تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     19-07-2016

اب کیا دیکھیں راہ تمہاری

فیض صاحب کے مجموعہ کلام (شام شہر یاراں) کے صفحہ نمبر 99 پرآپ وُہ گیت پڑھ سکتے ہیں جو آج کے کالم کا عنوان ہے۔ فیض صاحب نے محبوب کو راہ دیکھنے کا پروگرام ادھورا چھوڑنے کا یہ جواز پیش کیا کہ ساری رات انتظار جاری رہا، رات بیت چلی ہے اور محبوب کا نام و نشان نظر نہیں آتا۔ وہ آگے چل کر لکھتے ہیں:
چھوڑو غم کی بات 
غم سے آنسو تھک گئیں اکھیاں
گزر گئی برسات
بیت چلی ہے رات
اس گیت سے پہلے اور بعد میں بھی ایک گیت ہے ۔ پہلا گیت جس فلم میں استعمال کیا گیا اُس کا نام تھا ''قسم اُس وقت کی‘‘ ، درمیانی گیت فلم ''جاگو ہوا سویرا‘‘ نامی فلم کے لئے لکھا گیا اور تیسرا گیت فلم ''سکھ کا سپنا‘‘ کے لئے۔ ''جاگو ہوا سویرا‘‘ نامی فلم تقریباً ساٹھ سال پہلے بنائی گئی۔ اے جے کار دار اس کے ڈائریکٹر اور فلم ساز تھے۔ حال ہی میں فرانس کے ساحلی مقام کینز میں فلموں کا سب سے بڑا اور نامی گرامی عالمی میلہ سجایا گیا تو اس میں مذکورہ فلم دکھائی گئی۔ نقادوں نے کھلے دل سے اس کی اتنی تعریف کی جس کی وہ مستحق تھی۔ اس فلم کو 1959ء میں ماسکو میں ہونے والے فلمی میلے میں سونے کا تمغہ دیا گیا۔ جب اس فلم کو لندن کے Wardour Streetسینما گھر میں نمائش کے لئے پیش کیا گیا تو فیض صاحب محض اس وجہ سے شاہی قلعہ کے عقوبت خانہ میں قید تھے کہ وہ نظریاتی طور پر اشتراکی تھے۔ یہی اُن کا جرم تھا جس کی اُنہیں ساری عمر بار بار سزا دی گئی۔ مختلف جیلوں میں قید تنہائی اور شاہی قلعہ کے عقوبت خانہ میں طویل قیام۔ برطانیہ کے قابل احترام روزنامہ گارڈین نے اپنی 14جون کی اشاعت میں اس فلم پر علی نبیل احمد کا لکھا ہوا مضمون شائع کیا۔ یہ فلم وسط جون میں لندن یونیورسٹی کے سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹیڈیز میں دکھائی گئی۔ فلم کا موضوع ایک بنگالی ملاح اور مچھیرے کی کٹھن زندگی کے شب و روز ہیں۔ محنت کش کی اُس زندگی کی عکاسی کی گئی جس کے بارے میں اقبال نے لکھا تھا ع
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
گارڈین نے فلم میں گائے ہوئی اُردو گیت کا انگریزی ترجمہ شائع کیا۔ مناسب نہیں لگتا کہ اب میں اس کا اُردو ترجمہ کر کے اپنے قارئین کو پڑھائوں۔ فیض صاحب کی سیدھی سادی باتیں اُتنی ہی سلیس اور سادہ انگریزی میں ترجمہ کی گئیں، اُمید ہے کہ میرے قارئین کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی: 
Row me away, Boatman
I am But a Cloud
Above River of Woe
All alone in the Dark Night
without a homeland
I have lived forever in Exile
Soon our sorrows, Shall come to an End
Look, The day Has Dawned
فلم کی ہیروئینTripiti Mitra تھیں۔ اپنی حلیہ اور خوبصورت خد و خال سے خالص بنگالی لگنے والی۔ گائے ہوئے گیت کے پس منظر میں بنسری کی اُداس دُھن سنائی دیتی ہے۔ فلم کی عکاسی جرمن نژاد کیمرہ مینWalter Lassary نے کی اورکمال فن کا مظاہرہ کرتے ہوئےArtiflex تکنیک کا استعمال کیا۔ مختلف مناظر بنگلہ دیش (اس وقت مشرقی پاکستان) کے دریائے میگھنا کے کناروں پر فلمائے گئے۔ فلم کا پلاٹ اُس ناول سے اخذ کیا گیا تھا جو 1930ء میں Manik Bandopadhay نے لکھا تھا۔ فلم کی کہانی مچھیروں کی بڑھتی ہوئی غربت، نہ ختم ہونے والی بھوک اور سود خوروںکے ظالمانہ استحصال کے گرد گھومتی ہے۔ 
پاکستان کے ارباب اقتدار مشرقی پاکستان کی بے حد غریب آبادی کے مسائل کی سنگینی کا اندازہ کر لیتے تو فلم بنانے کے صرف 13 برس بعد نہ ملک ٹوٹتا اور نہ بنگلہ دیش بنتا۔ بنگلہ دیش کے ذکر سے یاد آیا کہ برطانوی روزنامہ گارڈین نے 18جون کو اپنی اشاعت میں وہاں کے ایک ضلعی صدر مقام راج شاہی پر آدھے صفحہ کا مضمون لکھا اور اس خوش نصیب کے شہرکے ارباب بست و کشاد پر تعریفوں کے ڈونگرے برسائے۔ وجہ؟ اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطابق دُنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سے بدترین، اب صفائی کے اعلیٰ ترین معیارکو حاصل کر چکا ہے۔ خوشی قسمتی سے یہ شہر صنعتی مرکز نہیں اور نہ سڑکوں پرکاروں کا ہجوم فضا کو آلودہ کرتا ہے۔ شہری انتظامیہ نے صرف دو کام کئے۔ اوّل، اینٹیں بنانے والے بھٹوں سے دھواں خارج کرنے والی چمنیوں پر مطلوبہ آلات لگا دیئے۔ دوم، شہر کے چپہ چپہ پر درخت اُگا دیے اور سارے ماحول کو سر سبز بنا دیا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دُنیا بھر میں صرف ترکی کا ایک شہر Igdir کی فضاصاف کرنے میں کارکردگی کے اعتبار سے راجشاہی سے بہتر ہے۔ راجشاہی کی انتظامیہ نے پٹرول یا ڈیزل سے چلنے والے سینکڑوں رکشا سواریوں کو ختم کر کے چین سے وہ تین پیہیوں والے رکشا منگوائے جو بیٹری سے چلتے ہیں۔ سڑکوں کے کناروں پر فٹ پاتھ بنانے کا یہ نتیجہ نکلا کہ گاڑٰیوں پر سفر کرنے والے پیدل چلنے لگے۔ سردیوں میں شمالی پنجاب جس بے حد تکلیف دہ دُھند کی لپیٹ میں آجاتا ہے اُسے Smog کہتے ہیں۔ وہ فضا سے دھوئیں سے پیدا ہونے والی آلودگی اس کی واحد ذمہ دار ہے۔کیا لاہور سے لے کر راولپنڈی تک کے سارے شہر راج شاہی کے نقش قدم پر نہیں چل سکتے؟ اگر صاف و شفاف حکومت فی الحال ہمارے نصیب میں نہیں تو ہم کم از کم صاف ہوا اور صاف پانی کی فراہمی کی اُمید کرنے میں تو حق بجانب ہیں۔ اگر ہمیں تصویر بنانی نہیں آتی تو نہ سہی مگر ہم اپنی صورت کو مزید بگاڑنے سے تو باز رہ سکتے ہیں۔ اگر ہمارے مذہبی رہنما اپنے خطبات میں حضرت نوحؑ کی کشتی اور حضرت عیسیٰؑ کے گدھے سے اُتر کر اپنی مساجد کے ارد گرد آلودہ ماحول کو ایک نظر دیکھیں تو شاید ہماری قسمت جاگ اُٹھے اور وہ ایک ایسی عوامی تحریک چلائیں جو پاکستان کو اسم بامسمی بنا دے۔ یعنی ہر آلودگی سے پاک سر زمین۔ 
یہ سطور لکھی جا رہی تھیں کہ مجھے 31 مئی کو شائع ہونے والا روزنامہ دُنیا مل گیا۔ اُس میں ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر صاحب کی سربراہی میں ایک نئی سیاسی تحریک (پاکستان فریڈم موومنٹ) کی تعارفی پریس کانفرنس کی خبر پڑھ کرمیرا دل خوش ہو گیا۔ یہ جان کر کہ خوشگوارحیرت دوبالا ہوگئی ع 
ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی
اب ہم لندن کے اُس بلند پایہ عالمی شہرت کے مالک تعلیمی ادارہ (سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹیڈیز) کی طرف واپس چلتے ہیں جہاں فیض صاحب کی شہرہ آفاق فلم دکھائی گئی اور اُس نے بڑی داد سمیٹی۔ فلم کا موضوع پاکستان کے کروڑوں عوام کی غربت تھی۔ ہر قسم کے وسائل سے مالا مال ملک کی آبادی کی اکثریت خط افلاس سے نیچے زندگی کی بھاری صلیب اُٹھا کر جینے پر کیوں مجبور ہے؟ اس کا جواب مذکورہ تعلیمی ادارے میں ہونے والی ایک ایسی تقریب میں دیا گیا جو جناب شاہد احمد کی کتاب کی رُونمائی کے لئے پچھلے ماہ منعقد کی گئی تھی۔ آپ کتاب کا نام پڑھ لیں تو آپ کو نفسِ مضمون کا خود بخود پتہ چل جائے گا:
Rentier Capitalism: Disorganised Development and Social Injustice in Pakistan
یہ کتاب برطانیہ کے سب سے بڑے پبلشرزMacmillan نے بڑے اہتمام سے شائع کی ہے۔ فاضل مصنف اس لئے بھی تعریف کے مستحق ہیںکہ اُنہوں نے نہ صرف اس کالم نگار کو بڑے چائو سے کتاب کی رُونمائی کی تقریب میں بلایا بلکہ تاکیداً کہا کہ میں روزنامہ دُنیا کے ذہین قارئین کو اُن کی فکر انگیزکتاب سے ضرور متعارف کرائوں۔(کاش! شاہد احمد کے علاوہ بھی کوئی نیک بخت یہ فرمائش کرتا۔) شاہد احمد اقوام متحدہ کے بڑے عہدوں پر متمکن رہ چکے ہیں۔ ریٹائر ہوئے تو ساری توجہ پاکستان کے معاشی مسائل پر دی اور کمال کی کتاب لکھی۔ آپ کا کالم نگار اسے ابھی تک خرید کر نہیں پڑھ سکا۔ چونکہ اس کی قیمت 75 پائونڈ ہے جو کہ بارہ ہزار روپے بنتی ہے جو میری استطاعت سے زیادہ ہے(فاضل مصنف نے مجھے دو تہائی رعایت پر کتاب فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔) مگر تقریب میں شمولیت اورکتاب کے مندرجات پر عالمی شہرت کے معاشی ماہرین کی تقاریر سن کر مجھے اچھی طرح پتا چل گیا کہ شاہد صاحب نے اپنی کتاب میں کیا لکھا ہے۔ وہ آپ بھی پڑھ لیں۔ مشرق بعید کے تمام ترقی یافتہ ممالک کے برعکس پاکستان نے سماجی شعبہ (تعلیم و صحت) پر کم از کم رقم خرچ کی۔ حکمران طبقہ نے اپنے مالی مفادات کو ملکی مفادات پر مقدم رکھا۔ اندرونی اورگھریلو قدرتی وسائل (مثلاً پن بجلی اور شمسی توانائی)کو نظر اندازکیا۔ دھڑا دھڑ قرضے لینے اور پھر قرضوں کی قسطیں اُتارنے کے لئے مزید قرضے لینے کی جس روش کو اپنایا وہ خود کشی کے زمرہ میں آتی ہے۔ کئی ممالک کے حکمران نالائق ہوتے ہیں اور کئی کرپٹ ۔ پاکستان کے حکمرانوں میں شروع دن سے یہ دونوں مہلک اوصاف کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں۔ حقیقتاً زراعت اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں ہم نئی ٹیکنالوجی کو اپنانے میں ناکام رہے ہیں۔ آئین نو سے ڈرنا اور طرز ِکہن پر اُڑناہمارا طرہّ امتیاز رہا ہے۔ سماجی انصاف اور امن و امان ایک دھندلا خواب بن کر رہ گئے۔ مختلف علاقوں میں رہنے والوں اور مختلف طبقات میں سماجی ناہمواری گھٹنے کی بجائے بڑھتی گئی۔ عوامی خوشحالی اور قومی ترقی قدموں کی دُور سے چاپ سنتے ہمارے کان تھک گئے ہیں۔ وہ ہماری دہلیز عبور نہیں کر پاتی جب کروڑوں دکھی۔ بے وسیلہ اور بے بس لوگوں کی آہیں نکلتی ہیں تو ہمیں ان کی یہ سسکی بھی سنائی دیتی ہے ع 
اب کیا دیکھیں راہ تمہاری

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved