تحریر : ڈاکٹر لال خان تاریخ اشاعت     23-07-2016

ترکی: ناکام فوجی بغاوت کے مضمرات … (1)

پچھلے ہفتے ترکی میں فوج کے ایک دھڑے کی جانب سے ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کو کارپوریٹ میڈیا میں اس طرح پیش کیا جا رہا ہے کہ اسے 'عوام‘ نے 'جمہوریت کے دفاع‘ میں سرکشی کرکے ناکام بنایا اور اردوان کی حکومت کو بچا لیا۔ سوموار تک اصل صورتحال کے بارے میں ابہام موجود تھا‘ باوجود اس کے کہ ترک حکومت اور پارلیمانی پارٹیاں‘ دونوں دعویٰ کر رہے تھے کہ حالات معمول پر آ گئے ہیں۔ واقعات کے اس انداز میں پیش کئے جانے کو پوری دنیا میں لوگوں کی اکثریت نے قبول کر لیا؛ تاہم اصل کہانی اتنی سادہ بھی نہیں ہے۔ 
فوجی بغاوت کے وقت سے بہت سی قیاس آرائیاں اور ابہام موجود ہیں اور مختلف مکتبہ ہائے فکر کے لوگ بہت سی سازشی تھیوریاں پیش کر رہے ہیں‘ اور کچھ تو یہ تک بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ فوجی بغاوت اردوان نے فوج کے باغی عناصر سے جان چھڑانے کے لیے خود کروائی۔ 17 جولائی کے گارڈین میں لکھا ہے، ''فوجی بغاوت کے منصوبہ ساز ابھی تک غیر واضح ہیں اور ہمیشہ کی طرح ترکی میں سازشی تھیوریاں بکثرت موجود ہیں۔ حکومت نے الزام امریکہ میں مقیم اسلامی سکالر فتح اللہ گولن پر لگایا ہے، جس پر اردوان نے دسمبر 2013ء میں ایک کرپشن سکینڈل کے ذریعے اس کی حکومت کا تختہ الٹنے کا الزام لگایا تھا۔ کچھ دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کام اردوان نے خود کیا ہے تاکہ فوج کو قطعی طور پر کچل کر اپنی کرسی کو مضبوط کرے۔ اس نظریے کی رو سے اپنے آپ کو ملک کی عوامی حکومت کا محافظ ثابت کرکے مستقبل کی آمرانہ حکومت کے لیے اردوان کے ہاتھ ایک ٹھوس جواز آ گیا ہے کیونکہ فوجی بغاوت اس کے حمایتیوں کے‘ اس کی آواز پر لبیک کہہ کر سڑکوں پر آنے کے بعد ناکام ہوئی‘‘۔
یہ بات درست ہے کہ چند ہزار لوگوں کو مختلف شہروں میں ٹیلی وژن سکرینوں پر سڑکوں پر دکھایا گیا لیکن وہاں قطعاً لاکھوں لوگ نہیں تھے جیسا کہ 2011ء میں عرب انقلاب کے دوران مصر، تیونس اور خطے کے دوسرے ملکوں میں ہوا تھا۔ یہ بات سچ ہے کہ اس ہجوم کی مداخلت اور رکاوٹ نے فوجی بغاوت کی کامیابی میں روڑے اٹکائے لیکن یہ ناکامی کی حتمی وجہ نہیں تھی۔ اس ہجوم کی اکثریت اردوان کے حمایتیوں کی تھی اور ترک سماج کی پسماندہ پرتوں میں اس کی کسی حد تک حمایت موجود ہے۔ بنیاد پرست صدر کے وفادار مذہبی رہنمائوں نے بھی پہلی دفعہ مسجدوں کے نیٹ ورک اور لائوڈ سپیکروں کے ذریعے عوام کو 'جہاد‘ کے لیے سڑکوں پر آنے کی تلقین کی‘ لیکن حتمی طور پر فوج کی بالائی پرت کے حاوی دھڑے نے اس بغاوت کو ناکام بنایا‘ جو اردوان کے حواری اور موجودہ حکومت کے شانہ بشانہ لوٹ مار اور بدعنوانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
لینن نے ایک دفعہ کہا تھا کہ کچھ مخصوص واقعات، بالخصوص پسماندہ سماجوں میں، انقلابات اور عوامی تحریکوں کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس طرح کی عوامی تحریکوں میں ترقی پسند رجحانات‘ رجعتی رجحانات کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ فوج کے متحارب دھڑوں کے درمیان جھڑپوں کے علاوہ استنبول اور دوسرے شہروں میں بھی فوجی بغاوت کے حمایتیوں اور مخالفین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں‘ لیکن ان واقعات کو بعض چینلوں میں معمولی کوریج دی گئی۔ اردوان کے حمایتیوں کی ریلیوں کے ساتھ ساتھ حکومت کے خلاف مظاہرے اور احتجاج بھی ہوئے جن پر آنسو گیس اور واٹر کینن کے ذریعے ریاستی حملے کیے گئے۔
لیکن بہت سے لوگ صرف اس فوجی بغاوت کی مخالفت میں باہر نکل آئے اور وہ قطعاً حکومت کی حمایت نہیں کر رہے تھے‘ جو دن بہ دن سیاسی، معاشی اور ثقافتی طور پر جابر ہوتی جا رہی ہے؛ تاہم فوجی بغاوت کی ناکامی کی زیادہ معقول وجہ ناقص منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ مسلح افواج میں موجود داخلی تضادات ہیں جو کافی عرصہ سے چل رہے تھے۔ یہ سابق نوآبادیاتی ممالک میں 1950ء، 60ء اور 70ء کی دہائی میں ہونے والی فوجی بغاوتوں سے زیادہ مماثلت رکھتی تھی؛ تاہم ناقص منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ کُو کرنے والے فوج کی 'چین آف کمانڈ‘ کو بھی توڑنے میں ناکام رہے۔ فوجی بغاوت کی وجوہ اور باغیوں کے اغراض و مقاصد مبہم ہیں۔ کئی سالوں سے ترکی میں اردوان کی کرپٹ اور جابر حکومت کے خلاف متواتر مظاہرے اور احتجاج ہو رہے تھے اور اردوعان انتہائی جابرانہ طریقے سے اپنے فیصلے لاگو کر رہا تھا۔ بورژوا میڈیا اردوان کی بنیاد پرستی اور ترک فوج کی سیکولر بنیادوں کے درمیان تضادات کی بات کر رہا ہے۔ درحقیقت یہ اس تنازعے کا ایک معمولی حصہ ہے۔ ترک فوج کی نام نہاد سیکولر روایات اور اردوان کی اسلامی بنیاد پرستی، دونوں رجحانات اِس نظام کے معاشی اور سیاسی بحرانات میں الجھے ہوئے ہیں‘ جو ایک صحت مند سرمایہ دارانہ سماج قائم کرنے میں ناکام ہو گیا ہے۔ حتیٰ کہ سماجی اور معاشی 'ترقی‘ درحقیقت سماجی تضادات کو مزید ہوا دے رہی ہے۔ ترقی کی اس غیر ہموار اور مشترک کیفیت نے سماج اور فوج میں نئے تضادات کو جنم دیا ہے۔
داعش اور دوسرے بنیاد پرست گروہوں کے بطور پراکسی استعمال میں ترک ریاست کے کردار، ترقی یافتہ یورپی معیشتوں کی نسبت اس کی پسماندگی اور ساتھ ہی سامراجی عزائم نے ریاست اور فوج کے مختلف دھڑوں کے اندر تضادات کو مزید شدید کر دیا ہے۔ نیو یارک پوسٹ کے ایک مضمون میں اس کیفیت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے، ''وزیر اعظم سے صدر بننے والا رجب طیب اردوان اب ایک آمر بن گیا ہے۔ وہ حماس، القاعدہ سے منسلک نصرہ فرنٹ‘ حتیٰ کہ داعش کی بھی حمایت کرتا ہے۔ کچھ حکومتوں کا خیال ہے کہ بنیاد پرست تنظیموں کی حمایت کم مدتی مقاصد پورے کر سکتی ہے لیکن طویل مدت میں اس کی بڑی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ پچھلے سال انقرہ اور استنبول میں ہونے والے دھماکوں نے اردوان کے ٹولے سے باہر کے لوگوں کو یہ باور کرا دیا ہے کہ ان کا وقت پورا ہو چکا ہے‘‘۔ فوجی حکمت عملی کے معاملات سے قطع نظر، اردوان کی جانب سے 'نان سٹیٹ ایکٹرز‘ کی حمایت، مالیاتی خورد برد، اقربا پروری، بدعنوانی اور لوٹ مار میں سے بعض ریاستی دھڑوں کو مطلوبہ حصہ نہ ملنا بھی بغاوت کی وجوہ ہو سکتی ہیں۔ 
داعش کی حمایت، کردوں کے خلاف وحشیانہ فوجی جارحیت، گرتی ہوئی معاشی شرح نمو، مہنگائی، معاشی عدم مساوات اور اردوان کا سلطنت عثمانیہ کے سلطان بننے کا خواب کم از کم سماج کی ترقی یافتہ پرتوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔ ٹریڈ یونینز پر جبر، احتجاجی مظاہروں کو وحشیانہ طریقے سے کچلنا اور ریاستی اختیارات کا بے دریغ استعمال اس بے چینی کی وجوہ ہیں جس کی سرایت فوج اور بالخصوص اس کی درمیانی اور نچلی پرتوں میں ہو چکی ہے۔ باغیوں کے مقاصد جو بھی ہوں ترکی میں، جہاں پہلے بھی چار فوجی بغاوتیں ہو چکی ہوں، ایک نئی جابر فوجی آمریت کی کوئی باشعور انسان حمایت کبھی بھی نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس طرح کی حکومت محروم و محکوم عوام کے مسائل حل کر سکتی ہے۔ لیکن فوجی بغاوت کی مذمت کرنا ایک بات ہے اور اردوان حکومت کو 'جمہوری‘ قرار دینا نہ صرف احمقانہ بلکہ مجرمانہ عمل ہے۔ میڈیا اردوان کو اس سارے عمل میں جمہوری ہیرو بنانے کی ناکام کرشش کر رہا ہے۔
چھٹیوں سے سیر سپاٹے کے بعد جب اردوعان استنبول پہنچا تو وہ خاصا مشتعل تھا اور انتقام لینے اور اپنی آمرانہ حکومت کو مزید مضبوط کرنے کی بات کر رہا تھا: ''ان کو اس کی قیمت چکانا ہو گی۔ یہ فوجی بغاوت خدا کی طرف سے ہمارے لیے ایک تحفہ ہے تاکہ ہم اپنی فوج کی تطہیر کر سکیں‘‘۔ اس سے پہلے عدالتی حکام نے بتایا کہ اس فوجی بغاوت کے بعد تین ہزار کے لگ بھگ ججوں کو برخاست کیا جائے گا۔ ایک وزیر نے کہا کہ فوجی جرنیلوں کو باغیوں نے یرغمال بنا لیا تھا۔ ہفتے کی شام تک بھی بعض جگہوں پر باغیوں کی کارروائیاں جاری تھیں‘ لیکن حکومت کا دعویٰ تھا کہ حالات قابو میں ہیں۔ تقریباً تین سو فوجی ہلاک اور اس سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ چھ ہزار سے زائد لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے‘ جن میں سپاہیوں سے لے کر اعلیٰ افسران تک سبھی شامل تھے۔
اردوان صرف فوج کی تطہیر نہیں کرے گا۔ ایک ریاستی فوج کی کس حد تک تطہیر ممکن ہے؟ اردوان کے اندرونی حلقے سے تعلق رکھنے والے چند افسران پر بھی بغاوت میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ یہ اس کے قریبی مشیر اور قابل اعتبار لوگ تھے۔ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ ان کی جگہ نئے تعینات ہونے والے فوجی افسران ہمیشہ کے لیے وفادار ہوں گے۔ فوجی بغاوت کو جنم دینے والی وجوہ اپنی جگہ موجود رہیں گی۔ یہ وجوہ ریاست اور نظام میں موجود ہیں جو ترکی میں زوال کی کیفیت میں ہے۔ فتح اللہ گولن، جسے اردوان اس فوجی بغاوت کا سرغنہ قرار دیتا ہے، ایک وقت میں اس کا قریبی اتحادی تھا۔ اب وہ اس کا شدید دشمن ہے؛ تاہم اردوان خود پچھلے چند سالوں میں انتہائی آمرانہ طرز عمل اختیار کر چکا ہے۔ اس نے اپنے حکومتی احباب، اپنے ہی تعینات کیے ہوئے اعلیٰ عہدیداروں‘ حتیٰ کہ اپنے وفاداروں کو بھی فارغ کر دیا۔ اپنی شخصی آمریت کو مضبوط کرنے کے لیے وہ اس ناکام فوجی بغاوت کو استعمال کرے گا۔ ترکی سے متعلق تجزیہ نگار انڈریوفنکل نے لکھا ہے، ''بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ ترکی پہلے سے ہی ایک سست رفتار بغاوت کی زد میں تھا، فوج کی قیادت میں نہیں بلکہ خود اردوان کی قیادت میں۔ پچھلے تین سالوں سے وہ ایک خاص طریقے سے طاقت کے سرچشموں پر قبضہ کر رہا تھا‘‘۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved