جلال الدین خلجی کو جب بتایا گیا کہ علائو الدین خلجی نے بغاوت کر دی ہے اور وہ اب ایک بڑی آرمی کے ساتھ دلی پر حملہ کرنے آرہا ہے تو دلی کا سلطان ایک صدمے کی حالت میں چلا گیا ۔ سلطان چیخ پڑا۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ یہ کسی دشمن کی اڑائی ہوئی خبر لگتی ہے۔ علائو الدین کو میں نے بچپن سے اپنے بیٹے کی طرح پالا ہے۔ وہ میرا داماد ہے، وہ میرا بیٹا ہے، وہ کیسے میرے خلاف بغاوت کر سکتا ہے۔علائو الدین کو جلال الدین نے ہندوستان کے چند علاقے فتح کرنے کے لیے ایک آرمی دے کر بھیجا تھا۔ علائو الدین خفیہ طور پر ان علاقوں میں لوٹ مار کر کے اپنی فوج تیار کرتا رہا۔ اس کے ذہن میں دلی کے تخت پر قبضے کا خیال بہت پہلے آچکا تھا۔ بادشاہ جلال الدین کے اندھا دھند اعتماد نے اسے اس قابل بنادیا تھا کہ وہ بڑے پیمانے پر اپنی فوج اکٹھی کر سکے۔ علائو الدین نے ان علاقوں پر بھی فوج کشی کی جس سے اس نے سلطان سے اجازت نہیں لی تھی۔ مخبر یہ خبر دے رہے تھے کہ ان علاقوں سے اکٹھی ہونی والی دولت سے علائو الدین اپنی فوج تیار کر رہا تھا۔
تاہم دلی کے امراء کو علائو الدین پر شک ہوچکا تھا اس کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔ مورخ بارانی لکھتا ہے کہ سلطان کا خوبصورت دل اپنے پیارے بھتیجے اور داماد کے دل میں پلنے والی نمک حرامی کو پڑھنے میں ناکام رہا تھا ۔تاہم علائو الدین نے سلطان کو مزید دھوکا دینے کے لیے پیغام بھیجا کہ اسے ان علاقوں پر حملے کرنے پر معاف کیا جائے جس کی جلال الدین نے اجازت نہیں دی تھی۔ تاہم اس نے جو کچھ ان علاقوں سے لوٹا ہے وہ دلی بھیج رہا تھا۔ جب کہ دلی میں علائو الدین کے بھائی الماس بیگ نے سلطان جلال الدین کو یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ دراصل علائو الدین خوفزدہ تھا کہ چچا جان اس سے ناراض ہیں۔ اس لیے وہ بنگال فرار ہونے کا سوچ رہا تھا۔ الماس نے کہا چچا جان علائو الدین تو یہ سوچ رہا ہے اگر آپ کا غصہ نہ اترا تو وہ خود کو مار ڈالے گا۔ خودکشی کر لے گا۔
اس پر سلطان نے خود علائو الدین کے پاس جانے کا فیصلہ کیا اور الماس بیگ کے ساتھ ایک کشتی پر گنگا دریا میں سفر کرتے ہوئے کارا کی طرف گئے۔ جلال الدین کے ساتھ تھوڑی سی فوج تھی جو اس کی حفاظت کے لیے تھی۔ جب وہ دریا کے کنارے پر پہنچے تو دیکھا علائو الدین کی فوج جنگی اسٹائل میں کھڑی تھی۔ الماس بیگ نے کہا علائو الدین آپ کو فوجی سیلوٹ پیش کرنا چاہتا ہے۔الماس بیگ نے اپنے چچا کو قائل کیا کہ وہ دریا کے دوسرے کنارے چلا جائے جہاں علائوالدین اس کا انتظار کر رہا ہے۔ اس پر اپنے بھیتجے کی محبت مین گرفتار جلال الدین چند محافظوں کے ساتھ دریا کے دوسرے کنارے پر اتر گیا۔
مورخ بارانی لکھتا ہے کہ سلطان دیکھ چکا تھا۔ دھوکا ہوگیا تھا۔ لیکن پھر بھی اس نے پیچھے مڑنا مناسب نہیں سمجھا۔ جلال الدین کو دیکھ کر علائو الدین سلطان کے قدموں پر گرگیا۔ اس پر جلال الدین نے اٹھا کر اپنے گلے سے لگایا ۔ اس کے ماتھے پر بوسا دیا۔ اس کی داڑھی کو بھی سہلایا اور اس کے گالوں کو پیار سے تھپ تھپایا اور بولا علائوالدین تمہیں میں نے پالا ہے۔ تم مجھ سے کیوں خوفزدہ ہو۔ بھلا میں تمہارے ساتھ سختی کر سکتا ہوں جسے میں نے بیٹے کی طرح خود پالا ہو۔ یہ کہہ کر جلال الدین نے علائو الدین کا ہاتھ پکڑا۔ اس وقت علائوالدین نے اپنے فوجیوں کو اشارہ کیا اور وہ تلوار لے کر جلال الدین پر پل پڑے۔ دھوکا ہوچکا تھا۔جلال الدین دریا کی طرف دوڑا اور چلایا۔ علائو الدین تم نے کیا کیا۔تم نے دھوکا دیا ہے۔کبھی نہ سوچا تھا کہ تم یہ سب کچھ کرو گے۔ فوجی جلال الدین کے پیچھے دوڑے۔ بوڑھے سلطان کو پکڑ کر اس کا سر کاٹ دیا اور لا کر علائو الدین کے قدموں میں ڈال دیا ۔جلال الدین کے محافظوں کو بھی قتل کر دیا گیا۔ جلال الدین کے سر کو ایک لمبے بانس پر ٹانگ کر ہر جگہ پھرایا گیا۔ اس کٹے سر سے ابھی بھی خون بہہ رہا تھا۔ اس وقت ہی جلال الدین کا تاج لا کر علائو الدین کو پہنا دیا گیا۔ دلی کا ایک اور سلطان دھوکے میں مارا گیا تھا۔ ایک اور بغاوت ہوچکی تھی۔
علائو الدین کے قتل کے بعد اب اس کا راستہ کون روک سکتا تھا۔اسے خطرہ تھا تو ترک امراء سے تھا جو خلجیوں کو ترک النسل نہیں مانتے تھے۔ اور دلی اس وقت ترک امراء کے قبضے میں تھا ۔ خلجیوں کو افغان سمجھا جاتا تھا اور ترک ان سے نفرت کرتے تھے۔ دلی کے لوگوںپر اسی برس تک ترکوں نے حکومت کی تھی۔ ترکوں کا کہنا تھا کوئی افغان دلی کا بادشاہ نہیں رہا اس لیے ان میں سے کسی کو دلی کا تخت نہیں خلجی دیا جاسکتا تھا۔ تاہم مورخ لکھتے ہیں ترکوں کا یہ کہنا غلط تھا کہ خلجی ترک النسل نہیں تھے۔ ان کا کہنا ہے دراصل خلجی ترکوں کے افغانستان پر قبضے اور حکومت قائم کرنے سے بہت پہلے وہاں سیٹل ہوگئے تھے اور وہ مقامی افغانیوں کی روایات اور کلچر میں گھل مل گئے تھے۔ اس لیے اصلی نسلی ترک اب خلجیوں کو اپنی نسل ماننے سے انکاری تھے۔
جب یہ خبر دلی پہنچی کہ جلال الدین کو دھوکے میں قتل کر دیا گیا ہے تو اس کی بیوہ ملکہ جہاں نے فوراً اپنے چھوٹے بیٹے قادر خان کو تخت پر بٹھا دیا کیونکہ اس کا بڑا بیٹا ارقلی خان اس وقت ملتان میں تھا۔ تخت کو خالی نہیں رکھا جاسکتا تھا ۔ اس پر دربار کے امراء تقسیم ہوگئے۔ بارانی لکھتا ہے کہ وہ بہت بیوقوف ملکہ تھی جس کے اس قدم سے دلی کے امراء تقسیم ہوگئے۔ اس پر اس کا بیٹا ارقلی خان بھی ناخوش ہوا اور وہ ملتان سے اپنی ماں اور بھائی کو علائو الدین سے بچانے کے لیے نہ نکلا۔
علائو الدین خلجی جو پہلے جھجک کا شکار تھا کہ وہ کیا کرے اسے حوصلہ ملا اور اس نے دلی کی طرف مارچ شروع کر دیا۔ اس نے دل کھول کر راستے میں مال لوٹایا اور بانٹا۔ جب وہ دلی کے قریب پہنچا تو اس کے ساتھ پچاس ہزار گھڑ سوار اور ساٹھ ہزار سپاہی تھے۔ لوگوں میں تاثر پھیل گیا اب نیا حکمران علائو الدین ہی ہوگا۔ علائو الدین نے ملکوں اور امراء کو رشوت دے کر خریدنا شروع کر دیا جن کے نزدیک وفاداری سے زیادہ سونا اہم تھا۔ علائو الدین نے اتنا سونا بانٹا کہ چند روز میں امراء جلال الدین کے قتل کو بھول گئے۔
ادھر ملکہ جہاں نے شاہی افسران کو ایک فوج دے کر بھیجا کہ وہ علائوالدین کا راستہ روکیں لیکن وہ سب بھی علائو الدین کے ہاتھ بک گئے۔ سب نے اپنی قیمت لے لی۔ جب یہ خبر ملکہ تک پہنچی تو اس نے اپنے بیٹے کو ملتان خط لکھا کہ وہ اس کی خطا معاف کردے کیونکہ وہ ایک عورت ہے اور عورت بیوقوفی کر سکتی ہے۔ اسے لکھا کہ وہ فوراً دلی پہنچے اور تخت سنبھال لے۔
بارانی لکھتا ہے کہ ارقلی خان ایک زبردست جنگجو تھا۔ وہ اگر دلی کے تخت پر بیٹھتا تو بہت بڑا سلطان بنتا تھا۔ لیکن دیر ہوچکی تھی کیونکہ دلی کے امراء اب علائو الدین خرید چکا تھا۔ اس نے ماں کی پیشکش کو ٹھکرادیا۔ اس پر ملکہ جہاں نے اپنے نوخیز بیٹے قادر خان کو ایک فوج دے کر علائوالدین سے لڑنے بھیجا۔ راتوں رات علائو الدین نے بھی سونا دے کر قادر خان کی فوج کو خرید لیا۔ اس پر قادر خان دلی لوٹ گیا۔ماں بیٹا جو کچھ اپنے محل سے لے سکتے تھے انہوں نے لیا اور وہ رات کے اندھیرے میں ملتان کی طرف نکل گئے۔ اپنے چچا کو قتل کرنے کے پانچ ماہ بعد علائو الدین دلی داخل ہوا۔
دلی کے تخت پر بیٹھتے ہی علائو الدین نے فوج کا دستہ ملتان بھیجا جہاں انہوں نے ارقلی خان اور قادر خان کو پکڑ لیا۔ علائو الدین کے حکم پر فوراً ان دونوں بھائیوں کو پہلے اندھا اور پھر سرقلم کر دیے گئے۔ ان کی ماں ملکہ جہاں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ علائو الدین کو دلی کا سلطان بنے دو برس ہوچکے تھے۔ اب دلی کے امراء کی باری تھی جنہیں سلطان نے مال و زر دے کر خریدا تھا۔ دلی کے امراء سمجھتے تھے ان کی وجہ سے علائو الدین اقتدار میں آیا تھا۔ آج وہ سلطان تھا تو ان کی وجہ سے سلطان تھا۔علائو الدین کے لیے یہ ثابت کرنا ضروری تھا کہ وہ دلی کے امراء کے بغیر بھی دلی پر حکومت کر سکتا تھا ۔
سب سے پہلے علائو الدین نے جلال الدین دور کے بہت سارے افسران کو برطرف کیا ۔ علاو الدین ان امراء کے ساتھ بہت سختی سے پیش آیا جنہوں نے اس کے چچا جلال الدین کو چھوڑ کر ساتھ دیا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اس قابل نہیں تھے ان پر بھروسہ کیا جاتا۔ جن امراء نے اپنے سابق سلطان جلال الدین کو دھوکا دیا تھا بھلا وہ نئے سلطان کے کیسے وفادار ہوسکتے ہیں۔ ان تمام امراء سے مال و زر جو انہوں نے علائو الدین خلجی سے وفاداری تبدیل کرنے کے لیے لیا تھا واپس لے کر انہیں جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ چند امراء کو اندھا کر دیا گیا اور علائو الدین کے حکم پر امراء کو قتل کر دیا گیا۔ ان امراء کے گھروں پر قبضہ کر لیا گیا۔ ان امراء کے گائوں بھی ریاست کے قبضے میں لے لیے گئے۔ جلال الدین خلجی کے تمام امراء میں سے صرف تین کو علائو الدین نے بخش دیا ۔ یہ وہ تین امراء تھے جنہوں نے علائو الدین سے پیسے لینے سے انکار کر دیا تھا۔ باقی تمام امراء کو علائو الدین نے چن چن کر انتقام کا نشانہ بنایا۔ علائو الدین نے اپنے چچا کے تین امراء کو یہ کہہ کر بخش دیا ان پر بھروسہ کیا جاسکتا تھا۔ ایسے امراء کی عزت کی جانی چاہیے تھی جو اس کے چچا جلال الدین خلجی کے وفادار رہے تھے ۔
دلی پر ترکوں کا قبضہ ایک دفعہ پھر ہوچکا تھا ۔ لیکن دلی کی مٹی بھلا کب تک بغاوتوں اور انسانی خون سے دور رہ سکتی تھی۔ابھی بہت سارے سرقلم ہونے تھے۔۔کئی شہزادوں اور بادشاہوں کو قتل ہونا تھا۔ کئی بغاوتیں باقی تھیں۔!