بھٹو دور حکومت میں ایک مرتبہ وزارت اطلاعات و نشریات طاہر محمد خاں نامی ایک ہستی کے ذمے تھی۔ موصوف کا تعلق کوئٹہ سے تھا اور ازحد سادہ طبیعت پائی تھی۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے دورے کے دوران ٹی وی کی تعریف اس انداز میںکر گئے کہ ان کے الفاظ سے ریڈیو کی ہلکی سی تذلیل ظاہر ہوتی تھی۔ مقصد بہرحال ان کا یہ نہیں تھا لیکن ریڈیو سٹیشن پر تو قیامت آ گئی۔ تمام ملازمین باہر آ گئے اور طاہرمحمد خان مردہ باد کے نعرے اس زور سے لگنے لگے کہ ریڈیو سے متصل واقع ٹی وی کی عمارت میں سنائی دے رہے تھے اور ٹیلی فون کی وساطت سے چمبہ ہائوس لاہور میں ٹھہرے طاہر محمد خان تک بھی پہنچ رہے تھے۔
ریڈیو والوں کو اطلاع دی گئی کہ منسٹر صاحب آ رہے ہیں۔ سب لوگ ہال میں جمع ہوگئے۔ جہاں طاہرمحمد خان نے وضاحت کی کہ ان کا ہرگز یہ مطلب نہ تھا جو کہ سمجھا گیا ہے اس کے بعد انہوں نے ایک طویل سا قصہ دو قبیلوں کا سنایا اور آخر میںکہا کہ اس طرح دونوں قبیلوں میں غلط فہمیاں بڑھتی رہیں اور آخر کار باہمی تعلقات کی بلی مر گئی۔
یہ تو آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ وزیر موصوف نے کسی اور زبان کے محاورے کا ترجمہ کیا تھا یا ان کے ذہن کی اختراع تھی مگر انہوں نے تعلقات کی بلی مرنے کا مفہوم اپنی کہانی میں یہ لیا تھا کہ پھر دونوں قبیلوں کے تعلقات ہمیشہ کے لیے خراب ہوگئے اور ان کی صلح کا کوئی امکان نہ رہا۔ خیر طاہر محمد خان تو اپنا دورئہ لاہور ختم کرکے اسلام آباد چلے گئے مگر ہمارے ہاں تعلقات کی بلی مرنے کی ان کی بات ایک محاورہ بن گئی۔
موجودہ دورمیں میاں نوازشریف کی حکومت اور ہماری فوج کے تعلقات اکثر زیربحث رہتے ہیں لیکن اگر غور کیا جائے تو جس روز میاں نواز شریف، بھارتی وزیراعظم کی دعوت پر نئی دہلی گئے تھے، تعلقات کی بلی اسی روز مر گئی تھی۔
وزیراعظم نواز شریف انتخابات جیت کرجب برسراقتدار آئے تو انہوں نے یہ حیران کن اعلان کیا کہ وہ بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات پیدا کرنے کا مینڈیٹ لے کر آئے ہیں۔ اس میں حیرت کی بات یہ تھی کہ ہمسایوںکے ساتھ اچھے تعلقات اور ان کے لیے کوششیں تو حکومتوں کا ویسے ہی فرض ہوتا ہے۔ اس میں سے مینڈیٹ کا پہلونکالنا کافی تعجب خیز تھا۔ تاہم بعدازاں جس قسم کا جھکائو موجودہ حکومت کا بھارت سرکار کی طرف دیکھنے میں آیا اس سے ظاہر ہو گیا کہمینڈیٹ سے کیا مراد تھی۔ اور اس مسلسل جھکائو کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کشمیرکی صورت حال پر اگر وزیراعظم کوئی بھارت مخالف بات کرتے ہیں تو کوئی ان کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔
یہ صورت حال بدقسمتی کی بات ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ فوجی حکومتیں رہی ہیں اور عرصہ دراز تک رہی ہیں۔ فوجی ادوار میں بے پناہ خامیاں بھی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اکثریت مارشل لاء کے حق میں نہیں ہے، لیکن یہی اکثریت دل سے اس بات کی قائل ہے کہ پاکستان کے وقار کی اگر کوئی ادارہ حفاظت کر رہا ہے تو وہ فوج ہی کا ادارہ ہے۔ یہی اکثریت اس بات سے بھی پوری طرح واقف ہے کہ سول حکومتیں اس قدر بدعنوان ہیں کہ پاکستان کی معیشت اب ان کی بدعنوانی کا بوجھ اٹھانے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے پانچ برس تک جو طرز حکمرانی اختیار کیے رکھا اس کو جنرل کیانی کی قیادت میں فوج کا برداشت کیے رکھنا کسی گناہ کبیر سے کم نہیں تھا۔ پھرمیاں صاحب کی حکومت نے بھی کوئی ایک ایسی پالیسی اختیار نہ کی جس کو عوام دوست قرار دیا جا سکے۔ اس حکومت کے اربوں روپے کے منصوبوں پر مسلسل تنقید نے اب پاکستانیوں پر واضح کردیا ہے کہ یہ سب سیاسی چالبازیاں ہیں جو اگلا الیکشن جیتنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔
اس تمام صورت حال کو سامنے رکھ کرتجزیہ کیا جائے تو فوج کے حق میں ایک بات تو یہ جاتی ہے کہ اس کو قوم کے وقار کی محافظ پاکستان کی اکثریت تسلیم کرتی ہے اور دوسری بات جو جنرل راحیل شریف کے دور میں فوج کے کریڈٹ میں گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس ادارے نے بدعنوانی اور دہشت گردی کے خلاف اپنا موثر ہونا پاکستانیوں سے تسلیم کروالیا ہے۔
دوسری طرف سول حکومتوںکے پاس جمہوریت کے نعرے کے سوا کوئی شے نہیں جو وہ پیش کر سکیں۔ اب ہم آتے ہیں پھر فوج اور سول حکومت کے تعلقات کی بلی مرنے پر۔ میاں نواز شریف کی نئی دہلی یاترا کے بعد باہمی تعلقات کی بلی تو مر چکی تھی لیکن یہ حقیقت ابھی سب پر واضح نہیں ہوئی تھی۔ سول حکومت کو امید تھی کہ فوج دیگر اہم مسائل میں اس قدر الجھی ہوئی ہے کہ وہ دفاعی اور خارجہ حکمت عملی کے امور میں مجبوراً سول حکومتوں کی ترجیحات کو اپنالے گی جبکہ فوج کے ادارے کو یہ امید تھی کہ نواز شریف حکومت ماضی سے سبق لیتے ہوئے ان قومی امور سے چھیڑچھاڑ نہیں کرے گی جو اب تک بھی فوج کے لیے حساس ہیں۔
ہمارے ہاں سول حکومت اور فوج کے تعلقات کے حوالے سے جو ترکی کی مثال دی جاتی ہے اس کی پاکستان کی صورت حال سے بالکل معمولی سی مماثلت ہے۔لیکن کیا کیا جائے کہ یہ معمولی سی مماثلت ہمارے سول حکمرانوں کے ذہنوں میں بہت وسعت اختیار کر گئی ہے۔ اس دنیا میں تو ایک گھر کی مثال دوسرے پر منطبق نہیں ہو پاتی اور لوگ ایک ملک کی مثال دوسرے پر منطبق کرکے بیٹھ جاتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی ذہنی کیفیت بھی ایسی ہی دکھائی دیتی ہے۔ وہ غالباً اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرکے وہ ملک میں ایسی فضا پیدا کر پائیں گے کہ فوج کا اثرورسوخ کم ہو جائے گا۔ اگر یہ بات اسی طرح ہو تو غلط نہیں ہے لیکن اس بات میں مفروضہ موجود ہے کہ بھارت کے ساتھ فی زمانہ پاکستان کے تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں۔ یہ مفروضہ اس قدربے بنیاد ہے کہ ہر پاکستانی جانتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل تک اس کا امکان نہیں اور مسئلہ کشمیر کے حل کا مستقبل قریب میں امکان نہیں۔
یہ بات میری رائے میں میاں نوز شریف کو بھی معلوم ہے مگر وہ اپنی بھارت دوست پالیسی میں کچھ زیادہ ہی Investment کربیٹھے ہیں۔ بنیادی طور پر تاجر ہیں، اپنی سرمایہ کاری بچا رہے ہیں۔
1990ء میں جب میاں نواز شریف پہلی مرتبہ ملک کے وزیراعظم بنے تو ان کا پہلا غیر ملکی دورہ مالدیپ کا تھا جہاں سارک سربراہ کانفرنس ہو رہی تھی۔ میں ریڈیو کی طرف سے کوریج کے لیے اس دورے میں ان کے ہمراہ گیا تھا۔ میاں صاحب جہاز میں اپنی نشست سے اٹھ کر پیچھے تشریف لے آئے اور فرداً فرداً سب اخبار، ٹی وی اور ریڈیو کے نمائندوں سے ہاتھ ملایا۔ مزاج میں سادگی نمایاں تھی سارک کانفرنس میں بھی بھارتی وزیراعظم چندرشیکھر سے ملاقات کی باہمی تعلقات پر رسمی بات چیت کی اور واپس آ گئے۔ یہ ابتدا تھی اور آج میاں صاحب کی بھارت کے بارے میںکیا سوچ ہے۔ اگر اس کو انتہا سمجھا جائے تو یہ بات ہمیںکوئی محقق ہی بتائے گا کہ میاں صاحب کی بھارت سے متعلق سوچ میں تبدیلی کے اسباب کیا رہے۔
بہرحال حقیقت یہ ہے کہ ان کی اس سوچ کے سبب فوج اور سول حکومت کے درمیان تعلقات کی بلی جو مر چکی تھی اس کی بدبو اب ہر طرف پھیل رہی ہے۔ شروع میں تو کچھ خوشبو دار سپرے وغیرہ کی مدد سے کام چلتا رہا اور ہم ایسی آوازیں سنتے رہے کہ فوج اور سول حکومت ایک ہی صفحے پر ہیں مگر دونوں کبھی ایک صفحے پر نہیں تھے۔ Cosmetic بیانات تھے۔ اب تعلقات کی اس مردہ بلی کے جسد خاکی سے اس قدر تعفن اٹھ رہا ہے کہ کسی قسم کا خوشبو دار سپرے کام ہی نہیں آ رہا ہے بلکہ ان خوشبوئوں سے بدبو کی نوعیت اور زیادہ بدبودارہو جاتی ہے۔
ہمارے ملک پر اللہ رحم فرمائے۔ ہر طرف سے ہم خطرات میں گھرے ہیں۔ خارجہ حکمت عملی کو چیلنج پر چیلنج درپیش ہیں اور اندرون ملک یہ حال ہے کہ فوج اور سول حکومت کے تعلقات کی مردہ بلی مسلسل تعفن پھیلا رہی ہے۔