تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     20-07-2016

بغاوت اور باغی۔۔۔۔1

ترکی میں اقتدار کے لیے ہونے والی بغاوت پہلی تھی نہ اس میں مرنے و الے آخری تھے۔ ہندوستان پر سلاطین کی حکمرانی کے دوران ایسی کئی خونیں بغاوتیں ہوئیں۔ اور کونسی خونی بغاوت تھی جس میں ترک یا افغان شامل نہ ہوں۔
اگرچہ دنیا کے سبھی ملکوں کی تاریخ میں بغاوتیں عام رہیں تاہم ہندوستان میں مسلمانوں کا دور شروع ہوا تو بغاوتوں کی ایسی داستانیں رقم ہوئیں کہ آج ہزار سال بعد بھی ان کا احوال پڑھنے والے کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حالیہ ترک بغاوت بس اتنی مختلف ہے کہ اب صدرکو عوام منتخب کرتے ہیں جبکہ ماضی میں یہ کام دلی سلطنت میں ترک، افغان اور ایرانی امراء کرتے تھے۔ ہر نئے بادشاہ کے سامنے سابق بادشاہ اور اس کے درباریوں اور امراء کے سر بھی کاٹ کر رکھ دیے جاتے تھے۔ طیب اردوان خوش قسمت تھے کہ بچ نکلے ورنہ بغاوتوں کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ بادشاہ کا سر سب سے پہلے کٹتا ہے۔
مغلوں سے پہلے دلی سلطنت پربتیس بادشاہوں نے حکومت کی جن میں قطب الدین ایبک، التتمشں، بلبن، جلال الدین خلجی، علائوالدین خلجی، محمد تغلق اور غیاث الدین تغلق جیسے حکمران بھی شامل تھے۔ ان میں سے بمشکل چند نے ہی طبعی عمر پوری کی ورنہ بیشتر بغاوتوں یا لڑائیوں میں مارے گئے۔ صرف خاندان غلاماںکا دور حکومت چوراسی برس پر محیط رہا (1206تا1290) اس میں دس سلطان گزرے جن میں ایبک، التتمشں اور بلبن بھی شامل تھے۔چند سلطان درباری سازشوں کا شکار ہوئے۔کچھ چند ماہ سلطان رہے۔ ایبک کی لاہور میں اچانک موت کے بعد اس کے امراء تقسیم ہوگئے۔ کچھ نے جلدی سے ایبک کے لے پالک بیٹے آرام شاہ کو سلطان بنایا تو دلی کے امراء نے اسے مسترد کر دیا اور ایبک کے داماد التتشمں کو نیا سلطان بنالیا۔ دونوں کے درمیان جنگ ہوئی۔ التتشمں نے آرام شاہ کو شکست دے دی۔ غزنی کے گورنر یلدر کی ایبک کے ساتھ دشمنی چل رہی تھی، اس نے بھی التتشمن کے خلاف بغاوت کی، سول وار ہوئی، یلدر گرفتار کر کے دلی لایا گیا۔ دلی کی گلیوں میں اسے پھرایا گیا اور آخر میں اس کا سر قلم کر دیا گیا۔ ملتان کے گورنر قباچہ نے بغاوت کا علم بلند کیا لیکن اسے بھی شکست ہوئی۔ مورخ التتشمں کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ تاہم زندگی کے آخری حصے میں سلطان نے تکلیفیں دیکھیں۔ پہلے اس کا پیارا بیٹا ناصرالدین محمود بنگال میں پُرا سرار حالات میں مرگیا۔ خود سلطان پر ایک دن دلی کی بڑی مسجد میں اسماعیلیوںکے ایک گروہ نے حملہ کیا، بڑی مشکل سے جان بچائی۔ پنجاب میں کھوکھروں کے خلاف جنگ میں سلطان بیمار پڑگیا۔ اسے دلی لے جایا گیا۔ امراء نے کہا بہتر ہے نیا حکمران بنا دیں تاکہ لڑائی نہ ہو۔ التتمشں نے اپنی بیٹی رضیہ سلطانہ کو اپنا جانشین بنادیا۔ امراء ایک خاتون کے آگے سر جھکانے کے لیے تیار نہ تھے۔ انہوں نے سلطان کے بیٹے رکن الدین کو بادشاہ بنا دیا۔ ایک اور خانہ جنگی ہوئی اور رضیہ سلطانہ ماری گئی۔ اس کے بعد ایک اور سول وارکے بعد التتمشنکا چھوٹا بیٹا ناصرالدین محمود بادشاہ بنا تودلی کو کچھ سکون ملا۔ التتمشں کے بچوں میں سے پانچ تخت پر بیٹھے، جن میں تین بیٹے، بیٹی اور پوتا شامل تھا۔ محمود کے سوا سب اقتدار کے لیے لڑے اور امراء کی بغاوتوں کے نتیجے میں مارے گئے۔ محمود کے نام پر بلبن نے حکومت کی۔ 
ایک دفعہ بلبن کے خلاف اتر پردیش میں بغاوت ہوئی۔ اس نے شکست دی اور فوج کو حکم دیا کہ عورتوں اور بچوں کے علاوہ کسی انسان کو زندہ نہ چھوڑا جائے۔ مورخ لکھتے ہیںکہ اتنا انسانی خون بہایا گیا کہ گلیاں، قریب کے گائوں حتّی کہ گنگا تک خون بہتا گیا۔ بلبن کے ایک گورنر تغرل نے بغاوت کی تو اس کو شکست کے بعد بلبن نے اس کے وفادار فوجیوں کو سزا دینے کے لیے دوکلومیٹر طویل پھانسی گھاٹ تعمیر کیا اور تغرل کے بیٹوں، دامادوں اور اس کے فوجیوں کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ یہ مناظر اتنے خوفناک تھے کہ دیکھنے والے بے ہوش ہو جاتے۔ بلبن کا بیٹا محمد جو ملتان کا گورنر محمد تھا، تاتاریوں کے ساتھ جنگ میں مارا گیا تو بلبن چارپائی کے ساتھ لگ گیا اور دوبرس بعد مرگیا۔ بلبن نے بستر مرگ پر کہا، اس کے بیٹے خسرو خان کو سلطان بنا دو، ا گرچہ وہ ناتجربہ کار ہے؛ تاہم بلبن کے مرنے کے بعد امراء نے کیقبادکو سلطان بنادیا۔ یوں دلی میں بدترین خانہ جنگی شروع ہوئی۔ ہزاروں فوجی مارے گئے۔ اس بدترین خانہ جنگی کے ماحول میں سے جلال الدین خلجی نے جنم لیا جو دلی فوج کا کمانڈر تھا۔ خطرے سے جان چھڑانے کے لیے امراء نے خسرو کو قتل کرا دیا اور اس کی لاش پھینک دی گئی۔ 
جلال الدین خلجی 1290ء میں بادشاہ بنا۔ اس وقت عمرکے سترھویں سال میں تھا۔ دلی میں داخل ہوا تو اپنے پرانے مالک بادشاہ بلبن کے محل گیا۔ احتراماً گھوڑے سے اترا اور محل کے اندر جا کر بلبن کو یادکر کے دھاڑیں مار کر روتا رہا کہ کیسے کبھی عظیم بادشاہ کے سامنے کھڑا ہوتا تھا اور آج اس سلطان کا سارا خاندان اقتدار کی لڑائی میں ختم ہوگیا۔ 
جلال الدین میں حیرت انگیز طور پر شاہی جلال کے بجائے انکساری ابھری۔ جلال الدین خلجی کی انکساری اور معافی کی خوبی سے امراء خوش نہ تھے۔ وہ باغیوں کو سزا نہ دیتا بلکہ معاف کر دیتا تھا۔ ایک دفعہ جب بلبن کے بھتیجے نے اس کے خلاف بغاوت کی اور دلی پر حملہ کیا، شکست کے بعد اسے زنجیروں میں جکڑ کر جلال الدین خلجی کے سامنے لایا گیا تو وہ تخت سے نیچے اترا آیا، اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے، اس نے بلبن کے باغی بھتیجے کو گلے لگایا، اسے اپنے ساتھ اندر لے گیا، اس کی خدمت کی اور اس کی اپنے چچا بلبن کے ساتھ وفاداری کی تعریف کی۔ جب ایک امیر نے طعنہ دیا کہ اس کا رویہ مناسب نہ تھا تو جلال الدین نے جواب دیا کہ وہ کسی مسلمان کا اس طرح خون بہانے کی بجائے تخت چھوڑنا پسندکرے گا۔ 
ایک بار جلال الدین کو پتا چلا کہ کچھ ترک امراء اس کے خلاف بغاوت کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں اور اسے قتل کرانا چاہ رہے ہیں۔ ایک ترک کے بارے پتا چلا کہ اس نے کہا وہ جلال الدین کو شکاری خنجرکے ساتھ شکارکرے گا۔ دوسرے ترک سردار نے تلوار نکال کرکہا وہ اس سے کاٹ کر اس کا گوشت پکائے گا۔ یہ خفیہ رپورٹ جلال الدین کو دی گئی تو اس نے ہنس کر ٹال دیا اورکہا امراء اکثر شراب پی کر بہک کر ایسی احمقانہ باتیںکر لیتے ہیں، انہیں سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں 
اور آئندہ شراب کے نشے میں دھت میرے امراء کی کہانیاں مجھے نہ سنائی جائیں۔ تاہم بار بار ایسی رپورٹیں پہنچیں تو اس نے انہیں دربار میں طلب کر لیا۔اپنی تلوار ان کے آگے پھینک کر بولا، اگرکسی میں جرأت ہے تو یہیں میرے ساتھ مردوں کی طرح جنگ لڑے۔ اس پر امراء قدموں میں گر پڑے اور بولے، ان کی شراب کے نشے میں کہی گئی بڑھکوں کو سنجیدگی سے نہ لیا جائے۔ یہ سن کر سلطان جلال الدین کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے اور انہیں اتنی سزا دی کہ ایک سال تک وہ اس کے دربار میں نظر نہ آئیں۔ 
مورخ برنی لکھتا ہے کہ جلال الدین اپنے عوام، امراء اور درباریوں سے بہت پیار کرتا تھا۔ ان کی غلطیوں پر انہیں کبھی سزا نہ دی نہ قیدکیا۔ ان سے ایسا سلوک کرتا جو والدین بچوں سے کرتے ہیں۔ سلطان کے سامنے چور کو لایا جاتا تو وہ ان پر بھی ترس کھاتا، کسی کو سزا نہ دیتا؛ تاہم ایک حلف ضرور لیتا کہ وہ آئندہ چوری نہیں کریںگے۔ ایک دفعہ جب ٹھگوں اور رہزنوں کا ایک گروہ پکڑا گیا اور سلطان کے سامنے دربار میں لایا گیا تو سلطان نے انہیں بھی سخت سزا نہ دی بلکہ کہا انہیں یہاں سے ہزاروں میل دور بنگال لے جا کر چھوڑ دو۔ 
ترک امراء یہ بات پسند نہ کرتے کہ سلطان اس قدر انسان دوست ہے۔ اس پر انہوں نے کہنا شروع کر دیا، جلال الدین کو یہ بھی نہیں پتا کہ حکومت کیسے کی جاتی ہے۔ اس میں بڑے بادشاہوں والی کوئی بات نہیں، وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ باغیوں کو کیسے سزا دی جاتی ہے۔ ایک دن جلال الدین خلجی کے قریبی امیر ملک احمد نے یہ سب باتیں خلجی کے منہ پرکہہ دیں اور اسے خبردارکیا کہ اس کا یہ رویہ ریاست میں بغاوتوںکو جنم دے گا۔ (جاری)

 

سلطان نے سکون سے یہ باتیں سنیں اور بولا، اگر میں مسلمانوں پر خون بہائے بغیر حکومت نہیں کرسکتا تو میں تخت سے علیحدہ ہوجائوںگا۔ میں کسی مسلمان کو قتل کر کے خدا کے عذاب کا سامنا نہیں کرسکتا۔ جلال الدین کو بلا وجہ انسانی خون بہانے سے چڑ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب راجستھان میں ایک مہم کے دوران اسے احساس ہوا کہ اس میں بہت انسانی خون بہے گا تو اس نے وہ مہم ترک کر دی۔ جب اس کے امیر احمد نے اسے طعنہ دیا تو جلال الدین نے کہا، میری عمر اس وقت اسی برس ہو چکی ہے، اس وقت مجھے انسانی خون بہانے کی بجائے اپنی موت کے بعد خدا کے حضور پیش ہونے کی تیاری کرنی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جلال الدین خلجی بزدل تھا۔ اس نے منگولوں کے خلاف جنگیں لڑیں اور بہادری کے جوہر دکھائے۔ 
امیر خسرو نے لکھا، جلال الدین سمجھتا تھا بادشاہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ صبر اور برداشت کے ساتھ حکومت کرے اور رحم دلی کا مظاہرہ کرے۔ جلال الدین خلجی کا صرف ایک ایسا واقعہ ملتا ہے جس میں اس نے ظلم کیا۔ سلطان کو بتایا گیا کہ دلی میں ایک درویش رہتا ہے جو اپنے آپ کو خلیفہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ دلی کے امراء بشمول سلطان کے بیٹے اس کے مرید تھے۔ سلطان نے درویش کو بلایا اور سمجھانے کی کوشش کی۔ ناکام ہونے پر سلطان کے منہ سے نکلا، کوئی میری اس ملا سے جان چھڑائے گا۔ ساتھ کھڑے سپاہی نے تلوار نکال کر اسے گھونپ دی۔ سلطان کے بڑے بیٹے کے حکم پر اس دوریش کو ہاتھی کے قدموں تلے کچل دیا گیا۔ اس ظلم کے بعد دلی شہر پر عذاب نازل ہوا۔ شہرکو ایک کالی آندھی نے گھیر لیا اور یوں لگا پوری دنیا اندھیر ہوگئی ہے۔کچھ دن بعد سلطنت میں شدید قحط پڑا۔ دلی کے ایک اور سلطان کی لاش گرنے کا وقت آ گیا تھا۔ یہ باری جلال الدین خلجی کی تھی۔ سازش ہو چکی تھی۔ وہ جس کو اپنا بیٹا سمجھ کر گلے لگانے کے لیے آگے بڑھا اسی نے تلوار گھونپ دی۔ تلوار اس نے ماری جو سگا بیٹا تو نہ تھا لیکن جلال الدین خلجی نے عمر بھر اسے اپنے بچوں کی طرح پیارکیا تھا۔
ترک اور افغان امراء کی ہندوستان میں جنگ کا نیا خونخوار موڑ آچکا تھا۔ ترک امراء افغانوں کو دلی کے تخت پر ناجائز قابض سمجھتے تھے۔ٖٖ دلی کی لہوکی پیاسی دھرتی پر ایک اور سلطان کا خون ہوچکا تھا۔ ایک اور خونی بغاوت ہو چکی تھی ۔۔۔۔! (جاری)

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved