قندیل بلوچ صرف ایک نام تھا جو تواتر سے میرے ٹویٹر فیڈ بیک پر ابھرا، اور میرے ذہن میں اس کے بارے میں ایک دھندلا سا خیال تھا کہ وہ آن لائن اپنی نامناسب سی تصاویر پوسٹ کر تی ہے، اور یہ کہ ایک عالم ِدین کو اس وقت شرمندگی اٹھانی پڑی جب اُس کی قندیل بلوچ کے ساتھ تصاویر نیٹ کی زینت بنیں۔ بہرحال میں نے قندیل بلوچ یا اُس کی انٹر نیٹ سرگرمیوں پر زیادہ توجہ نہ دی کہ وہ جو بھی مناسب سمجھ رہی ہے، اس کا حق ہے۔ تاہم جب بھائی کے ہاتھوں اُس کے قتل کی خبر دھماکہ خیز انداز میں پھیلی تو میں چونک گیا۔ میں نے انٹر نیٹ پر اُس کے تمام میٹریل کا جائزہ لیا۔ بیڈ پرکیے گئے اُس کے بھڑکیلے ڈانس نے میرے ہوش اُڑا دیے۔ میں اُن پانچ لاکھ افراد میں سے ایک تھا جنھوں نے اس مخصوص لنک کو کلک کیا تھا۔ بہت سے تبصرے تھے، کچھ نے اخلاقی ٹھیکیدار بننے کی کوشش کی تھی، کچھ نے قندیل کے لیے نامناسب الفاظ استعمال کیے تھے۔ کچھ نے ماڈل گرل کی ہلاکت پر دکھ کا اظہار بھی کیا تھا اور ان کے غصے کا رخ اُس کے بھائی کی طرف تھا۔
قندیل کے قاتل، وسیم عظیم کا کہنا تھا کہ اُس کے خاندان کی عزت اتنی پامال ہو چکی تھی کہ اُسے اپنی بہن کے خون سے ہاتھ رنگنا پڑے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عزت مبینہ طور پر پامال ہو رہی تھی تو اُس نے خود کو ہلاک کیوں نہ کرلیا؟ شاید خاندان کی عزت کے لیے ایک کمزور عورت کو جان سے مار دینا ضروری تھا، بالکل جس طرح ہر سال سیکڑوں عورتوں کو ہلاک کرکے عزت کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ اس رسم پر پاکستانیوں یا مسلمانوں کی ہی اجارہ داری نہیں، کچھ دیگر اقوام نے بھی اپنی عزت کا شیش محل اپنی عورتوں کے کندھوں پر رکھا ہوتا ہے، جو ذرا سی لغزش پا سے چکنا چور ہو جانے کے خطرے سے دوچار رہتا ہے۔ اعداد وشمار کہتے ہیں کہ خود ساختہ اخلاقی روایات سے ہلکا سا انحراف کرنے پر مسلمان عورتوںکے اپنے خاندان کے افراد کے ہاتھوں قتل ہونے کے اعداد و شمار دیگر اقوام کی نسبت زیادہ ہیں۔ بہت سے کیسز میں خاندان کی دیگر خواتین بھی قتل میں معاونت کرتی ہیں۔
شاید اس ظلم کے پیچھے ایک مسخ شدہ خواہش کی کارفرمائی ہے کہ عورتوںکو ہر حال میں مردوں کا تابع فرمان ہونا پڑے گا۔ اس ''اصول‘‘ کو تسلیم بھی کیا جاتا ہے، اس کے نفاذ کے لیے ڈھائے جانے والے ستم سے اغماض برتا اور اس کا دفاع بھی کیا جاتا ہے۔ شرمین عبید چنائے کی آسکر ایوار ڈیافتہ ڈاکومنٹری ''دی گرل ان دی ریور‘‘ اس خوفناک حقیقت سے پردہ اٹھاتی ہے ۔ وہ باپ جس نے اپنی بیٹی کو کم و بیش ہلاک کر ہی دیا تھا، اپنی اس حرکت پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اب سماج میں اُس کا مرتبہ بلند ہوگیا ہے اور یہ کہ اُس کی دیگر بیٹیوں کے لیے بہت سے رشتے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ ڈاکو منٹری میں ظلم کا شکار ہونے والی لڑکی، صبا پر دبائو تھا کہ وہ عدالت میں اپنے باپ کے اقدام ِ قتل کو معاف کردے۔ وہ انٹرویو میں اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ چونکہ اس نے اسی معاشرے میں زندہ رہنا ہے، لہٰذا اگر اُس کا والد جیل چلا گیا تو اُس کے رشتے دار اور دیگر افراد اُس کا جینا دوبھر کردیںگے۔
ہمارے معاشرے کے یہ معاملات اسی طرح چلتے رہتے ہیں۔ اور اب یہاں قندیل بلوچ قتل کیس ہے، جس میں ریاست فریق بن گئی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ خون بہا کے عوض والدین ''قاتل‘‘کو معاف کردیں۔ تاہم اس کیس پر قانونی ماہرین منقسم رائے رکھتے ہیں۔ اگر اس کیس میں قتل کا اعتراف کرنے والا قاتل سزا پاتا ہے تو یہ ایک معجزہ ہی ہوگا کیونکہ عام طور پر ایسے کیسز میں مردوں کو آزاد کردیا جاتا ہے کیونکہ اُنھوں نے یہ سب کچھ اپنے خاندان کی عزت کے نام پر کیا ہوتا ہے۔ یقیناً خاندان کی عزت کا تحفظ کرنا قتل کا ایک طاقتور ''جواز‘‘ بن کر سامنے آتا ہے۔کیا یہی حقیقت ہے؟ مرد اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں کرتے ہیں، بے راہ روی کا شکار ہوتے ہیں، لیکن مجال ہے کبھی خاندان کی عزت پر کبھی حرف آیا ہو۔ وہ چوری کرسکتے ہیں، فراڈ کرسکتے ہیں، کم سن لڑکیوں کا ریپ کرسکتے ہیں، لیکن خاندان کی عزت ہے کہ پامال ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ تو پھر اس گوہر ِآبدار(خاندان کی نام نہاد عزت) کے تحفظ کی ذمہ داری صرف خواتین کے شانوں پر کیوں؟ مرد یہ بوجھ اٹھانے یا کم از کم ہاتھ بٹانے کے لیے کیوں تیار نہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک اُسی قدیم قبائلی تصورکی اجارہ داری ہے کہ عورتوں کو ہر حال میں کنٹرول کیا جائے۔ ذہنی افلاس اور پسماندگی کا شکار معاشروں میں ''عصمت‘‘ کو انتہائی سٹیٹس دیا جاتا ہے اوراگر کوئی شک بھی ہو جائے تو لڑکی کی شادی ناممکن ہو جاتی ہے۔مردوں کو البتہ سات خون معاف ہوتے ہیں۔
خاندان کی عزت کے ساتھ جائیداد میں سے حصہ دینے کا مسئلہ بھی اپنی جگہ پر موجود ہے۔ اگر ایک لڑکی اپنی پسند کے کسی آدمی سے شادی کرتی ہے اور اس شادی میں اس کے خاندان کی مرضی شامل نہیں ہوتی تو خاندان کو خدشہ ہوتا ہے کہ وہ آدمی بعد میں لڑکی کا جائیداد میں حصہ مانگ لے گا۔ اس کے علاوہ لڑکی کا باپ یا بھائی بھی خاندان کے سامنے اپنی بے عزتی محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنی بیٹی یا بہن کو کنٹرول نہیں کر سکے اور اُس نے اپنی مرضی سے شادی کر لی۔ ہندو معاشرے میں اونچی ذات اور نچلی ذات کے درمیان شادی کو سخت ناپسندکیا جاتا ہے۔ اس ''جرم ‘‘ میں ہر سال سیکڑوں افراد کو ہلاک کردیا جاتا ہے، لیکن قاتل کو بمشکل ہی سزا مل پاتی ہے۔ دیگر پسماندہ معاشروں میں بھی اسی قسم کی پابندیوں پر پوری قوت سے عمل کرایا جاتا ہے۔
تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہوری ممالک میں اس قسم کی قاتلانہ رسمیںکیوں جاری ہیں؟ آباد ی کے نصف حصے کو نام نہاد غیرت کے نام پرکیوں قتل کیا جاتا ہے، اخلاق کو آہنی بیڑیاں بنا کر اُنہیں پابند ِسلاسل کیوں کیا جاتا ہے؟ ہماری زیادہ تر عدالتوں میں خاندان کی عزت کے نام پر کیے گئے جرائم ججوں کے دلوں میں مجرم ، جس نے دوٹوک الفاظ میں قتل کا اعتراف کیا ہوتا ہے، ہمدردی کے جذبات ابھارے جاتے ہیں۔ ایسے کیسز میں ریاست کے قوانین اور انسانی حقوق کو اٹھا کر ایک طرف پھینک دیا جاتا ہے تاکہ مردوںکی نا م نہاد عزت پر حرف نہ آئے۔ جب تک جج صاحبان، پولیس اور معاشرے کے تمام طبقے اس نام نہاد عزت کی زنجیروں سے خود کو آزاد نہیں کرالیتے، ان کی عزت ہمیشہ خطرے میں رہے گی۔ قندیل بلوچ کے قتل پر آن لائن کمنٹس دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ ایسے افراد کی کمی نہیں جو قتل پر اُس کے بھائی کو مورد ِالزام نہیں ٹھہراتے۔ ان کے نزدیک ماڈل گرل کی سوشل میڈیا پر ''حرکتیں‘‘ سزا کو آواز دے رہی تھیں۔ یہ ہے وہ منافقانہ رویہ جو عزت کے نام پر قتل کرنے والوں کے لیے ہمدردی بٹورتا ہے۔
معاشرے میں مجموعی طور پر عزت اور سماجی قدروں کے نام پر عورتوں پر جبرکو روا سمجھا جاتا ہے۔ تاہم اپنی موت کے ساتھ قندیل ایساسٹیٹس حاصل کر چکی ہے جس نے ان کے بہت سے ناقدین کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔