ہمارے محبوب وزیر اعظم ابھی قوم کی دعائوں سے صحت یاب ہوئے ہی تھے بلکہ وہ تو تیسرے ہی دن چلنے اور بھاگنے دوڑنے کے قابل ہو گئے تھے کہ قوم کی دعائیں یوں سمجھیے کہ فالتو ہو کر رہ گئیں اور اب ان کے دشمنوں کی طبیعت پھر ناساز ہو گئی ہے جبکہ عمران خاں سے بڑھ کر ان کا دشمن کون ہو سکتا ہے اور یہ ایک عجیب ستم ظریفی ہے کہ پرائے اور ہمسائے ملک کا وزیر اعظم ان کا سب سے بڑا دوست ہے اور خود اپنے ملک کا غیر متوقع وزیر اعظم ان کی ہوا کو بھی تلواریں مارنے میں لگا رہتا ہے‘ کیسا زمانہ آ گیا ہے، ہیں جی؟
خبروں کے مطابق صاحب موصوف ٹانگ میں انفیکشن ہو جانے کے بعد بخار میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس وجہ سے اپوزیشن کی رسّی مزید دراز ہو گئی ہے کیونکہ یہ لوگ لاتوں کے بھوت ہیں‘ باتوں کے نہیں‘ اور اگر وزیر اعظم کی لات صحت مند نہ ہو تو ان بدخواہوں کے حوصلے بڑھیں گے نہیں تو اور کیا ہو گا۔ غالب نے کہا تھا ؎
شاہ کے ہے غُسلِ صحت کی خبر
دیکھیے کب دن پھریں حمام کے
جبکہ ادھر شاہ ایک بار غسلِ صحت کر بھی چکے تھے کہ جلدی ہی حمام کے دن پھرے اور انہیں اب دوبارہ غُسل صحت کے مرحلے سے
گزرنا پڑے گا۔ خبر کے مطابق ٹانگ میں جہاں سے آپریشن کے دوران شریان لی گئی تھی انفیکشن وہاں ہوا ہے جس سے پورے کے پورے وزیر اعظم کو بخار ہو گیا ہے؛ حالانکہ وہ ٹانگ تک ہی محدود ہونا چاہیے تھا۔ تاہم اس کا ایک فائدہ یہ ضرور ہو گیا ہے کہ جن شرپسندوں کو یہ یقین تھا اور وہ دوسروں کو بھی یقین دلانے میں کامیاب ہو گئے تھے کہ کوئی اوپن ہارٹ سرجری نہیں ہوئی تھی‘ ان کے منہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گے کیونکہ اگر ٹانگ سے شریان کا نکالا جانا ثابت ہو جاتا ہے تو مزید کسی ثبوت کی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ آپریشن ہوا تھا یا نہیں کیونکہ زخم پر لگی پٹی یا ٹیپ وغیرہ زبانِ حال سے کہہ رہی ہوگی کہ آپ اس مرحلے سے واقعی گزرے ہیں کیونکہ اچھی بھلی ٹانگ پر کون پٹیاں باندھتا ہے۔ اور وزیر اعظم کو ایسے چھوٹے موٹے ڈرامے کرنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ وہ بڑے ڈرامے ہی اتنی کامیابی سے کر لیتے ہیں ع
ایں کا راز تو آید و مرداں چنیں کُنند
بعض بدطینت مخالفین کے نزدیک یہ اسلام آباد نہ آنے کا بہانہ ہو سکتا ہے اور جس کا منہ توڑ جواب یہ ہے کہ اگر ہفتہ بھر تک اسلام آباد جائے بغیر رہ سکتے ہیں تو اب انہیں اس بہانہ سازی کی کیا ضرورت تھی نیز یہ کہ اگر سارا کام لندن بیٹھے ہی چل رہا تھا تو لاہور بیٹھ کر حکومت کیوں نہیں چلائی جا سکتی۔ ذرائع کے مطابق سینئر ڈاکٹرز میاں صاحب کی ٹانگ میں انفیکشن کا علاج کر رہے ہیں اور صحت یاب ہونے کے بعد وزیر اعظم میاں نواز شریف اسلام آباد جائیں گے حالانکہ سینئر ڈاکٹروں کو اس تردد کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وزیر اعظم اگر لندن کے ایک گمنام کلینک میں جونیئر ڈاکٹروں سے اوپن ہارٹ سرجری کروا سکتے ہیں اور اس کے تین دن کے بعد اتنے تندرست و توانا اور چاق و چوبند ہو سکتے ہیں کہ سیڑھیوں وغیرہ کو خاطر میں ہی نہ لائیں تو یہاں اتنا تکلف کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اور یہ بھی خدا کی قدرت ہے کہ دو ماہ گزرنے کے بعد بھی سینے کا کٹائو تو کب کا درست ہو چکا ہے لیکن ٹانگ کا زخم نصیب دشمناں پھر سے ہرا ہو گیا؛ حالانکہ وزیر اعظم کی ٹانگوں کا صحت مند رہنا زیادہ ضروری تھا کیونکہ مخالفین حکومت کی ٹانگیں ہی زیادہ رغبت سے کھینچتے ہیں تاکہ وزیر اعظم کی طرف سے شروع کی جانے والی برق رفتار ترقی میں رکاوٹ ڈال سکیں۔ تاہم ٹانگیں اگر صحیح ہوں تو کھینچنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا جس طرح ملک سے ان کی غیر حاضری سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ وزیر اعظم کا لندن سے واپس آ جانا ہی ایک نعمت غیر مترقبہ سے کسی طور کم نہ تھا اور جس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اللہ میاں کا نظام تلافی کس قدر بے مثال ہے کہ عبدالستار ایدھی گیا اور میاں نواز شریف آ گیا!
اب سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم اسلام آباد آنے سے کیوں گھبراتے اور کتراتے ہیں۔ اگرچہ افترا پردازان اس کی مختلف تاویلیں کر رہے ہیں جن میں بظاہر کوئی وزن نہیں ہے کیونکہ اگر صاحب موصوف آنے والے کسی برے وقت سے پہلو تہی کر رہے ہیں تو وہ لاہور بلکہ جاتی امرا میں بھی آ سکتا ہے اس کے لیے ان کا اسلام آباد میں ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے کیونکہ اگر وقت آ گیا تو پرائے پُتّر کہیں بھی پہنچ سکتے ہیں‘ یعنی لاہور ان کے لیے کیا دور ہے یا یہ ہے کہ وزیر اعظم آنے والے کسی وقت کا خود ہی یکسوئی سے انتظار کر رہے ہیں اور وردِ زبان یہ مصرع ہے کہ ع
عزیزو اب اللہ ہی اللہ ہے
تاہم ہماری اور قوم کی یہ مشترکہ دعا ہے کہ دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑیں اور وزیر اعظم کو بغرض علاج ایک بار پھر لندن نہ جانا پڑے۔ اور اگر کوئی ایسی صورت حال پیدا ہو بھی جاتی ہے کہ کسی متبادل وزیر اعظم کی ضرورت پڑ جائے تو چودھری نثار علی خاطر جمع رکھیں، قرعہ ان کے نام کا کبھی نہیں نکل سکتا کیونکہ ان کے دشمنوں نے وزیر اعظم کے کان ان کے خلاف خوب بھر رکھے ہیں یعنی پہلے جیبیں بھری ہوئی تھیں‘ اب کان بھی بھر گئے ہیں‘ اور ؎
پھلا پُھولا رہے یا رب چمن میری اُمیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں
آج کا مطلع
محبّت سے مُکر جانے کی گُنجائش نہیں ہے
سو‘ظاہر ہے کہ گھر جانے کی گُنجائش نہیں ہے