مقبوضہ کشمیر میں اکیس سالہ برہان وانی کی شہادت کے خلاف شروع ہوئے احتجاج کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ وادی کی سڑکیں اب تک 40 سے زیادہ جوانوں کے خون سے لالہ زار ہو چکی ہیں۔ ڈھائی ہزار کے قریب لوگ شدید زخمی حالت میں ہسپتالوں میں ہیں، جن میں 150کے قریب نوعمرافراد پیلٹ گنوںکا شکار ہوکر بینائی کھو چکے ہیں۔ دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے سرینگر کے ہسپتالوں کا دورہ کرنے کے بعد بتایا کہ یہ صورت حال ان کے لئے بھی ناقابل یقین ہے۔ ماہر چشم سدھرشن کھوکر کا کہنا تھا کہ اپنے کیریئر کے دوران انہوں نے کبھی اس طرح کے کیسیز کا سامنا نہیں کیا ‘اور ایسے کیسیز تو صرف دوران جنگ ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔ معروف دانشور ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطابق کشمیر کے زمینی حالات نے برہان وانی کو اس مقام پر پہنچادیا ہے، جہاں وہ جہان فانی کو داغ مفارقت دینے کے باوجود زندہ کھڑا ہے۔ویسے وانی کی ہلاکت پر عوامی رد عمل نے نئی دہلی سے اسلام آباد تک سبھی کو حیران و پریشان کردیا ہے۔ کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھاکہ زمینی سطح پرکشمیرکی نئی نسل کی بھارت کے تئیںناراضگی اس حد تک بڑھ چکی ہے۔کئی پاکستانی دانشوروں کو تو میں نے یہ کہتے بھی سنا کہ آخر کس بل بوتے پر کشمیریوں نے یہ تحریک شروع کی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ دہلی میں ایک اہم سکیورٹی میٹنگ میں دو ماہ قبل وانی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ماضی میں گو کہ کئی بار خفیہ ذرائع نے اس کو ٹریس بھی کیا گیا تھا‘ مگر مصلحتاً آپریشن نہیں کیا گیا۔دارالحکومت کوسر ی نگر منتقل کرنے کی سالانہ رسم اور امر ناتھ یاترا ایسے دو اہم واقعات ہوتے ہیں ،جب دہلی میں بیٹھے ہوئے سکیورٹی کے اعلیٰ ترین دماغ سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں ، وادیٔ کشمیر میں سکیورٹی کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں اور سکیورٹی فورسز کو ہدایات ارسا ل کرتے ہیں۔دو ماہ قبل قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال کی صدارت میں اسی طرح کی ایک میٹنگ ہورہی تھی ، جس میں زیر غور موضوع یہ تھا کہ قومی شاہراہ پر خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔ 10مارچ کو سکیورٹی فورسز نے ایک فون کال انٹرسیپٹ کی تھی جس سے اندازہ ہورہا تھا کہ جنوبی کشمیر سے سرگرم لشکر طیبہ قومی شاہراہ پر فدائین حملہ کا منصوبہ بنارہا ہے۔یہ بھی بتایا گیا کہ لشکر طیبہ نے جواہر ٹنل کے نزدیک ایک آرمی کیمپ، جواہر ٹنل پر تعینات سی آر پی ایف کی 24ویں بٹالین ‘نیز قومی شاہراہ کے کنارے جنوبی کشمیر میں واقع ایک اور سکیورٹی تنصیب کی ریکی بھی کرلی ہے۔ایک افسر نے برہان وانی کے فیس بک پوسٹس کا معاملہ اٹھایا۔ گوکہ اسے محض ایک پوسٹر بوائے سمجھ کر نظر انداز کردیا گیا تھا، مگر اس بار اس میٹنگ میں ، اس کی سکیورٹی فورسز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے انداز والی تصویریں اور ملیٹینسی کو رومانوی رنگ دینے کی کوششوں کو مستقبل کے خطرہ کے طور پر دیکھا گیا‘ اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایسے عناصر کو حکومت کا سخت چہرہ دکھانے کی ضرورت ہے تاکہ یاترا کو لاحق کسی بھی خطر ے کو ختم کردیا جائے۔ایک خفیہ اطلاع کی بنیاد پر 28 مئی کو کریم آباد گا ئوں سے وانی کے ایک دست راست طارق پنڈت کو گرفتار کرلیا گیاتھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس نے گروپ کی سرگرمیوں، خفیہ ٹھکانوں اور طریقہ کار کے بارے میں بتادیا۔ اونتی پورہ پولیس اور آرمی کی 42 ویں راشٹریہ رائفلز نے گرفتار جنگجو طارق پنڈت کی نشاندہی پر پلوامہ ضلع میں ترال کے داد سر علاقے میں ایک مکان پر چھاپہ مارا ، لیکن سکیورٹی فورسز کے اس چھاپے کے دوران کوئی گرفتار نہیں ہوسکا۔اونتی پورا پولیس اور 42ویں راشٹریہ رائفلز نے ترال میں نور پور گائوں میں کارروائی کرتے ہوئے ہوئے گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول نورپور میں ایک ٹھکانے کا پتہ لگایا۔ سیکورٹی فورسز کو وہاں سے جو چیزیں ملیں ان میں دس کمبل، دو ریک سیک ، دو اسٹیبلائزر، ایک انورٹر، ایک پائوچ، دو 24وولٹ کی بیٹریاں، ایک پٹرومیکس، چھ ٹوپیاں ، ایک ٹی شرٹ ، ایک فوجی ڈریس اور دو جوتے شامل تھے۔ حیرت کی بات تھی کہ کوئی اسلحہ برآمد نہیں ہوا۔آٹھ جولائی کو برہان وانی کی ہلاکت کے بعد جو شدید ردعمل ہوا اس کا اشارہ دہلی میں بیٹھے ارباب حل وعقد کو28جون کو اسی وقت سمجھ لینا چاہئے تھا جب حزب المجاہدین کے عسکری سمیر وانی کی ہلاکت کی خبر پھیلنے کے بعدشمالی کشمیرکے کئی علاقوں میں احتجا ج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا ۔
بھارتی حکومت نے اپنی کشمیر پالیسی دو اصولوں پر کھڑی کی ہے۔ ایک عسکریت کو ختم کرنے کے لئے سکیورٹی اقدامات کا استعمال نیز کنٹرول لائن کو پوری طرح سیل کرنا، اور دوسرا تعمیر ، ترقی اوررقوم کی فراہمی سے آزادی پسند قیادت کو عوام او رنوجوانوں سے الگ تھلگ کرنا۔گوکہ اس پالیسی کی بنیادیں 2008ء میں ہی رکھی گئی تھیں تاہم موجودہ حکومت نے انہیں زیادہ مستحکم کیا۔ مگر سیاسی عمل ، جو بالعموم سکیورٹی اور ڈویلپمنٹ کے درمیان پل کا کام کرتا ہے، بھارتی حکومت کی جدید لغت سے غائب ہے۔ تمام بیک چینلز ، نیز کشمیر اور پاکستان میں ٹریک ٹو کے رابطوں کی حوصلہ شکنی کی گئی۔افریقی ملکوں کے پانچ روزہ دورہ سے واپسی کے بعد جب وزیر اعظم نریندر مودی کشمیر میں ابتر ہورہی صورت حال کا جائزہ لے رہے تھے، بجائے اس کے کہ وہ کسی سیاسی عمل کے شروع کروانے کا عندیہ دیتے، وہ اس بات پر خفا تھے کہ کشمیر کے اخبارات، بھارت کا انگریزی میڈیا اورچند ٹی وی چینلز عسکریت کو رومانوی انداز میں پیش کر رہے تھے۔ وہ اس بات پر بھی ناراض تھے کہ برہان وانی کی نماز جنازہ میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو شرکت کی اجازت کیسے دی گئی۔چنانچہ جمعہ کی رات کو سرینگر کے اکثر میڈیا ہاوسز پر چھاپہ مارا گیا،پریس اور اخبارات کی کاپیاں ضبط کی گئیں۔میٹنگ میں وادی میں ایک کل جماعتی وفد بھیجنے کی تجویز پر بھی غور کیا گیا ، تاہم وزیر خارجہ سشما سوراج کی دلیل تھی کہ اس سے عالمی توجہ اس جانب مبذول ہوجائے گی اور کشمیر کو بین الاقوامی معاملہ بنانے میں مدد ملے گی۔اس کے بجائے کابینہ نے تمام ہندوستانی سفارتی مشنوں کو کشمیر کے مضمرات پرمتوجہ رہنے اور متعلقہ غیر ملکی حکومتوں کو اس مسئلے کے بارے میں نیز پاکستان کے ارادوں سے آگاہ کرنے کی ہدایت دی گئی۔بھارت کی بھر پور کوشش ہے کہ تحریک مزاحمت کو عالمی دہشت گردی کے ساتھ جوڑ کر ہمدردیا ں بٹوری جاسکیں۔
گوکہ آرمی نے وانی کے قتل کو معمول کی انسداد دہشت گردی کارروائی قرار دیا ‘مگر یہ اس طرف واضح اشارہ ہے کہ بھارتی فوج نے کائونٹر انسرجنسی کے اپنی روایتی نظریہ سے رجوع کرلیا ہے۔1984ء کے آپریشن بلو اسٹار کو چھوڑ کر بھارت کا کائونٹر انسرجنسی کا نظریہ برطانوی ڈاکٹرائن پر قائم رہا ہے، یعنی چوٹی کی قیادت کو نہ چھوا جائے کیونکہ اس سے چھوٹے چھوٹے گروپ پیدا ہوسکتے ہیں جن پر بعد میں کنٹرول کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کے برخلاف امریکی ڈاکٹرائن میں چوٹی کی قیادت کو نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ فوری نتائج برآمدہوں اور دنیا بھر میں ہیڈ لائنز بٹوری جاسکیں۔ابھی تک بھارت نے شمال مشرقی ریاستوں میں برپا شورش سے لے کر جموں و کشمیر تک فنڈز اور ہتھیاروں کی سپلائی کو روک دینے، درمیانی قطار کے اور اعلیٰ قیادت کے بھروسہ مند ساتھیوں کو ہلاک کرنے کی پالیسی پر عمل کیا ہے، تاکہ اعلیٰ مزاحمتی قیادت کو کمزور اور بے دست وپا کرکے مسئلہ کا سیاسی حل تلاش کرنے کیلئے مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کیا جاسکے۔ متعدد سابق سکیورٹی افسران کا کہنا ہے کہ وادی میںحزب المجاہدین اور لبریشن فرنٹ کے چوٹی کے کمانڈروں کو متعدد مرتبہ سکیورٹی حصار سے جان بوجھ کر نکلنے دیا گیا۔ا س انسداد انسرجنسی نظریہ کا مقصد عام جنگ کا ماحول پیدا کرنے کے بجائے سیاسی حل کے لئے ایک سازگار ماحول پیدا کرنا ہو تا ہے۔ 76صفحات پر مشتمل بھارتی فو ج کی 2006 ء میں جاری کائونٹر انسرجنسی ڈاکٹرائن میں اس کا اعادہ کیا گیا ہے۔ اس میں نیم روایتی جنگ کو چار زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ کم شدت کا تصادم، پراکسی وار، شورش اور غیر مستقل جنگ۔ جموں و کشمیر کی صورت حال کو پراکسی وا ر کامجموعہ قرار دیا گیا ہے‘ جسے بیرونی عناصر کی حمایت حاصل ہے ۔نیز یہ شورش بھی ہے، جہاں مقامی آبادی کا ایک طبقہ حکومت کے خلاف ہے۔سابق سول سرونٹ او رکشمیر کے معاملات کے پرانے جانکار وجاہت حبیب اللہ جہاں وزیر اعظم نریندر مودی کے اقتصادی اقدامات کی تعریف کرتے ہیں ،وہیں کہتے ہیں کہ جب سے یہ حکومت اقتدار میں آئی ہے، مقامی عناصر کے ساتھ ٹریک ٹو چینل کو برقرار رکھنے کا عنصر غائب ہے۔2010ء میں کشمیر میں شورش کے بعدآزادی پسندوں سے بات چیت کرنے والی رادھا کمار کا بھی کہنا ہے کہ مذاکرات اور سیاسی عمل کو بحال کیا جانا چاہئے تاکہ کسی امن معاہدہ پر پہنچنے کے امکانات باقی رہیں۔کشمیر میں خدمات انجام دینے والے اور فی الحال سینٹر فار لینڈ وارفیئر سٹڈیز میں سینئر فیلو بریگیڈیر نریندر کمار کا خیال ہے کہ ہر کوئی علامت( دہشت گردی) کا علاج کرنے کی کوشش کررہا ہے لیکن بیماری کا علاج کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔اس معاملے میں بیماری یہ ہے کہ عوام کو سیاسی، سماجی اور اقتصادی طور پر شامل نہیں کیا جارہا ہے۔جب سیاسی قیادت کشیدگی کو قابو میں کرنے میں مشکل محسوس کرتی ہے توسکیورٹی فورسز سے کہا جاتا ہے کہ وہ کسی جادو کی چھڑی سے اس مرض کا علاج کردے۔ اس طرح کی سٹریٹیجی ناکام ہونا ہی ہے اور اب بھی ناکام ہورہی ہے۔آگے کا راستہ کیا ہے؟ حکومت او رسیاسی قیادت کو عوامی انتشار سے نمٹنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بات سمجھنی چاہئے کہ حکومت کی کامیابی یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے عوام کو شکست دے دے اور اپنے شہریوں کو موت سے ہمکنار کردے۔
الغرض کشمیر کی تحریک مزاحمت کے حالیہ رخ نے کئی حلقوں میں خاصا جوش بھر دیا ہے‘ مگر جوش کے ساتھ ہوش میں رہنا بھی ضروری ہوتا ہے۔کئی حلقے تو جوش میں بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی بھی باتیں کررہے ہیں‘جس کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے۔اس وقت تمام تر سفارتی توانائیاں اس بات پر مرکوز ہونی چاہئیں کہ کس طرح بھارت کو کشمیر پر نتیجہ خیز بات چیت پر آمادہ کرنے کیلئے میز پر لایا جائے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بھارت میں رواں پارلیمان کے اجلاس کے دوران پاکستانی پارلیمنٹیرین اور دیگر افراد پارٹی وفاداریوں سے بالاتر ہوکر دہلی کا غیر سرکاری دورہ کرکے اپنے ہم منصبوں سے غیر رسمی طور پر مل کر ان کو مسئلہ کی سنگینی کا احساس کروائیں۔ چونکہ ان کے پاس سارک سٹیکر والے ویزہ ہیں، اس لئے ان کو دہلی آنے سے کوئی منع نہیں کرسکتا۔ یہی ایکسر سائز پاکستانی صنعت کار اور بزنس سے وابستہ افراد بھی کرسکتے ہیں، کہ اپنے بھارتی پارٹنرز کے ذریعے حکومت دہلی کو باور کرائیں کہ 60لاکھ نوجوانوں کا ناراض گروہ نہ صرف بھارت بلکہ پورے خطہ کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے، اور یہ خطرہ افغانستان سے بھی زیادہ شدید ہوسکتا ہے‘اور بزنس بھی اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کے فرزند اس معاملے میں اپنا اثر و رسوخ بھارتی صنعت کاروں پر استعمال کرکے لیڈ لے سکتے ہیں۔اسی طرح پاکستان میں کشمیر کمیٹی بھی ایسے سنجیدہ افراد کے سپرد ہونی چاہئے، جو مغربی ممالکوں میں حکومتوں اور عوام کو یہ باور کراسکیںکہ کشمیر پر سیاسی عمل ہی ایک دیرپا امن کی ضمانت ہے۔