم اپنا دست و بازو اور بھائی تصور کرتے ہیں‘ اس کے 6000 اعلیٰ تربیت یافتہ افسروں اور جوانوں کو گرفتار کر کے‘ سڑکوں پر ان کی تذلیل کی جائے۔ ان کی جرات اور بہادری کے وہ اعزازات جو کہ کندھوں اور سینوں پر لگے ہوں‘ انہیں نوچ کر سڑکوں پر پھینکا جا رہا ہو۔ اس کے افسروں اور جوانوں کے فخر کی علامت‘ یعنی ان کی وردیاں پھاڑی جا رہی ہوں اور انہیں ٹھڈے مارتے ہوئے‘ دھکے دے کر قید خانوں میں دھکیلا جا رہا ہو۔265 افسروں اور جوانوں کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا ہو‘ سمجھ نہیں آ رہی کہ میں انہیں شہید کہوں یا ہلاک؟ 
پاکستان میں بیٹھ کر جو شخص ‘ ترک فوجیوں کی ہلاکت پر اظہار مسرت کر رہا ہے‘ اسے پاکستان کا دوست کہا جائے یا نہیں؟ ترکی کے اندر جھگڑا کیا ہے؟ وہی‘ جو وطن کے خیرخواہوں اور بدخواہوں کے درمیان ہوتا ہے۔ خیرخواہوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وطن کو نقصان نہ پہنچے اور نقصان پہنچانے والے چاہتے ہیں کہ ان کا ہاتھ روکنے والا کمزور پڑ جائے۔ترکی کے باغی فوجیوں کاکرپشن کرنے والے سیاستدانوں سے جھگڑا کیا تھا؟ صرف یہ؟ کہ قوم کی دولت ناجائز ذرائع سے حاصل کر کے‘ بیرونی ملکوں میں لگائی جائے یا آف شور کمپنیوں میں جمع کی جائے۔ظاہر ہے‘ بیرون ملک دولت جمع کرنے والے سیاستدانوں کے خلاف ‘محب وطن سپاہ کے دل میں کیسے خیالات پیدا ہو سکتے ہیں؟ یہاں میں بغاوت کرنے والے فوجیوں کی بے صبری کو غیرمناسب قرار دوں گا۔ اگر انہیں سیاسی کرپشن کے خلاف کچھ کرنا ہی تھا‘ تو ادارے کی روایات کے 
مطابق‘ اپنے جذبات اعلیٰ قیادت تک پہنچانا چاہئیں تھے۔ اس کے بعد قیادت جو بھی فیصلہ کرتی‘ اس کا احترام کیا جاتا۔ ترکی اور پاکستان میں‘ بے صبر فوجی قیادتوں کے اقدامات کے نتائج‘ ہم دونوں دیکھ چکے ہیں۔ میں اپنے ملک کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ یہاں اقتدار اور دولت کے بھوکے جرنیلوں نے‘ ملک میں رائج الوقت نظام کو تہس نہس کر کے‘ شخصی اقتدار قائم کیا۔ ادارے تباہ و برباد کئے اور آمریت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی گروہ بندی کو فروغ دیا۔ ذات برادری کی بنیاد پر ‘ مفاد پرستوں کے الگ الگ گروپ معرض وجود میں آ ئے۔ ایسی صورت میں افسروں کے اپنے گروہ بن جاتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال سابق چیف آف آرمی سٹاف کے بھائی‘ کامران کیانی پر کرپشن کے مقدمات ہیں‘ جو ابھی تک زیرتفتیش ہیں اور پھر شاہی خاندان کا کمال اس پر مستزاد۔ شاہی خاندان میں سینکڑوں سسرالیں ہیں۔ ان گنت سمدھیانے ہیں اور ان سے آ گے چل کر یہ رشتے ہزاروں میں پھیل جاتے ہیں۔ اس تقسیم میں اعلیٰ ترین افسرشاہی‘محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ فیصل آباد کے شیرعلی‘ میرے دوست رہے ہیں۔ ان کے صاحبزادے کی نسبت بھی‘ شاہی خاندان سے جا ملتی ہے۔شاہی خاندان کا یہ بچہ کتنا ہی باادب ہو؟ لیکن آداب شاہی کے معاملے میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا۔ موصوف ہرچند چھوٹے وزیر ہیں۔ لیکن ان کے بڑے وزیر ‘ سامنا کرتے ہوئے چوکڑی بھول جاتے ہیں۔ 
ترکی میں طیب اردوان کے طور اطوار بھی شاہانہ انداز کے حامل ہیں۔ موصوف نے اپنے خاندان کے لئے ایک قصر ِسفید کی تعمیر شروع کررکھی ہے۔ دنیا کے برسراقتدار خاندانوں میں‘ اس زیر تعمیر محل کے امتیازی اوصاف پر سرگوشیاں ہو رہی ہیں۔ترکی کے بادشاہ کا شہزادہ بھی‘ کم عمری میں ہی اربوں ڈالر کا تاجر بن چکا ہے۔ موصوف کی پاکستان میں کئی تجارتی دلچسپیاں ہیں۔خدا جانے‘ ان کے ساتھ اور کس کس کی حصے داری ہے؟ یہ ساری باتیں اپنی جگہ‘ سوال یہ ہے کہ ترکی خود کیسے خطرات سے دوچار ہے؟ ترکی میں بغاوت کی کوشش ‘انقرہ کے لئے انتہائی بے وقت ہوئی ہے۔اس بحران کے لئے وقت کسی طور بھی مناسب نہیں۔ترکی کے اندر‘ کردوں کی ایک بڑی آبادی ریاست کے ساتھ بر سرپیکار ہے۔کوئی بھی ملک جس کی فوج میںداخلی طور پر بغاوتوں کی لہریں چل رہی ہوں‘ اگر اسے ایک بڑے قبائلی گروپ کے ساتھ خانہ جنگی کا شکار ہونا پڑے تو یقینی طور سے یہ تشویش کی بات ہوتی ہے۔ترک فوج کواس خانہ جنگی کا سامنا اپنے ملک کے اندر کرنا پڑتا ہے ۔ ملکی ا فواج سے برسرپیکار کردوں کی تعداد کافی زیادہ ہے اور وہ اپنا علیحدہ وطن قائم کرنے کے لئے ‘ عشروں سے فوج کے ساتھ چھاپہ مار جنگ لڑ رہے ہیں جو کبھی تھم جاتی ہے اور کبھی زور پکڑ لیتی ہے۔کردوں کی قوم ‘ متعدد ملکوں کے درمیان تقسیم ہے۔ عراق اور شام کی سرحدوں پر آباد کرد بھی‘ اپنی آزاد مملکت کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ترکی میں حالیہ فوجی بغاوت کے بعد‘ شام اور عراق کے کردوں کے حوصلے بھی بلند ہو سکتے ہیں اور اگر انہیں عراق اور شام کی ریاستی مدد بھی حاصل ہو جائے تو ترکی کی‘ یک جہتی کے لئے حقیقی خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔اردوان کے حالیہ بیان کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہئے۔جس میں وہ الزام لگاتے ہیں کہ'' امریکہ ‘ترکی کو تقسیم کرنے کی سازش کر رہا ہے‘‘۔یہ ہیں وہ بنیادی خطرات ‘جو حالیہ فوجی بغاوت کے نتیجے میں‘ ترکی کے اندر سر اٹھا رہے ہیں۔ترکی کے لیڈر فتح اللہ گولن‘ نے ہر چند اس فوجی بغاوت سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ فوج کے اندر ‘ان کے حامیوں کی بہت بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ میں نے کردوں اور ترکی کے اندر موجودہ سیاسی مخالفین پر نظر ڈالتے ہوئے‘ یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ حالیہ فوجی بغاوت کے بعد‘ بے شک مرکزی حکومت نے ابتدائی طو رسے‘ بظاہر حالات پر قابو پا لیا ہے۔ لیکن جو نئے خطرات سر اٹھا رہے ہیں‘ ان سے نمٹنا‘ اردوان کے لئے بے حد مشکل ہو گا۔ جس فوجی بغاوت پر پاکستان میں اردوان کے حامی بغلیں بجا رہے ہیں‘ اس کی مشکلات میں روزبروز اضافہ ہونے جا رہا ہے۔ بغاوت ناکام نہیں ہوئی بلکہ متعدد بغاوتوںکے بیج بو گئی ہے۔ ترکی اور پاکستان کے'' جمہوری‘‘ لیڈروں کا پاناما کی شاخِ نازک پہ جو آشیانہ بناہے‘ ناپائیدار ہو گا۔ روزانہ ٹی وی چینلوں پر‘ زور زور سے بغلیں بجانے والا ایک کارندہ تو روپوش ہو چکا ہے۔ دیکھئے! باقی کہاں کہاں نغمہ سرائی کرتے ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved