بھارت ‘ کشمیر کو ''زیرتسلط ‘‘رقبے کی حیثیت میں برقرار نہیں رکھ سکتا۔ لیکن وہ موجودہ صورتحال میں تبدیلی قبول کرنے پر آمادہ نظر آتا ہے۔ یہ آخری بات بھارتی نقطہ نظر میں تبدیلی سے منسلک ہے۔ بھارت کے دانشور اور سیاستدان اب یہ سوال اٹھانے لگے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں پتھروں اور گولیوں سے لڑی جانے والی جنگ کب تک جاری رہے گی؟ یہ سوال بھارت کے ہر سوچنے سمجھنے والے شخص کے لئے پریشان کن ہے۔ سیاسی امور کے ایک ماہرکا کہناہے کہ ''شمالی آئرلینڈ اور سپین کے باسک علاقے میں سرگرم باغیوں‘ فلسطین اور کشمیر میں علیحدگی پسندوں کی جدوجہد میں ایک یکسانیت ہے۔وہ ٹوٹے ہوئے کانچ پر چلنا پسند کریں گے‘ لیکن تحریک سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ ایسا تب ہوتا ہے جب مزاحمت‘ کلچر کا حصہ بن جائے اور افسوس کہ کشمیر میں یہی ہوا ہے۔‘‘ جو بات بھارت کے ایک دانشور نے لکھی ہے‘ وہ برصغیر تو کیا؟ ایک پیچیدہ مسئلے کی صورت میں‘ ساری دنیا کے لئے سردرد کا باعث بنی ہوئی ہے۔ حال ہی میں ترکی کے اندر جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے‘ وہ اسی مسئلے کی ایک شکل ہے۔ مثلاً ایک اقلیتی گروپ ‘ جو اپنے لئے ایک علیحدہ انتظامی ڈھانچے کا طلب گار ہے‘ اس بات پر تیار نہیں کہ وہ کسی اکثریتی گروپ کو جمہوریت کے نام پر اپنی جغرافیائی حدود میںحکمرانی کا حق دے۔ چند روز پہلے برطانیہ میں کیا ہوا؟ وہ جغرافیائی خطہ جو کبھی ''عظیم برطانیہ‘‘ کے نام سے جانا اور تسلیم کیا جاتا تھا‘ آج اسے اپنا جغرافیائی وجود برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
یہ سوال سامنے رکھ کراگر آپ دنیا کا جائزہ لیں توشاید ہی کوئی ایسا ملک ہو‘ جہاں علیحدگی کی تحریکیں نہ چل رہی ہوں۔ ہم اپنے وطن کی طرف ہی دیکھیں‘ تو اس مسئلے کی بنیاد پر ‘پاکستان دو لخت ہو چکا ہے۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے‘ جسے میری نسل کے لوگ کم از کم زندگی بھر‘ اپنے تصور پاکستان سے جدا کر کے نہیں دیکھ سکیں گے۔ ہم نے مشرقی پاکستان گنوا دیا۔ اس کی علیحدگی کے اذیت ناک عمل کو اپنے دل و دماغ سے باہر نہیں نکال سکتے۔ہم اس المیے کا درد اپنے ساتھ لے کر قبروں میں جائیں گے اور جب میں یہ سوچتا ہوں تو دل خون ہو کے رہ جاتا ہے کہ ایسا کوئی طاقتور طبقہ موجود نہیں‘ جو ہمیں اصل پاکستان کی بحالی کی امید دلاتا ہو۔ یہ المیہ‘ جس کے کرب سے نجات حاصل کرنا عہد حاضر میں ان گنت اقوام کے لئے دردسر بنا ہوا ہے ایک ہمہ گیر سازش کے نتیجے میں‘ ہمارا ملک اور مسلح افواج دونوں ہی ٹکڑوں میں بٹ گئے۔ لیکن آج بھی ہم اپنی قوم کے کئی اقلیتی حصوں کے ساتھ الجھے ہوئے ہیں۔
تنازعہ کشمیر بھارت کے لئے آج ایک اندرونی معاملہ ہے۔ اس نے اپنی عالمی حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کشمیر کے جس حصے پر جابرانہ قبضہ کر رکھا ہے‘ اب وہ سلامتی کونسل کی ان قراردادوں کو ذرہ برابر حیثیت نہیں دیتا‘ جو اس نے بطور سائل اقوام متحدہ میں جا کر حاصل کی تھیں۔ پاکستان کی حکومتیں بھی اعتراف کئے بغیرریاست جموں و کشمیر کوعملی طور پر اسی جغرافیائی حالت میں تسلیم کرنے پر نیم آمادہ ہیں۔ تنازعہ کشمیر حل کرنے کے لئے پاک فوج کے ایک سربراہ ‘خود ایسا فارمولا پیش کر چکے ہیں‘ جو پاکستان کے بنیادی موقف سے انحراف کے مترادف تھا۔ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ فوج ایک منظم ادارہ ہے۔ اس کی سوچیں اور فیصلے اجتماعی ہوتے ہیں۔ میں یوں سمجھتا ہوں کہ پرویزمشرف کا وہ فارمولا‘ جو عملی سیاست کا حصہ نہ بن سکا‘ آگے چل کر ہم تنازعہ کشمیر کے جس حل پر آمادگی ظاہر کریں گے‘ وہ اسی کی کوئی تبدیل شدہ شکل ہو گی۔ 1948ء میں پاکستان کے باغی فوجیوں اور ان کی مدد کے لئے آئے ہوئے قبائلی گروہوں نے‘ اس دور میں رائج گوریلا جنگ لڑنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اس جنگ میں کامیابی ناممکن تھی۔ لڑنے والے خود ہی نہیں جانتے تھے کہ انہیں حاصل کیا کرنا ہے۔ قبائلی محض لوٹ مار کرنے کی غرض سے کشمیر میں داخل ہوئے تھے۔ وہ جس علاقے میں بھی جاتے‘ سب سے پہلے زیرتسلط آئی ہوئی آبادیوں میں لوٹ مار کرنے لگتے اور لوٹے ہوئے مال میں جتنا سونا‘ چاندی‘ قیمتی اشیا اور نوجوان لڑکیاں ہاتھ لگتیں‘ انہیں راولپنڈی کے ایک چوک میں لا کر نیلام کر دیا جاتا۔ اس طرح بیشتر قبائلی‘ جہاد کا ''صلہ‘‘ لے کر محاذ جنگ سے واپس آجاتے۔ پاک فوج کے جن افسروں نے مرکزی پالیسیوں سے بغاوت کرتے ہوئے ازخود یہ جنگ چھیڑ دی تھی‘ ان کی تعداد بہت کم تھی اور جن قبائلیوں کے جہاد پر بھروسہ کر کے باغی فوجیوں نے جنگ چھیڑی تھی‘ وہ تیز رفتاری سے اپنے گھروں کو لوٹتے گئے اور آخر کار سلامتی کونسل کی قراردادوں کو تسلیم کرتے ہوئے ‘وہ بھی محاذ جنگ سے واپس آ گئے۔ یوں ریاست جموں و کشمیر کا بڑا حصہ طشتری میں رکھ کر بھارت کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی تنازعے کی نوعیت بدل گئی۔ ہم نے ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ پر چھوڑ دیا اوراب سلامتی کونسل کے اندر اتنی طاقت نہیں رہ گئی کہ وہ بزورقوت‘ بھارت کو اپنی قراردادوں پر عمل کرنے کے لئے مجبور کر سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم مقبوضہ کشمیرکے عوام پر انحصار کر کے‘ اس امید میں بیٹھے ہیں کہ وہ ازخود کبھی نہ کبھی آزادی حاصل کر لیں گے۔ یہ ایک احمقانہ توقع ہے۔ بھارت سے ریاست جموں و کشمیر کے مقبوضہ علاقے بذریعہ طاقت ہم نہیں چھین سکیں گے۔ ہم دونوں کے ایٹم بموں نے ہمارے ہاتھ پائوں باندھ دیئے ہیں۔ گھر کے اندر ایٹمی اسلحہ کے ذخیرے جمع کر کے‘ نہ بھارت اپنے ایٹمی اسلحہ سے کشمیریوں اور پاکستان کو شکست دے سکتا ہے اور نہ ہم بھارت کو۔
کشمیر کی صورتحال میں ہم اگر ایک بھارتی دانشور کے مطابق دیکھیں تو نتیجہ وہی سامنے آتا ہے‘ جو پہلے پیش کر چکا ہوں۔ اسی کو پھر دہراتا ہوں کہ ''شمالی آئرلینڈ اور سپین کے باسک علاقے میں سرگرم باغیوں‘ فلسطین اور کشمیر میں علیحدگی پسندوں کی جدوجہد میں ایک یکسانیت ہے۔وہ ٹوٹے ہوئے کانچ پر چلنا پسند کریں گے۔ لیکن تحریک سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ ایسا تب ہوتا ہے‘ جب مزاحمت‘ کلچر کا حصہ بن جائے اور افسوس کہ کشمیر میں یہی ہوا ہے۔‘‘ ممکنات کا جائزہ لیتے ہوئے اگر دیکھیں تو کشمیر میں‘ قابض افواج کے خلاف برسرجنگ مجاہدین ‘ کانچ کے ٹکڑوں پر پیر رکھتے ہوئے لڑتے رہیں گے اور بھارت اپنے غریب عوام کا پیسہ جدیدسے جدید تر اسلحہ پر ضائع کرتا رہے گا۔ پاکستان نے جس دن تنگ آ کر بھارت کو براہ راست میدان جنگ میں للکار دیا‘ تو اس کا نتیجہ پورے برصغیر کی ایٹمی تباہی کی صورت میں نکلے گا۔کشمیر کے اندرچین کی دلچسپی صرف شاہراہ قراقرم میںہے۔ خدانخواستہ بھارت اور پاکستان میں سے کسی ایک نے ''تنگ آمد بجنگ آمد‘‘کا فیصلہ کر لیا‘ تو چین پاکستان کے حق میں آواز اٹھاتا رہے گا اور شاہراہ قراقرم کو '' اٹوٹ انگ‘‘ قرار دے کر‘ اپنا کنٹرول مضبوط کر لے گا۔ مستقبل جو کچھ مجھے دکھائی دے رہا ہے‘ وہ ریاست جموں و کشمیر میں چاروں طرف پھیلی ‘کانچ کی کرچیاں ہی رہ جائیں گی‘ جن پر مجاہدین کشمیر اپنے پیر چھلنی کرتے رہیں گے۔ پاکستان کے حکمران اپنے ملک کے دفاع سے‘ بیرون ملک پڑی دولت کے تحفظ پر زیادہ توجہ دیں گے۔ اس بدنصیب ریاست کے عوام اپنی طویل جدوجہدکے نتیجے میں حاصل ہونے والی آزادیوں اور روزمرہ کے کاروباری حقوق پر قناعت کر کے‘ مستقبل کی صورت گری کریں گے۔ میرے وطن کے مفکروں اور دانشوروں کو شاید اندازہ بھی نہ ہو کہ ریاست کشمیر کے پرامن خطوں میںاس دولت کے بسیرے بن رہے ہیں‘ جو پاناما کی آف شور کمپنیوں سے زیادہ محفوظ اور ثمر آور ہوں گے۔ میں نے مستقبل کے کشمیر کی ایک جھلک‘ جدید ترین مساجد اور ان کے زیرسایہ بنی ہوئی کوٹھیوں کی صورت میں دیکھی ہے۔وہ اور ہی طرح کا کشمیر ہے‘ جہاں آج بھی امن ہے۔ تعمیراتی عمل تیزی سے جاری ہے۔ نئے کاروباری مراکز بن رہے ہیں اور کشمیر کا یہ پرامن خطہ‘ کانچ کی کرچیوں پر پائوں چھلنی کرانے والوں کو ‘پرامن رہائش گاہیں اور رو زگار فراہم کرنے لگے گا۔