تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     22-07-2016

چاند پہ انسانی قدم ، حقیقت اور افسانہ

جمعرات کے روز اس واقعے کو 47برس مکمل ہو گئے ہیں ، جسے انسانیت کی تاریخ میں ایک بڑا قدم (One giant leap) کہاجاتاہے ۔امریکی خلاباز نیل آرمسٹرانگ کا چاند پہ پہلا قدم ۔ یہ وہ قدم تھا، آج تک جو کسی حد تک متنازع رہا ہے ۔ آج بھی کم از کم عام عوام کی ایک قابلِ ذکر تعداد میں یہ شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ واقعی آرمسٹرانگ نے چاند پہ قدم رکھا تھا یاانسانیت کے ساتھ یہ ایک دھوکا تھا۔ 
چاند پہ امریکی قدم کے بارے میں لکھا تو فیس بک کے ایک دوست نے اس پہ اعتراض کیا ۔ انہوں نے بڑی تفصیل سے سائنسی اصطلاحات استعمال کیں ۔ میں قدرے مرعوب ہو گیا ۔ انہوں نے کہا کہ کرّہ ء ارض کی حدود سے باہر انتہائی شدید تابکاری پائی جاتی ہے ۔ 
یہ بھی کہ "vinyle radiation layer"سے باہر نکلنے کے جو سپر کمپیوٹر درکار ہیں ، وہ آج بھی ہمارے پاس موجود نہیں ۔ 1969ء میں وہ کہاں سے آتے ۔ میں قدرے خفیف ہوا اور یہ کہا کہe vinyl ریڈی ایشن کیا ہوتی ہے ، میں نے تو کبھی اس کا نام تک نہیں سنا۔ پھر سائنس سے متعلق قابلِ اعتبار عالمی اداروں کی ویب سائٹس پر اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ خیر میں نے یہ کہا کہ کرئہ ارض کی حدود سے باہر نکلنا اور پھر واپس داخل ہونا کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ اس لیے کہ 2005ء میں جاپان کا خلائی جہاز hayabosaزمین کی حدود سے باہر نکلا۔وہ ایک شہابِ ثاقب پہ اترا، وہاں سے مواد اکھٹا کیا ۔ اس کے بعد 2010ء میں خلا سے وہ واپس کرّہ ء ارض کی فضا میں داخل ہو ااور کامیابی سے سارا مواد سائنسدانوں کے حوالے کیا۔ اسی طرح اس امر میں شک و شبے کی کوئی گنجائش نہیں کہ زحل کے چاند ٹائٹن پر انسان کی بھیجی ہوئی مشنری موجود ہے ۔ مریخ پہ متحرک خلائی لیبارٹری curiosityکی موجودگی بھی سو فیصدسچ ہے ۔ انسان کا بھیجا ہوا مشن voyager 1تو خیر نظامِ شمسی ہی سے باہر نکل چکا ہے ۔ اگر یہ سب جھوٹ ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ چین سے بھارت، جاپان سے آسٹریلیااور امریکہ سے روس تک ، دنیا بھر کے لاکھوں سائنسدان مل کر سات ارب انسانوں کو دھوکہ دے رہے ہیں ، جو کہ ناممکن ہے۔ اس لیے کہ خلائی میدان میں بھی ہر ملک کے اپنے مفادات اور تعصبات ہیں ۔ روس میں بیٹھا ہوا سائنسدان کبھی بھی امریکی مفادات کی تکمیل نہیں کر سکتا۔ اسی طرح چین کا سائنسدان کبھی جاپان کا احمقانہ دعویٰ تسلیم نہیں کرے گا۔ 
فیس بک کے دوست نے اس پر یہ کہا : vinyleشعاعیں کرّئہ ارض کے گرد پھیلی ہوئی ہیں ۔ انسانی جسم ان سے باہر نکل کر دوبارہ داخل نہیں ہو سکتا ۔ 1969ء میں انسانوں کو اس بارے میں معلوم ہی نہیں تھا۔ جب vinyleشعاعیں دریافت ہوئیں تو پھر امریکیوں سے پوچھا گیا کہ انہوں نے vinyleشعاعوں کو کیسے عبور کیا۔ اس پر امریکیوں نے جواب دیا کہ ہم نیل آرمسٹرانگ والے مشن کا سارا ڈیٹا کھو چکے ہیں ۔ 
اب صورتِ حال کچھ واضح ہوئی ۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ میں کبھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا، جس میں امریکیوں سے پوچھا گیا ہو کہ کسی مخصوص شعاعوں کا حصار انہوں نے کیسے عبور کیا اور انہوں نے کبھی یہ جواب نہیں دیا کہ اس مشن کا سارا ڈیٹا کھو چکا ہے ۔ اگر ایسا کوئی واقعہ پیش آتا تو عالمی ذرائع ابلاغ میں ہمیشہ کے لیے رکارڈ ہو جاتا۔جب میں نے حوالہ مانگا تو میرے دوست نے کہا کہ انہوں نے انٹرنیٹ پر کہیں یہ بات پڑھی تھی ۔ ظاہر ہے کہ یہ سب سنی سنائی افواہیں ہیں ۔ میں چاہوں تو دن میں ایسی پچاس افواہیں گھڑ کر انٹرنیٹ پر پھیلا سکتا ہوں ۔ دقیق سائنسی اصطلاحات کے استعمال سے سننے والا ویسے ہی مرعوب ہو جاتاہے ۔ 
حقیقت یہ ہے کہ جو میزائل دوسری جنگِ عظیم میں جنگ کے لیے بنائے گئے تھے، جنگ کے بعدامریکہ اور سوویت یونین نے انہیں خلائی دوڑ کے لیے استعمال کیا۔ دونوں چاند پہ اترنے کے لیے بے تاب تھے ۔ 1958ء سے 1965ء کے درمیان سویت یونین نے چاند کی طرف 20میزائل بھیجے۔ ان میںسے کسی کو چاند سے ٹکرانا تھا۔ کسی کو اترنے کی کوشش کرنی تھی اورکسی کو مدار میں گھومنا تھا۔ بیس میں سے دو ہی کامیاب ہو سکے۔ اس دوران امریکہ نے اٹھارہ مشن بھیجے ۔ تین کامیاب ہوئے ۔ تین فروری 1966ء کو سوویت یونین کا مشن luna 9جس میں انسا ن سوار نہیں تھا، چاند پر اترنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس کے بعد لیونا 13 اترا۔ امریکہ کا مشن surveyor 1966ء میں چاند پر اترا اور اس نے گیارہ ہزار تصاویر زمین پر ارسا ل کیں ۔ اس کے بعد دوڑ یہ تھی کہ کون انسان کو پہلے چاند پر اتارتا ہے ۔ یہ بات غیر متنازعہ ہے کہ دونوں کے پاس چاند پر اترنے کی صلاحیت موجود تھی ۔ دونوں ہر سال کئی مشن چاند روانہ کر رہے تھے ۔ اپالو ٹو سے متعلق جو اصلی وڈیوز ناسا کی ویب سائٹ پرموجود ہیں ، وہ انتہائی دھندلی ہیں۔ جب کہ جو یو ٹیوب پر موجود ہیں ، انہیں بعد میں بہتر بنایا گیا ۔ جھنڈا اس وقت لہراتا نظر آتا ہے ، جب خلاباز ڈنڈے کو زمین میں گاڑنے کے لیے مار رہا ہے ۔جو بات مکمل یقین سے کہی جا سکتی ہے ، وہ یہ کہ چاند ہی نہیں ، دور دراز کے سیاروں ، مثلاً زحل کے چاند ٹائٹن پر بھی مشنری اتر چکی ہے ۔اب چاند پہ اترنے پر شک کرنا ایسے ہی ہے ، جیسے مرسڈیز چلاتا ہوا بندہ کہے کہ مہران گاڑی ایجاد نہیں ہوئی ۔
انٹر نیٹ پر سنی سنائی ہر بات سچ نہیں ہوتی ۔ وہاں سچ کو اور مصدقہ واقعات کو ڈھونڈنا ایک پوری سائنس ہے ۔ حقیقت یہی ہے کہ زمینی کششِ ثقل کو توڑ کر انسان ہوا ہی میں بلند نہیں ہو ابلکہ ہوا سے باہر وہ خلا میں بھی جا چکا ہے ۔ انسانی جسم پر کرّئہ ارض کی حفاظتی تہوں سے محرومی کے سخت اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن وہ بتدریج ہوتے ہیں ۔ یہ نہیں کہ شعاعوں کی کوئی دیوار وہاں موجود ہوتی ہے ، خلائی جہاز جس سے ٹکرا کر نیچے گر پڑے۔ انسانی ہڈیوں، پٹھوں اور اعصاب کو خلا میں نقصان پہنچتا ہے ۔ حقیقت یہی ہے کہ انسانی جسم کرئہ ارض ہی پر رہنے کے لیے بنایا گیا ہے ۔ یہیں وہ رہے گا اور یہیں وہ ماضی کی پانچ ارب مخلوقات کی طرح ہمیشہ کے لیے فنا ہو جائے گا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انسان اجرامِ فلکی میں مداخلت کر چکا ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved