تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     21-07-2016

کوئی چارہ نہیں حضور!

رونا وہی ایک ہے۔ سول اداروں کی تعمیرنو کا آغاز۔ کوئی جائے اور جا کر وزیراعظم کو کوئی بتائے کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں، اب کوئی چارہ نہیں حضور!
سب سے زیادہ اہم خبر‘ غیرنمایاں طور پر شائع ہوئی۔ جنرل راحیل شریف سے شہبازشریف کی ملاقات۔ کوشش کی مگر کچھ بھی پتہ نہ چل سکا۔ ایسی ملاقاتوں کی روداد کتابوں میں چھپتی ہے یا برسوں بعد کسی کالم میں۔ نوازشریف کے لیے سرگرم اخبار نے لکھا ہے کہ ضرب عضب‘ یوم کشمیر اور قبائلی مہاجرین کی واپسی پر تبادلہ خیال ہوا۔ کیا یہ قابل فہم ہے کہ ان چیزوں پر بات ہو‘ جن پر بحث کی ضرورت ہی نہیں؟
قابل اعتماد لوگ بتاتے ہیں کہ مسلح افواج سے متعلق گیارہ عدد فائلیں وزیراعظم کے دفتر میں دھری ہیں۔ ابھی ابھی لندن کے ایک ممتاز معالج سے بات ہوئی۔ ذہین اور باخبر ۔ ان کا کہنا ہے کہ بائی پاس آپریشن میں ٹانگ کا زخم مندمل نہ ہونے یا ہفتوں بعد جاگ اٹھنے کی بات قابل فہم ہے... ناقابل فہم یہ ہے کہ لاہور میں قیام پر وہ کیوں مصر رہے۔
ان گیارہ فائلوں کو کون نمٹائے گا؟۔ ان میں سے ایک شاید نئے چیف آف آرمی سٹاف کے تقرر سے متعلق ہے۔ جس پر غور اور تبادلہ خیال کے لئے وہ تیار نہیں۔ تینوں افسر نیک نام ہیں‘ سنیارٹی کے علاوہ ان کا انتخاب پیشہ ورانہ مہارت کی بناپر کیا گیا ہے؛ البتہ وزیراعظم کا ایک پسندیدہ امیدوار شامل نہیں۔ خیر ایسی بھی جلدی کیا ہے۔ اس میں تو ابھی وقت ہے۔
کراچی میں رینجرز کی توسیع کا وقت گزر چکا۔ تحفظ پاکستان آرڈی ننس کی مدت تمام ہوئے کئی ہفتے بیت گئے۔ کچھ معلوم نہیں کہ اس کا کیا ہونے والا ہے۔ پنجابی محاورے کے مطابق پچھلی بار سندھ میں رینجرز کی توسیع کے سوال پر وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے نیچے کی زمین اوپر اور اوپر کی نیچے کردی تھی۔ اب کی بار فقط ایک عدد خط لکھنے پر اکتفا کیا۔
ہفتے کو وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور سندھ رینجرز کے سربراہ کی ملاقات کے بعد ایک قابل اعتماد ذریعے نے واشگاف الفاظ میں بتایا تھا کہ وزیراعلیٰ نے رینجرز کی پیش کردہ تجاویز سے اتفاق کرلیا ہے۔ قائم علی شاہ کو بتایا گیا کہ دس سے پندرہ گینگ اندرون سندھ سرگرم عمل ہیں۔ مذہبی فرقہ پرست بھی ان میں شامل ہیں۔ دہشت گرد کراچی سے بھاگ کر وہاں پناہ لیتے ہیں۔ ان کے خلاف بھرپور اقدام کے بغیر صوبے میں امن کا حصول ممکن نہیں۔ ہمیشہ کے شیریں لہجے میں انہوں نے آمادگی کا اظہار کیا۔ تین دن کے بعد وہ مکر گئے۔ آج ان صاحب سے رابطہ کیا تو وہ بولے: اگر کوئی پیمان کرنے کے بعد توڑ دے تو کوئی کیا کرے۔ ظاہر ہے کہ زرداری صاحب کے حکم پر انہوں نے ایسا کیا اور دبئی طلب کر لیے گئے۔ انہوں نے سوال کیا کہ آئینی اور قانونی اعتبار سے زرداری صاحب کا اس معاملے سے کیا تعلق؟ یہ فیصلہ صوبائی کابینہ اور وزیراعلیٰ کو کرنا چاہیے‘ اور وہ صاد کر چکے ہیں۔
پورا ملک افواہوں اور ''خبروں‘‘سے گونج رہا ہے۔ ایک سے ایک معتبر آدمی ان پر یقین کرنے کے لیے آمادہ ہے۔ ایک نہایت باخبر آدمی کا کہناہے کہ جنرل راحیل شریف کی مدّتِ ملازمت میں توسیع کا سوال بھی زیرغور ہے۔ ممکن ہے کہ آخر میں بات وہیں آ پڑے۔ جنوری میں جنرل نے کہا تھا کہ نومبر کی مقررہ تاریخ پر وہ اپنے منصب کو خیرباد کہہ دیں گے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟۔ گزشتہ ہفتے وزیراعظم نوازشریف کے ایک کارِخاص نے خبر دی کہ جنرل صاحب سے توسیع قبول کرنے کی درخواست کی جا سکتی ہے۔ راولپنڈی کی سن گن رکھنے والے کہتے ہیں کہ چوہدری نثار علی خان اور شہبازشریف توسیع کے حق میں ہیں۔ وزیراعظم سے ان کا اصرار ہے کہ جنرل صاحب سے درخواست کی جائے۔ بتایا گیا ہے کہ اوّل اوّل ایک سالہ توسیع کی تجویز پر تبادلہ خیال ہوا‘ مگر ابتدا ہی میں اسے مسترد کردیا گیا۔ پھر تین سال پر بات ہونے لگی۔ اسے ایک‘ تین کی بحث کہا گیا۔
سبکدوشی کا اعلان کرنے والا سپہ سالار کیونکر یہ پیشکش قبول کرے گا۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی طرف سے درخواست کے بعد تاکہ ان کی اخلاقی پوزیشن بحال رہے۔ سوال کیا جاتا ہے کہ وزیراعظم ایسا کیوں کریں گے‘ جو چیف آف آرمی سٹاف سے خوش نہیں۔ کیا وہ وقت گزارنے کی کوشش نہ کریں گے‘ مہلت حاصل کرنے کی؟۔ لندن میں 6 ہفتے انہوں نے بتا دیئے اور اس کے بعد بہت سے دن لاہور میں۔ ان کے مزاج کو ملحوظ رکھا جائے تو یہ قرین قیاس ہے۔ ان کی حکمت عملی بعض اوقات یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح بھی وقت حاصل کیا جائے۔ ممکن ہے کہ آخری مرحلے پر وہ آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے کسی ایسے شخص کو نامزد کردیں‘ کسی وجہ سے جو انہیں پسند ہو۔ راولپنڈی کے اندازِ فکر سے واقف ماہرین یہ کہتے ہیں کہ پاک افواج آخری ادارہ ہے جو بچ رہا ہے‘ کسی بھی شخص حتیٰ کہ منتخب وزیراعظم کو بھی اسے اپنی پسند یا ناپسند کی بھینٹ چڑھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ایک قابل اعتماد عسکری تجزیہ کار نے کچھ دیر قبل ناچیز سے یہ کہا: انہیں اپنے دفتر تشریف لانا اور فیصلے صادر کرنا ہوں گے۔ کشمیر‘ پانامہ لیکس اور بھارت کے ساتھ تعلقات کی نوعیت پر معاملات کو بہت دن وہ التوا میں نہیں ڈال سکتے۔
ایک عسکری ذریعے سے پوچھا گیا: زرداری صاحب اگر ضد پہ اڑ گئے‘ رینجرز کی توسیع نہ کی گئی یا دیہی سندھ میں اختیارات دینے سے انکار کردیا گیا؟ قدرے ناراضی کے ساتھ انہوں نے کہا: کیا آپ کومعلوم ہے کہ رینجرز کہاں کہاں خدمات انجام دے رہے ہیں؟ صوبے اور کراچی میں داخلے کے تمام راستوں پر۔ ایوان وزیراعلیٰ کی حفاظت وہ کرتے ہیں‘ سندھ ہائیکورٹ کی۔ اجلاس کے دنوں میں سندھ اسمبلی کی۔ جج حضرات کی،غیر ملکی قونصل خانوں اور شہر کے حساس علاقوں (Red zones) کی۔ پھراس پر اضافہ کیا: زرداری صاحب کون ہیں فیصلہ کرنے والے؟۔ صوبائی حکومت کرے۔ پارٹی کا نہیں، یہ کابینہ اوروزیراعلیٰ کا کام ہے۔فوراً بعد انہوں نے سوال کیا۔ وزیراعلیٰ کے قانونی مشیر اور پیپلزپارٹی کے رہنما یہ کہتے ہیں کہ رینجرز اپنی حدود میں رہیں۔ اپنی پارٹی کو وہ حدود میں کیوں نہیں رکھتے؟ ان کے بعض رہنما جرائم پیشہ لوگوں کو پناہ کیوں دیتے ہیں؟۔
زرداری صاحب کی حکمت عملی یہ نظرآتی ہے کہ مشکلات میں گھرے،کنفیوژن اور بے عملی کے شکار وزیراعظم کو دبائو ڈال کر، چودھری نثار علی خان کو ان کا کردار ادا کرنے سے روک دیا جائے، جو اپنے طور پر رینجرز کی توسیع کا حکم صادر کرسکتے ہیں۔ اس تناظر میں چیف آف آرمی سٹاف سے، وزیراعلیٰ کے برادر خورد کی ملاقات اور بھی اہم ہے۔ بار بار یہ سوال ذہن میں گونجتا ہے کہ اخبارات اور چینلوں نے اتنی اہمیت اسے کیوں نہ دی، جتنی کہ دینی چاہیے تھی۔
کراچی میں پیپلزپارٹی کے عبدالقادر پٹیل،پرچم پارٹی کے انیس احمد قائم خانی اور ایم کیو ایم کے وسیم اختر اور رئوف صدیقی کی گرفتاریوں‘ آزاد کشمیر کے انتخابات اور دوسری اہم خبروں کے طفیل؟ ابھی ابھی مصطفی کمال سے بات ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ انیس قائم خانی تو دبئی میں تھے، ڈاکٹر عاصم کے ساتھ بالمشافہ کیا‘ فون پر بھی کبھی ان کی بات نہ ہوئی۔ مزید براںڈپٹی کنوینرکی حیثیت سے ایم کیو ایم میں ان کی ذمہ داریاں سیاسی تھیں۔ تنظیم سازی اور جلسوں، جلوسوں کا انعقاد، علاج کرانے کی ذمہ داری دوسروں کی تھی۔ سب جانتے ہیں کہ اس پارٹی میںکوئی شخص دوسرے شعبے میں دخل نہیں دیتا۔ ایک عسکری ذریعے سے مصطفی کمال کے بیانات پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے کہا: جو کچھ کسی نے بویا، وہ اسے کاٹنا ہوگا۔ بے گناہ ہیں تو ان پر آنچ نہیں آئے گی۔
معاملات اس نہج پر آن پہنچے ہیں کہ کوئی دن میں فیصلہ ہوا جاتا ہے۔ ناچیز کی رائے اب بھی یہی ہے کہ مارشل لاء بہرحال نافذ نہ ہوگا۔ آخر کار بات چیت ہی ہوگی۔ فوج نے اچانک سب کچھ سول اداروں کو سونپنے کا فیصلہ کیا تو ایسی تباہی آئے گی کہ بایدوشاید۔ خدانخواستہ ایسا ہوا تو کراچی ایک بار پھر مقتل بن جائے گا۔ قومی معیشت تباہ ہو جائے گی اور بھارت میں خوشی کے شادیانے بجیں گے۔ بلوچستان، پنجاب اور پختون خوا میں بھی حالات بگڑیں گے اور بے پناہ۔
رونا وہی ایک ہے۔ سول اداروں کی تعمیرنو کا آغاز۔ کوئی جائے اور جا کر وزیراعظم کو کوئی بتائے کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں، اب کوئی چارہ نہیں حضور!
پس تحریر: ابھی ابھی ایک پیغام ملا ہے: اسمبلی کی باقی ماندہ مدت کے لیے میاں محمد نوازشریف سے ایوان کے اندر تبدیلی پر بات کی جا رہی ہے۔ نوازشریف ‘ اسحٰق ڈار یا خواجہ آصف کو نامزد کرنا چاہتے ہیں ‘ لیکن وہ لوگ شہبازشریف یا چوہدری نثار کو۔ احسن اقبال ''ڈارک ہارس‘‘ ہو سکتے ہیں یا کوئی اور ‘ جس پر اتفاق ہو جائے۔ میاں محمد نوازشریف اپنے بھائی کے حق میں نہیں... میرا تبصرہ یہ ہے۔ واللہ اعلم بالصواب!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved