تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     22-07-2016

پاکستانیو باہر نکلو!

جلدی کرو پاکستانیو... باہر نکلو۔ تمہاری پسندیدہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ یہ آواز ہر طرف سے آ رہی تھی۔ پاکستانی نے آوازیں لگانے والے مختلف چہرے پہچان لیے۔
سب سے پہلے گہرے کالے رنگ میں رنگی ہوئی بھنووں والا سیاہ چہرہ سامنے آیا۔ پاکستانی نے ذہن پر زوردیا تو اسے یاد آ گیا۔ یہ وہی ہے جس نے ماڈل ٹاؤن میں باہر نکلنے والوں کو ٹی وی پر پاکستان دشمن کہا۔ پھر انہیں قوم، ملک اور سلطنت کا باغی قرار دیا۔ ان پر باوردی گلو چھوڑ ے۔ سادہ کپڑوں والے گلوؤں کی ڈیوٹی لگا دی کہ وہ باوردی گلوؤں کی کارکردگی مانیٹر کریں۔ سرکاری اور غیر سرکاری گلوؤں نے وطن کے باغیوں کو چن چن کر گولیوں سے بھون ڈالا۔ باغیوں میں تین عورتیں بھی شامل تھیں۔ ایک باغی ماں کے پیٹ میں نامعلوم باغی جمہوریت کے خلاف سازش میں مصروف تھا۔ جمہوریت جیت گئی اور اس نامعلوم سازشی کی ماں کے بطن میں گولیوں کی باڑ اتری۔ جمہوریت فتح یاب ہوئی اور سازش پیدائش سے پہلے ہی کنٹرول ہو گئی۔
پاکستانی نے ریموٹ کنٹرول کا بٹن دبایا۔ دوسرے چینل پر اسے سفید بالوں والا نظر آ گیا۔ پاکستانی اسے دیکھتے ہی ٹخنوں تک پسینے میں ڈوب گیا۔ وہ ترک عوام کو شاباش دے کر کہہ رہا تھا پاکستانیو باہر نکلو۔ اس کے منہ سے رال نما جھاگ ٹپکی۔ پاکستانی کو یاد آیا بڑے دنوں بعد اس رات پہلی دفعہ 2 بجے لوڈ شیڈنگ نہ ہوئی۔ ترک جمہوریت کی فتح کا جشن منانے کے لیے زلفِ سفید جھاگ سے بھیگتی چلی گئی۔ پاکستانی کو یاد آیا، آج دن میں ساڑھے 10 گھنٹے بجلی سرے سے آئی ہی نہیں تھی۔ لوڈ شیڈنگ کے مارے پاکستانی نے حقارت سے تھوکا اور چینل بدل ڈالا۔
اگلے ٹی وی سٹیشن پر ہوائی جہاز نما بینگن کے رنگ والا چہرہ دکھائی دیا۔ پاکستانی نے اسے بھی پہچان لیا۔ یہ بہت بڑا فنکار تھا۔ جو 1999ء میں جیل کے ایک دروازے سے خالی ہاتھ اندر داخل ہوا۔ دوسرے دروازے سے باہر نکلا تو ایئرلائن کا لائسنس اس کے ہاتھ میں تھا۔ اس فنکار نے ہر پاکستانی کے چولہے اور ہیٹر کی سیٹیاں بجوا دیں۔ یہ گیس بم گرائے یا جہاز اسے پوچھنے والا کوئی نہیں۔ پاکستانی بولتا چلا گیا‘ یہ وہی ہے ناں جو کہتا ہے‘ میں نے قطر سے دنیا کی مہنگی ترین گیس نہیں خریدی۔ معاہدہ سستی گیس کا ہے۔ ایسا رعایتی معاہدہ جو وہ پارلیمنٹ کو بھی نہیں دکھاتا، قومی میڈیا تو دور کی بات ہے۔
پاکستانی نے ریموٹ کنٹرول کا ایک اور بٹن ٹٹولا۔ بیچارے کی ہنسی نکل گئی۔ اسے چارلی چپلن کی فلمیں یاد آنے لگیں۔ اپنے قہقہوں پر پاکستانی کا کنٹرول فیل ہو چکا تھا۔ ہنسی میں وقفہ آیا تو پاکستانی نے کہا‘ ہاں یہ ٹھیک کہتا ہے ''میں غریبوں کے لیے جان دے سکتا ہوں۔ کرپشن کو برداشت نہیں کر سکتا‘‘۔ میرے علاوہ جو بھی باہر نہ نکلا اسے معطل کر دوں گا۔ لطف کی بات یہ تھی کہ سکرین پر صرف خاکی رنگ کا ہیٹ اچھلتا نظر آ یا۔ چہرہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ پھر بھی پاکستانی کو ہنسی کے دورے پڑ تے چلے گئے۔
ہیٹ میں سے ایک اور آواز مِن منائی‘ میری حکومت میں قوم کے بچے محفوظ ہو گئے۔ بچوں کے خلاف جرائم ختم۔ 'میرے بچو! میرے جوانو! باہر نکلو۔ خواتین سب سے آگے باہر نکلیں۔ میں نے 300 خواتین کی خودکشی اور خود سوزی کا نوٹس لیا۔ کوئی ماڈل گرل ہو یا طالبہ، ہر خاتون کے قتل پر تھانیدار کو پورے تین دن کے لیے معطل کیا۔ پاکستانی خواتین کے لیے جمہوریت کی قربانی لازوال ہے‘۔ یہ مزاحیہ خاکہ چل ہی رہا تھا کہ پھر بجلی چلی گئی۔ پاکستانی بنیان پہن کر سڑک پر آ گیا۔ سڑک کی دوسری جانب اسے ڈھابے کا دھندلا ٹی وی کسان کے مستقبل کی طرح ٹمٹماتا ہوا نظر آیا۔ پاکستانی نے وہاں ایک اور چہرہ دیکھا۔ اسے پہچاننے میں کچھ دیر لگ گئی‘ کیونکہ یہ صاف چٹ چہرہ تھا اور پاکستانی کو دو مہینے پہلے والی سفید مونچھیں نظر نہ آئیں۔ اس نے کہا‘ کشمیر کے مسئلے کوحل کرنے کا نسخہ ہمارے پاس ہے۔ ساتھ یہی آواز پھر گونجی... پاکستانیو باہر نکلو... تمہارا مستقبل جمہوریت کے ہاتھ میں ہے۔ جس کو یقین نہ آئے وہ گارڈن کالج روڈ پر حاجی کے ہوٹل سے پوچھ لے۔ جب سے میرا مستقبل روشن ہوا‘ میں نے حاجی کے 2700 روپے واپس کر دیے۔ 37 سال بعد زمانہء طالب علمی کی چائے کا بل ادا کرنا جمہوریت کی شاندار فتح ہے۔ اس سے ثابت ہو گیا۔ سوشل ازم کے حق میں جو نعرے میں نے لگائے وہ نوجوانی کے جوش میں نادانی کے علاوہ کچھ نہیں۔ غریبوں کا اصل فائدہ جمہوریت کرتی ہے۔ اگر کسی کو میری بات پر یقین نہیں آ رہا، تو وہ آف شور بچوں سے پوچھ لے۔ یہ بچے سونے کے چمچے کو گلو برانڈ چمچوں پر ہمیشہ ترجیح دیتے ہیں۔
پاکستانی نے ٹی وی سے منہ موڑا اور اگلی دکان کی طرف چل نکلا، جہاں اسے وڈے حاجی صاحب نظر آئے۔ وہی‘ جس نے رمضان کا پورا مہینہ پانی میں لتھڑی ہوئی گیلی کھجوریں، مختلف دالوں کا چورا، سڑی ہوئی مکئی کے ذائقے والا بیسن بیچا۔ پہلے روزے سے 29ویں روزے تک حاجی صاحب کا ریٹ ہر دن بڑھتا رہا۔ آخری افطاری والے دن حاجی سرکاری افطار پارٹی میں شریک نظر آیا۔ پاکستانی کو دیکھتے ہی حاجی چیخ پڑا‘ ''پاکستانیو باہر نکلو۔ ترک عوام کی مثال تمہارے سامنے ہے‘‘۔ یہ سن کر پاکستانی کا چہرہ لال سرخ ہو گیا حاجی اس کی پہنچ میں تھا۔ وہ چلایا، گرجا اور پھر برس پڑا۔ کہا‘ تمہیں بچاؤں جو مہنگا انڈا، مردہ مرغی، گدھے کے گوشت کا قیمہ، یرقان کے رنگ والی چینی، بھوسے والا آٹا، اینٹوں والی مرچیں، چنے کے چھلکوں والی پتی جنت کے پھل فروٹ کے بھاؤ بیچتا ہے۔ تم اور تمہارے سرپرست 'باہر آؤ شور مچاؤ اور ڈنڈے کھاو‘ٔ کی ڈیوٹی غریبوں کو دیتے ہو۔ خود تم اور تمہارا آقا آف شور کمپنی بنائو، ونڈ کھاؤ اور کھنڈ کھائو میں لگے ہیں۔
پاکستانی کی آواز اونچی ہوتی چلی گئی۔ کہنے لگا‘ تمہیں یاد ہے جب تمہارے سرپرست اٹک سے جدہ گئے تب اسمبلیوں میں ان کے ارکان کی تعداد پونے تین سو تھی۔ ترکی میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی اندرونی لڑائی پر لڈیاں ڈالتے ہو۔ یہ سارے وہی ہیں جو تب بھی اسمبلیوں میں تھے۔ جاؤ کسی ایک کا گریبان پکڑو۔ اس سے پوچھو‘ وہ اس وقت باہر کیوں نہ نکلا۔ سب کا جواب ایک ہی ہو گا۔ ہم بیمار تھے، کینیڈا چلے گئے‘ آسٹریلیا میں علاج کرایا، لندن میں صحت پائی، حجازِ مقدس میں دعا کی اور جمہوریت بحال ہو گئی۔ رہا مشرف تو اس نے ہمیں کوئی رعایت نہیں دی۔ رفیق حریری سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ پرنس مقرن کو ہم نہیں جانتے۔
حاجی پاکستانی کے پاؤں پڑ گیا... 'خدا کے لیے غصہ تھوک دو باہر نکلو جمہوریت بچاؤ۔ جمہوریت تمہیں بچائے گی‘۔ پاکستانی نے کہا: باہر تو ماڈل ٹاؤن والے، نابینا، ینگ ڈاکٹرز، استاد، نرسیں اورکسان بھی نکلے تھے۔ باہر نکلنے پر لاٹھی اور گولی کی سرکار نے لاشے گرا دیے۔ پھر کھل کر ان کے جنازے بھی نہیں پڑھنے دیے۔ اس نے حاجی کو دھکا مار کر دکان کے اندر کیا اور اونچی آواز میں کہا: میں تو روز ہی باہر نکلتا ہوں تم بھی کبھی باہر نکل کر دیکھو۔ تمہیں خلقِ خدا کہتی کیا ہے۔ اور بغیر پروٹوکول کے مل جاؤ تو تمہارے ساتھ کرے گی کیا...!! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved