حضرت رئیس امروہوی
رئیس کے پہلو بہ پہلو مہدی حسن نے مجھے بھی سگریٹ پیش کیا تو میں نے اپنی توبہ توڑ دینے کو عیب نہیں‘ ہنر جانا‘ کیا میں اتنا بھی نہ کرتا‘ یہ گویا مہدی حسن کے لحنِ دائودی کے لیے ہدیہ تحسین تھا۔ زبان و بیان کی غلطیاں کس سے نہیں ہوئیں ‘کس سے نہیں ہوتیں‘ پکڑنے والوں نے غالبؔ تک کے کان اینٹھ لیے۔ رئیس کچھ زیادہ عروضی بھی نہیں ہیں۔ ایک خط اس سلسلے کا اے ڈی اظہر کا آیا جس میں بعض فنی خامیوں پر متنبہ کیا گیا تھا ‘ وہ خط میں نے رکھ لیا تھا لیکن حضرت نے کسی طرح کھسکا کر ضائع کر دیا۔ ایک فیتہ جس میں موجودہ دور کے شعرا خصوصاً جوشؔ وغیرہ پر تنقید اور اپنے عملی آدمی ہونے کی باتیں محفوظ کی گئی تھیں دبا لیا۔ وہ ایسے تُھڑ دلے اور ڈرپوک ہیں تو نہیں‘ بہرحال یہ تو ہر شخص چاہتا ہی ہے‘ خوبیاں زیادہ اور خرابیاں کم ہونی چاہئیں۔ رئیس قدامت پسند اور روایت آشنا ضرور ہیں‘ مزاج میں فارسیّت بھی ہے مگر غزل میں ان کا انداز منفرد ہے۔ تدبر‘ فکر اور تعقّل کی کارفرمائی زیادہ ہے۔ انہیں غالبؔ اور اقبالؔ کے پہلو بہ پہلو بٹھایا جا سکتا ہے۔ کہیں کہیں تو ان کا انداز بالکل جداگانہ ہے مثلاً ؎
جان لیوا سہی جراحتِ عشق
عقل کا زخم ہے بہت کاری
شاید اسے عشق بھی نہ سمجھے
جس کرب میں عقل مبتلا ہے
الف‘ پسِ غبار‘ حکایت نے ‘ انامن الحسین... یہ چار مجموعے غزل ‘نظم ‘مرثیہ پر چھپ چکے ہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اپنی گرہ سے چھپوا چکے ہیں۔ یہ سودا بھی رئیس کے لیے گھاٹے کا نہیں‘ سود مند ہی رہا۔ نام سبھی چھوٹے میاں جون ایلیا نے چُن چُن کر رکھے۔ ''الف‘‘ پر خاصی لے دے بھی ہوئی‘ ہمارے مولانا ماہر القادری تک یوں کہیے الف ہو گئے۔ یہ بھی کوئی نام ہے‘ اسے بدل دینا چاہیے‘ غلام ربانی عزیز‘ غلام جیلانی برق کے بھائی نے مجھے ایک خط میں لکھا: ''پڑھنا اور تنقید کرنا کیسا‘ میں تو کتاب کے نام سے بدک گیا تھا۔ غلام ربانی عزیز نے سچی بات اورکھری کھری لکھ دی‘ یہ بھی بڑی بات ہے‘ داد طلب ہے۔ خود بدولت کیا فرماتے ہیں، اسے بھی پڑھ لیا جائے۔ والدِ مرحوم بانیٔ اردو مبارک لائبریری سید مبارک شاہ جیلانی کے استفسار پر فرمایا بھی اورلکھا بھی ؎
جُز الف بیش نہیں صیقلِ آئینہ ہنوز
چاک کرتا ہوں میں جب سے کہ گریباں سمجھا
چاک گریباں کا الف اور صیقلِ آئینہ کا الف ‘ شعر کے مشہور کنایات ہیں‘ اس کے علاوہ الف اللہ کے ابجد کا‘ حروف مقطعات کا‘ ابد کا ‘ ازل کا‘ غرض الف ہی الف ہے۔ تصوف اور روحانیت میں الف گہرے اسرار و رموز کا حامل ہے۔
سلسلہ تصوف اور روحانیت میں رئیس کہاں کہاں تک پہنچتے ہیں‘ قطعہ ملاحظہ فرمائیے‘ غور طلب ضرور ہے:
بے قید تفکر و تامّل
اللہ رے وہ حقیقتِ کُل
توحید کے مرتبے میں جس کا
''اللہ‘‘ ہے درجۂِ تنزّل
کراچی میں آئے دن ادبی اجتماعات، کتابوں کی افتتاحی تقریبات، مشاعرے، مذاکرے‘کسی کے ساتھ شام‘ کسی کے لیے نشست کا اہتمام ہوتا رہتا ہے۔ ایک ہنگامہ رئیس کے لیے بھی کھڑا کیا گیا‘ عروس البلاد کے کم و بیش سبھی ادیب و شاعر جمع بھی ہوئے اور شخصیت اور فن پر مقالے بھی پڑھے گئے۔ یہ تقریب ''جشن رئیس امروہوی‘‘ کے عنوان سے ہوٹل انٹرکانٹی نینٹل میں برپا کی گئی۔ رئیس کو خراج تحسین پیش کر کے شہریوں نے اپنی ہی توقیر بڑھائی۔ رئیس تو اس سے بھی زیادہ کے مستحق اور حق دار ہیں‘ میں کراچی جاتے جاتے رہ گیا‘ اپنی محرومی کی تلافی میں نے اس موقع پر پہنائی جانے والی دستارِ دانش پر قبضہ کر کے کر لی تھی۔ دستارِ دانش کی حفاظت مجھ پر اور میری اولاد پر فرض ہے‘ بتقاضائے محبت و عقیدت۔
رئیس امروہوی شیعہ ہیں‘ سنّی ہیں‘ سادات امروہہ ویسے ہیں تو سبھی حسینی‘ حتمی فیصلہ وہ خود کریں گے‘ ہم نے تو کالوں گوروں پر یکساں برستے ہوئے دیکھا ہے‘ محرم کی تقریباتِ مجالس و ماتم کے آداب خشوع و خضوع سے بجا لاتے ہیں‘ مرثیہ پڑھتے ہوئے میں نے نہیں دیکھا‘ شاید برسرِ مجلس پڑھتے ہی نہیں‘ دلسوزی سے سنتے ضرور ہیں اور لکھ لکھ کے چھپواتے بھی ہیں‘ حاضری کا بلاوا ہو تو ٹالتے نہیں۔ پٹیل پارک میں امروہہ کے سیدوں کی مجلس ضرور برپا ہوتی ہے‘ یہ سوز خواں اچھا ہے‘ وہ برا تھا‘ اسے کیوں موقع دیا گیا‘ اس قسم کی بحثوں میں بھی پڑا کرتے ہیں۔ عید میلاد النبیؐ کے جلسوں میں تو شریک بھی ہو جاتے ہیں لیکن جلوس صرف محرم کا ان کو گھر سے سڑک پر لے آتا ہے۔ نماز کے پابند پہلے کبھی ممکن ہے رہے ہوں‘ میں نے تو عید کی نماز پر جاتے ہوئے بھی نہیں دیکھا۔ روزے وہ غالباً بحالیٔ صحت کے لیے بطور فاقہ کے دو چار کہیں رکھ لیا کرتے تھے‘اب وہ بھی نہیں۔
امروہہ کا ذکر مسلسل تاریخوں میں چلا آتا ہے۔ سید محمد تقی معتبر راوی ہیں‘ اپنے تازہ سفر نامۂ بھارت میں لکھتے ہیں‘ امروہہ ڈھائی ہزار سال پرانی بستی ہے اور کوئی آٹھ سو سال سے مسلمان اس شہر میں آباد ہونا شروع ہوئے‘ اب سے پچاس سال پہلے اس کی آبادی چالیس ہزار کے قریب تھی۔ یہ شہر ہندو اور مسلمان زمینداروں‘ پیشہ وروں‘ چھوٹے تاجروں اور ناہنر مند مزدوروں پر مشتمل تھا جو زمیندار خاندانوں سے معاشی وابستگی رکھتے تھے۔ دولت کے ساتھ تہذیب و شرافت اور علم و دانش بھی بڑی حد تک زمیندار خاندانوں میں محدود تھی۔ مکانات چھوٹی اینٹ یا چوکے کے ہوتے تھے جن پر پلاسٹر شاذ و نادر ہی ہوتا تھا۔ غرباء اور پسماندہ طبقے جھونپڑیوں میں رہتے تھے اور پسماندگان میں بھنگی اور چمار سماجی درجے میں سب سے نیچے آتے تھے‘ ان کی معاشی حالت بھی سب ہی سے خراب تھی‘ ذی مقدرت لوگوں کے زنانہ اور مردانہ مکانات الگ الگ تھے‘ مردانہ مکانوں کو دیوان خانے کہا جاتا اور زنانہ حصے کا نام حویلی تھا۔ شہر محلوں میں منقسم تھا‘ بہت سے محلّوں میں امام باڑے اور مندر بنے ہوئے تھے‘ سڑکیں زیادہ تر آٹھ فٹ چوڑی اور کم چودہ یا سولہ فٹ کی تھیں۔ مکان عام طور پر ایک منزلہ اور کم دو منزلہ تھے‘ دکانیں چھوٹی اور تعداد میں بہت کم تھیں‘ سڑکوں پر ٹریفک کا دبائو بھی بہت کم تھا‘ پتھرکوٹ کر سڑکیں بنائی جاتی تھیں یا بعض چوکے کی بنی
ہوتیں‘ ٹم ٹم‘ تانگے اور بیل گاڑیاں سواری کے لیے استعمال ہوتیں‘ زمیندار خاندانوں کی خواتین ڈولیوں یا تانگوں میں جن کی نشستیں چادروں سے ڈھانک دی جاتیں۔ ایک محلے بلکہ بعض حالات میں ایک گھر سے دوسرے گھر تک پردے کا پورا اہتمام کر کے جاتیں‘ مُغلانیاں زمیندار لڑکیوں کو اور مولوی صاحب یا پنڈت جی لڑکوں کو تعلیم دیتے تھے‘ بہت سے ٹیوٹر زمینداروں کے دیوان خانوں میں قیام کرتے‘ انگریزی تعلیم کم پھیلی تھی‘ زمیندار طبقے نے سب سے پہلے انگریزی پر توجہ کی‘ امروہے میں ایک گورنمنٹ ہائی سکول اور دوسرا سادات کا ہائی سکول امام المدارس تھا‘ عربی کے چار مدرسے تھے۔ رئیس امروہوی فرماتے ہیں امروہہ مراد آباد کے ضلع میں ایک قصبہ ہے‘ دلّی سے جانب مشرق 80 میل اور لکھنؤ سے جانب مغرب دو سو میل‘ اس کے شمال میں سلسلہ کوہستان ہمالیہ ہے۔ مشہورِ عالم سیاح ابن بطوطہ نے اس طرح ذکر کیا ہے :ھیی بلدۃ حیفتہ صغیرہ‘ یہ ایک چھوٹا سا خوبصورت شہر ہے۔ تو جناب‘ امروہہ بڑا مردم خیز خطہ ہے‘ رئیس یہیں پیدا ہوئے‘ پلے بڑھے، امام المدارس میں تعلیم حاصل کی‘ منشی فاضل وغیرہ کا امتحان لاہور جا کر دیا‘ وہاں اقبال سے بھی ملے‘ گفتگو بھول بھال گئے کیا ہوئی تھی۔ سید محمد تقی ‘ سید محمد عباس‘ جون ایلیا‘ رئیس امروہوی چاروں بھائی عنفوانِ شباب ہی میں اپنے قصبے کی جان تھے‘ محلے کے بچوں کی سنیے ‘ کہتے ہیں:
اچھن بچھن چھبن جون ...ان چاروں میں اچھا کون ...جون جون جون...
آج کا مطلع
فتور اگرچہ تمنّا کا سر میں اتنا ہے
غزل کہے کوئی کیا‘ شور گھر میں اتنا ہے