سست الوجود آدمی ہوں‘ کالم سے چھٹی کے بہانے ڈھونڈتا رہتا ہوںاور مل بھی جاتے ہیں۔ کل والا زلزلہ ہی اتنا فکر مند کر گیا ہے کہ کچھ کرنے کو جی ہی نہیں چاہتا ماسوائے دنیا کے بے ثباتی پر غور کرنے کے۔ زلزے تو کافی بھگتا چکا ہوں لیکن اس کے ساتھ جو گڑگڑاہٹ تھی اس سے کبھی پالا نہ پڑا تھا یعنی ع
ایں ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے دگر
بس 'جو کچھ خدا دکھائے وہ ناچار دیکھنا ‘ والی بات ہے۔ کبھی یہ شعر کہا تھا ؎
تمام شہر سلامت ہے میرے گھر کے سوا
یقین کیجئے ‘ بھونچال ہی کچھ ایسا تھا
اور یہ بھی ؎
اندرے اندر پھر گیا خورے کیہا بھچال سی
کچی کندھ کھلی رہی‘ پکا کوٹھا ڈھیہ گیا
اقبال ساجد مرحوم یاد آ رہے ہیں جن کا ضرب المثل شعر ہے ؎
جہاں بھونچال بنیادِ فصیل و در میں رہتے ہیں
ہمارا حوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں
ضرب المثل اشعار میں بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ صرف شعر یاد رہ جاتا ہے‘ اس کے تخلیق کار کی کچھ خبر نہیں ہوتی۔ مثلاً یہ مصرع یار لوگ اپنی تحریر و تقریر میں بار بار استعمال کرتے ہیں ع
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
شاعر توکُجا رہا‘ ہم نے تو کبھی یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی کہ پورا شعر کیا ہے‘ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ ایک مصرع ہی اس قدر جامع ہے کہ دوسرا مصرع جاننے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی ہو۔ آج ایس ایم ایس کے ذریعے جو معلومات حاصل ہوئی ہیں ان کے مطابق پورا شعر اس طرح سے ہے ؎
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
اس شعر کے خالق ہیں میاں داد خاں سیاہؔ جن کا دور1830ء سے 1907ء تک رہا۔
اسی طرح ایک اور شعر ہے ؎
مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
اس شعر کے خالق ہیں میر طاہر علی رضوی جن کا دورانیہ 1840ء سے 1911ء تک کا ہے۔ اسی طرح کا ایک ضرب المثل شعر دیکھیے ؎
شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثل برگ
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے
اس کے خالق گمنام شاعر مرزا عظیم بیگ عظیمؔ ہیں جن کا دورانیہ 1726ء سے 1806ء تک کا ہے۔ ایک اور ضرب المثل دیکھیے ؎
خدا جانے یہ کس کی جلوہ گاہِ ناز ہے دُنیا
ہزاروں اٹھ گئے پھر بھی وہی رونق ہے محفل کی
اس شعر کے خالق ہیں سید مظفر علی اسیرؔ ‘ دورانیہ 1800ء سے 1881ئ۔ ایک مشہور و معروف شعر ؎
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
اس شعر کے خالق ہیں سید اکبر حسین رضوی الٰہ آبادی جن کا دورانیہ ہے1846ء تا 1921ئ۔ ایک اور شعر دیکھیے ؎
ہر ادا مستانہ سر سے پائوں تک چھائی ہوئی
اُف تری کافر جوانی جوش پر آئی ہوئی
یہ شعر داغ دہلوی کا ہے۔ دورانیہ1871ء تا 1905ء ہے۔
ایک اور شعر دیکھیے ؎
عمرِدراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے ‘ دو انتظار میں
شاعر ہیں عاشق حسین سیماؔب اکبر آبادی‘ دورانیہ ہے1882ء تا 1951ئ۔ پچھلے دنوں اس شعر کے بارے میں معلوم ہوا تھا کہ میرؔ کا نہیں بلکہ منشی مہاراج بہادر ورما برق کا ہے ؎
وہ آئے بزم میں آتا تو ہم نے دیکھا میرؔ
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
خدا لگتی بات تو یہی ہے کہ کاش یہ شعر میرؔ ہی نے کہا ہو کیونکہ برق کے شعر میں تخلص اس طرح سے آیا ہے کہ میرؔ سے منسوب ہو کر یہ زیادہ صاف اور چست ہو گیا ؎
ویسے یہ میرا ذاتی خیال ہے اور اس سے مقصد برقؔ کو اس کے شعر سے محروم کرنا بھی نہیں۔
مندرجہ بالا شعراء میں سے اکثر ایسے ہیں جو انتہائی غیر معروف ہیں اور ایک ہی شعر کے شاعر ہیں۔ یہ معاملہ ہر دور میں رہا ہے حتیٰ کہ ہمارے معاصرین میں بھی کچھ شعرا ایسے ہیں جنہیں ایک ہی شعر کا شاعر کہا جا سکتا ہے اور انہیں کچھ زیادہ اہمیت بھی نہیں دی جاتی‘ حالانکہ اصولی طور پر یہ انتظار کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا بھی چاہئے کہ وہ ایسے کئی اور اشعار بھی کہہ جائیں کیونکہ دنیا بھر میں مشہور ہو جانے والا شعر اتفاقیہ یا حادثے کے طور پر وجود میں نہیں آ جاتا اور جس نے ایسا شعر بھی کہا ہو وہ ایسے اور شعر بھی تخلیق کر سکتا ہے‘ کیونکہ شعر کا پوری دنیا میں پھیل جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے ورنہ ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جنہوں نے عمر بھر یہ کام کیا اور ایسا ایک بھی شعر انہیں نصیب نہیں ہوا!
زلزلے کے حوالے سے یہ گپ شپ ضروری تھی کیونکہ زلزلے کون سا یہاں روز روز آتے ہیں اور ہمیں پاناما لیکس وغیرہ سے پیدا ہونے والے بھونچالوں پر ہی گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ پھر کالم سے چھٹی منانے کا جواز بھی حاصل ہو گیا یعنی ع
خوئے بد را بہانہ بسیار
اور لطف یہ ہے کہ یہ مصرع بھی ہم نے استعمال کر کرکے اس کی مت مار رکھی ہے لیکن اس کے پہلے مصرعے کے بارے میں کھوج لگانے کی توفیق ہمیں کبھی نہیں ہوئی اور نہ ہی اس کے شاعر کے بارے میں۔
''پلاک‘‘ والوں نے خادمِ انسانیت عبدالستار ایدھی کی یاد میں اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے آج ایک مشاعرے کا اہتمام کر رکھا ہے جس کے مہمان خصوصی منو بھائی ہوں گے۔ ایدھی کی ایک خوبصورت کوٹیشن کہیں پڑھی تھی جو اس طرح سے ہے کہ کسی نے آ کر انہیں کہا کہ یہ آپ کیا کرتے ہیں کہ آپ کی ایمبولینس ہندوئوں‘ سکھوں اور عیسائیوں کو بھی اٹھائے پھرتی ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ ایدھی نے جواب دیا‘ اس لیے کہ ایمبولینس آپ سے زیادہ مسلمان ہے۔ انگلینڈ سے پہلا ٹیسٹ میچ جیتنا بہت خوب رہا لیکن اس سے خوب تر بات یہ تھی کہ کپتان مصباالحق نے یہ فتح عبدالستار ایدھی کے نام کر دی ہے۔
آج کا مطلع
ایسی کوئی درپیش ہوا آئی ہمارے
جو ساتھ ہی پتے بھی اڑا لائی ہمارے