جان کاشمیری سے ہماری پرانی یاد اللہ ہے۔ کافی عرصے سے ''قرطاس‘‘ نامی ایک ادبی رسالہ نکال رہے ہیں جس میں خاکسار کو بھی بڑی محبت سے چھاپتے رہے ہیں۔ ادبی رسالہ نکالنا ویسے بھی ایک قابل تعریف بات ہے کہ شعر و ادب کی ترویج کا ایک اہم وسیلہ یہ بھی ہے۔ کئی شعری مجموعے بھی زیورِ طبع سے آراستہ ہو چکے ہیں۔ اب انہوں نے مزید دس مجموعے ارسال کیے ہیں اور لکھا ہے کہ میری معلومات کے مطابق اردو ادب تو کجا‘ کسی زبان میں بھی شاعری کی دس تازہ کتابیں ایک ساتھ شائع نہیں ہوئیں۔ ان کا خیال بظاہر درست ہی لگتا ہے اور میرے خیال میں واقعی یہ ایک ریکارڈ ہے جس کا اندراج گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں ضرور ہونا چاہیے۔ ادھر ہمارے دوست صابر ظفر نے بھی اپنا 39واں مجموعہ کلام پیش کرکے ایسا ہی ایک ریکارڈ قائم کر دیا ہے‘ دونوں ہماری مبارکباد کے مستحق ہیں۔
میں نے ان میں سے بعض کتابوں کے اندرونی سرورق پر شاعر کی طرف سے درج کیے جانے والے منتخب اشعار ہی سرسری دیکھے ہیں‘ اس سے زیادہ کی مجھ میں ہمت نہیں تھی کیونکہ اس کام کے لیے ضروری تھا کہ یہ اشعار میرے اندر پوری کتابیں پڑھنے کی تحریک پیدا کرتے۔ یہ بظاہر بے عیب اور ٹھیک ٹھاک شاعری ہے اور اس طرح کی شاعری کو اس طرح کے پڑھنے اور پسند کرنے والے بھی دستیاب ہو جاتے ہیں؛ تاہم جب آپ اپنا مجموعۂ کلام شائع کروا کر مارکیٹ میں پھینکتے ہیں تو گویا ایک چیلنج دے رہے ہوتے ہیں کہ کوئی ہم سا ہو تو سامنے آئے‘ کیونکہ یہ مسابقت کا زمانہ ہے اور جب تک آپ کا مال سب سے بہتر اور بڑھ کر نہ ہو‘ بات نہیں بنتی۔
پہلے بھی کہیں لکھ چکا ہوں کہ شاعری اپنے آپ کو خود پڑھواتی ہے‘ اسے بیگار کے طور پر نہیں پڑھا جا سکتا۔ اس لیے کتاب چھپوانے سے پہلے یہ اندازہ کرنا ضروری ہے کہ مارکیٹ کی صورت حال کیا ہے کیونکہ اگر مارکیٹ میں اس سے بہتر مال موجود ہو تو خریدار کے لیے کشش بھی وہی رکھے گا۔ اس کے علاوہ‘ غزل کے شاعر کے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ جدید غزل کہاں تک پہنچ چکی اور کتنی منزلیں طے کر چکی ہے کیونکہ روایتی غزل کی اب کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے ٹھیک ٹھاک یا گزارے موافق شاعری اب کسی بھائو نہیں بکتی اور ایسی شاعری سے صرف شاعری کی کتابوں میں اضافہ ہوتا ہے‘ شاعری میں نہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ غزل جہاں تک پہنچ چکی ہے‘ آپ کی غزل اس سے آگے ہے یا نہیں۔ اگر اس کے برابر بھی ہے تو بھی کوئی تیر نہیں مارا گیا۔
محض الفاظ کا موزوں کر دینا شاعری نہیں ہے‘ زیادہ سے زیادہ اسے قافیہ پیمائی کہہ سکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کی شاعری سے کوئی واضح فرق پڑتا ہے یا نہیں کیونکہ ایک سودا آپ بازار میں لائے ہیں تو اس میں گاہک کو ترغیب دینے کا سامان بھی ہونا چاہیے۔ بصورت دیگر تو یہی کافی ہونا چاہیے کہ آپ کتاب چھپوا کر اپنے دوستوں اور ملنے والوں میں تقسیم کرکے عنداللہ ماجور ہوں اور بس۔ اس لیے کہ شاعری کا فیشن اور تقاضے تبدیل ہو چکے ہیں‘ پرانے سکّے اب نہیں چل سکتے اور جب تک آپ کا پیرایۂ اظہار نیا اور مختلف نہ ہو‘ یہ ساری سعی لاحاصل ہے‘ اس صورت میں شاعر کو کوئی اور کام کرنا چاہیے۔
شعر میں اتنی تازگی اور طاقت ہونی چاہیے کہ پڑھنے اور سننے والے کو داد دینے پر مجبور کر دے۔ شاعری‘ اور غزل کی شاعری بنیادی طور پر مصرع بنانے کا فن ہے کہ آپ مصرع کس طرح بناتے ہیں۔ اسی میں آپ کا لب و لہجہ بھی آ جاتا ہے اور تازگی کے تقاضے بھی پورے ہونے کا امکان موجود رہتا ہے۔ واضح رہے کہ میں صرف اپنی رائے کا اظہار کرتا ہوں ورنہ اس کام کے لیے میں نے کوئی سکول نہیں کھول رکھا‘ اور نہ میں اس کی اہلیت ہی رکھتا ہوں کیونکہ میں تو خود سیکھنے کے عمل سے گزر رہا ہوں اور اگر کہیں کہیں میری رائے کو اہمیت دی جاتی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ میں اس کا مستحق نہیں ہوں کیونکہ میں اپنی خامیوں اور کمزوریوں سے آگاہی رکھتا ہوں۔
ہر شخص کے نزدیک شعر کا ایک معیار ہوتا ہے‘ سو میرا بھی ہے اور میں اس کے مطابق اپنی رائے ظاہر کرنے پر مجبور بھی ہوں۔ میرے پڑھنے والے خاصی حد تک یہ بات جانتے بھی ہیں اور اگر کوئی رائے یا تبصرے کے لیے اپنی کتاب مجھے بھیجتا ہے تو اپنے رسک پر ہی ایسا کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ میری رائے کو اسی صورت پسند بھی کیا جاتا ہے کہ وہ مثبت ہو جبکہ منفی رائے کو صرف برداشت کیا جاتا ہے اور وہ بھی بہت کم‘ جبکہ تبصرہ کرنے کا تو میں اہل ہی اپنے آپ کو نہیں سمجھتا‘ نہ ہی اس کالم میں تبصرے کی کوئی خاص گنجائش ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں بالعموم یہ بتانے پر ہی اکتفا کرتا ہوں کہ کتاب اور شاعر کا نام کیا ہے‘ کتاب کا موضوع کیا ہے‘ اسے کس نے چھاپا ہے اور اس کی قیمت کیا ہے۔ اور‘ یہی کچھ میں اب کرنے بھی والا ہوں۔
یہ کتابیں ہمارے شاعر اور پبلشر دوست خالد شریف نے چھاپی ہیں اور ہر کتاب کی قیمت 500 روپے رکھی ہے‘ گویا آپ صرف پانچ ہزار روپے خرچ کرکے ان کتابوں کے مالک بن سکتے ہیں‘ جبکہ سب کا سال اشاعت2016ء ہے۔ پہلی کتاب ہے ''حیرت سے آگے‘‘۔ یہ ایک ہی بحر میں غزلیں ہیں اور انتساب اردو ادب کے میزبانِ اعظم‘ کے ایل نارنگ ساقی کے نام ہے۔ دوسری کتاب ہے''جنت میں خود کُشی‘‘۔ یہ بھی غزلوں کا مجموعہ ہے جس کا دیباچہ محمود شام نے لکھا ہے۔ اس کے بعد ہے ''خلوت کے بعد‘‘ اور‘ اس کا انتساب محبتوں کے تقسیم گر‘ ممتاز قلمکار عطاء الحق قاسمی کے نام ہے۔ اس کا دیباچہ جواز جعفری نے قلمبند کیا ہے۔ اگلی کتاب کا نام ہے ''دوزخ میں آبِ کوثر‘‘ یہ بھی غزلوں کا مجموعہ ہے جس کا انتساب انتہائی مخلص انسان‘ ممتاز و محترم قلم کار جناب نسیم درانی کے نام ہے اور اس کا دیباچہ خواجہ رضی حیدر نے تحریر کیا ہے۔ اس سے اگلی کتاب ہے ''ژرف نگاہی‘‘ جو فردیات پر مشتمل ہے اور جس کا انتساب برادرِ بے بدل سید انصر سبطین نقوی‘ کے نام ہے۔ اگلی کتاب ہے ''ڈوبتے ہاتھ کی فریاد‘‘ جو قطعات پر مشتمل ہے اور جس کا انتساب ڈاکٹر اسد امتیاز کے نام ہے جو مسیحائی کا درخشندہ ستارہ ہیں‘ اس کا دیباچہ سید تنویر سبطین نقوی کے قلم سے ہے۔ اس کے بعد ہے ''ذرا سی بات‘‘ جس کا دیباچہ حق گو‘ ادب پرور اور انسان دوست تثلیث جناب شیخ غلام حسین جج‘ جناب شیخ محمد شاہد اور جناب خواجہ شجاع اللہ کے نام ہے۔ اس کے بعد ''روئے غزل‘‘ ہے جو مختلف بحور میں 1000 سے زائد مطلعے ہیں اور جس کا انتساب پروفیسر ڈاکٹر محمد آصف قادری کی حق پروری کے نام ہے اور جو فردیات پر مشتمل ہے اور جس کا دیباچہ عمران اعظم رضا نے لکھا ہے جبکہ آخری مجموعہ ''زمانے کو چھوڑو زمانہ کدھر ہے‘‘ کے نام سے ہے‘ جس کا انتساب بابائے تقریبات ڈاکٹر محمد حلیم خاں کے نام ہے۔ ہر کتاب کے پس سرورق شاعر کی تصویر بھی ہے۔
آج کا مطلع
میں سانس لے نہیں سکتا‘ ہوا رکاوٹ ہے
رُکا ہُوا ہوں کہ خود راستا رکاوٹ ہے