ترکی میں لوگوں نے فوجی بغاوت کو ناکام کیا بنایا کہ دوست سمجھ بیٹھے کہ پاکستان میں ہم بھی کر سکتے ہیں۔ آخر کو صرف ٹینکوں کے سامنے لیٹنا ہی تو ہے ۔ ترکی کے حالات دیکھ کر بہر حال اتنا جوش وخروش تھا کہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ لوگ عمران خان کا بیان سن کر خفا ہو گئے ۔ انہوں نے بھی عجیب بات کی کہ اگر پاکستان میں فوج کشی ہو تو لوگ مٹھائیاں تقسیم کریں گے ۔ مانا کہ خان صاحب بات کرنے کے ماہر نہیں اور نہ ہی ان پر بات کرنے سے پہلے سوچنے کا الزام لگایا جا سکتا ہے لیکن وہ خیال جو ان کی بھونڈی بات کے پیچھے ہے وہ شاید اتنا غلط نہ ہو۔
مسئلہ یہ نہیں کہ پاکستانیوں کو جمہوریت اچھی نہیں لگتی یا ہمارے سیاستدان دنیا کے خراب ترین ہیں۔ آخر کو تو ہم نے بھی ماضی میں چند فوجی بغاوتوں کو ناکام بنایا ہے ۔ یاد رہے کہ ترکی میں جو ہوا وہ ایک فوجی دھڑے کی بغاوت تھی۔ ہمارے ہاں بھی 1975-74 ء میں میجر جنرل تجمل حسین نے اور 1990 ء کے عشرے میں جنرل عباسی نے حکومتوں کا تختہ الٹا نے اور اس وقت کے فوج کے سربراہ کے خلاف گٹھ جوڑ کیا جو ناکام بنا دیا گیا تھا۔ وہ تمام افواج جن کا ڈھانچہ پیشہ ورانہ ہو ایک کامیاب بغاوت کیلئے حکم اوپر سے جاری ہوتے ہیں۔ ترکی میں بغاوت کرنے والے فوجی یقینا اپنے صدر طیب اردوان کی پالیسیوں
سے ناراض تھے ۔ ترک فوج نے چار بار حکومت کی ہے اور یہ ادارہ پاکستانی فوج سے مختلف ہے کیونکہ نئی ترک ریاست کی بنیاد کمال اتاترک نے فوج کی سربراہی میں رکھی تھی۔ سلطنت عثمانیہ کے ختم ہونے کے بعد اتاترک نے ترک قوم اور مملکت کی بنیاد سیکولر طرز پر رکھی۔ معاملہ چلتا رہتا اگر فوج باربار مداخلت نہ کرتی۔ ان حالات میں لوگ نہ صرف فوج سے متنفر ہوئے بلکہ سیکولرازم سے بھی نالاں ہوئے ۔ یہ وہ اصول تھا جس کی بنیاد پر فوج در آتی تھی۔ ماضی قریب میں یورپی یونین میں شامل ہونے کی کوشش نے ترکی کو بہت فائدہ دیا۔ یورپ کی حکومتوں کا اصرار تھا کہ ترکی اپنی جمہوری اقدار کو مضبوط کرے ۔ اسلامی اور عثمانیہ تاریخ اپنی جگہ لیکن ترک عوام کا یورپی شعور اپنی جگہ۔
جمہوریت کا سب سے زیادہ فائدہ صدر اردوان کو ہوا جنہوں نے اسلامی پارٹیوں اور گروہوں کی مدد سے طاقت حاصل کی۔2012ء تک تو اردوان کا ساتھ فتح اللہ گولن کے ساتھ بھی تھا جن پر وہ آج بغاوت کی سرپرستی کا الزام لگاتے ہیں۔ گولن کو 1981ء میں اپنی دینی عالم کی کرسی سے دستبردار ہونا پڑا تھا۔ ان کا مقصد خاموشی سے فوج اور دوسرے سرکاری اداروں میں سرائیت کر کے مملکت پر خاموشی سے قبضہ کرنا تھا۔ بالکل جیسے حزب التحریر ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتی ہے گولن بھی ترکی سیکولرازم ختم کر کہ ایک نئی قسم کی ریاست چاہتے ہیں۔ ان کی 2012ء میں اردوان سے چپقلش اقتدار پر ہوئی۔ یہ جھگڑا 2014ء میں کچھ تاجر، بیوروکریٹ اور وزرا کی حراست سے پیدا ہوا جن پر ایران کے ساتھ سونے کے بدلے تیل کی تجارت کا الزام تھا۔ اردوان ایک طرف تو اسلام کا پرچار کرتے دکھائی دیے اور دوسری طرف یورپ اور امریکہ کے ساتھ سمجھوتہ کرتے ہوئے‘ یہاں تک کہ شروع میں امریکہ کے ایما پر داعش کے لئے ترکی کو رہ گزر بنایا گیا۔ مقتدر ذرائع تو اب بھی اردوان کے صاحب زادے کا نام داعش کو ہتھیار کی فراہمی میں لیتے ہیں۔ اسلامی گروپوں اور تحریکوں کا ساتھ دینے کا ایک نتیجہ دہشتگردی میں اضافہ جس کی وجہ سے اردوان اب اپنے سیکولرازم کو ختم کرنے کے ارادہ سے ہٹتے نظر آتے ہیں۔ معاشی ترقی کی سست ہوتی رفتار اور بڑی طاقتوں سے لٹنے سے بچنے کی طاقت کے فقدان کے باعث شاید اسلامی گروہوں اور اردوان کے بیچ ایک دراڑ نظر آتی ہے ۔ حال ہی میں ترکی نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بھی استوار کئے ہیں۔
شاید اسی قسم کی چپقلش اگر پاکستان میں ہو تو ہمارے بہت سے سیاسی رہنما اب تک فوج کی مدد سے حکومت برخاست کرنے کی بات کر چکے ہوتے ۔ پاکستان میں تو نواز شریف کی ہندوستان سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کے پاداش میں انہیں آئے دن للکارا جاتا ہے ۔ لیکن ہم ترکی کے عوام کی طرح حکومت وقت کو بچانے نہیں اٹھیں گے ۔ یہ اس لئے نہیں کہ ہم اپنی حکومت سے زیادہ ناراض ہیں۔ بھلا ہم لوگ جنہوں نے ایک بے ضرر لڑکی قندیل بلوچ کو اپنی جھوٹی عزت کی خاطر قتل کر دیا۔ آخر کو اس کا گناہ یا قصور ان دھوکہ باز لوگوں سے زیادہ تو نہیں تھا جو کبھی تعلیم اور کبھی قومی تشخص کی آڑ میں ملک اور قوم کو بیچتے ہیں۔ اس کا گناہ شائد یہ تھا کہ اس نے ایک پسماندہ علاقہ اور غریب خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود امارت کا خواب دیکھا تھا۔ کیا ریاست نے اسے تعلیم اور دوسروں سے آگے بڑھنے کے راستے دیئے تھے ؟ مجھے تو یہ بات بھی جھوٹ لگتی ہے کہ بھائی نے اسے غیرت میں آ کر مارا۔ وہ بھائی جو اپنے نشہ پانی کے پیسے بھی اسی بہن سے لیتا تھا۔ مجھے تو اس قاتل بھائی اور ان تعلیم یافتہ لوگوں میں کوئی فرق نہیں لگتا جو قندیل کو اُس کی اپنی موت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
آپ سوچتے ہوں گے کہ کہاں قندیل اور کہاں ترکی و پاکستان کی سیاست کا مسئلہ‘ لیکن بات تو یہ ہے کہ جو معاشرہ اپنے لئے سوچنے کی اجازت نہیں دیتا اور اپنے لئے کھڑا نہیں ہو سکتا وہ اپنے آپ کو کیسے بچائے گا؟ ہمارا سماج اپنے نام پر قربانی تو لیتا ہے لیکن اس میں اگر شخص کی آزادی کی گنجائش نہیں تو سماج کے بچائو کی بات تو دور رہی۔ سو اگر فوج ہمارے ہاں بغاوت کرتی ہے تو ہم اپنے گھروں میں چھپ جائیں گے ۔ اگر فوج کی آپس کی لڑائی ہو تو فیصلے کا انتظار کریں گے اور اگر ساری فوج کا فیصلہ ہوا تو خاموشی سے قبول کرلیں گے ۔ شاید ہم معاشرہ ہی نہیں یا اکٹھی سوچ اور فائدے سے اجنبی۔ !