پیپلز پارٹی اور اس کے اصل سربراہ آصف علی زرداری کے معتمد ترجمان فرحت اﷲ بابر اور شیری رحمان نے چند دن قبل اچانک ایک ایسا اخباری بیان جاری کیا جس کی سمجھ صرف ان لوگوں کو آ رہی ہے جو کچھ سمجھ رکھتے ہیں یا جن کو مخاطب کرتے ہوئے یہ جاری کیا گیا۔ مناسب تو یہ تھا کہ یہ بیان پارٹی کے کسی اہم رکن کی جانب سے آتا،لیکن شاید میثاق جمہوریت کے مجاوروں نے پس پردہ فیصلہ کیا ہوگا کہ یہ بیان اگر وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کیا گیا تو ایک صفحے ہونے والے حالات پہلے سے بھی زیادہ سنگین ہوجائیںگے اور اس طرح برادر خورد کی آرمی چیف سے بار بارکی ملاقاتوں سے برف پگھلنے کے امکانات دوبارہ رک سکتے ہیں، اس لئے ''اتحادیوں‘‘ کو ذمہ داری دے دی گئی کہ یہ تیر اندازی ان کی جانب سے کی جائے کیونکہ یہ کام کسی ایرے غیرے سے نہیں بلکہ ان کی جانب سے ہونا چاہیے جن کے گلے میں آصف علی زرداری بولتے ہیں۔ سو، اس کے لئے محترمہ شیری رحمان اور فرحت اﷲ بابر کو آگے بڑھ کر حملہ کرنے کا حکم صادر کر دیا گیا اور انہوں نے یہ بیان داغ دیا۔ محترمہ شیری رحمان اور فرحت اﷲ بابر سے بہتر کون جانتا ہے کہ خارجہ پالیسی کے خد و خال سول حکومت کی جناب سے طے کیے جاتے ہیں اور اس میں واشنگٹن ، ماسکو اور نئی دہلی کی طرح ملک کے دفاعی اداروں سے مشورہ ضرور کیا جاتا ہے کیونکہ کسی بھی ملک کے لئے اندرونی اور خارجہ پالیسیاں ملک کی دفاعی صورت حال کے مطا بق ہی طے کی جاتی ہیں۔
یہ الزام نیا نہیں۔ ہمارے ملک کا مخصوص ''میڈیا گروپ‘‘ جو بھارت اور مودی کے خلاف ہلکی سی بات سننے پر بھی سیخ پا ہو کر جمہوریت بچائوکے نعرے لگانا شروع کر دیتا ہے، اس کی جانب سے بھی یہ الزام کئی برسوں سے داغا جا رہا ہے۔ اس الزام میں کتنی صداقت ہے؟ اس کی حقیقت کچھ ایسے ہے کہ ریپبلکن پارٹی کے انتہائی اہم سینیٹر جان مکین نے چند روز قبل پاکستان کا غیر معمولی دورہ کیا۔ ان کی رائے کو امریکی پالیسیوں میں بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ ان کے پاکستان آنے کی خبروں کے ساتھ ہی یہ تاثر ملنا شروع ہو گیا کہ وہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات میں پی پی پی اور مسلم لیگ ن کی قیادتوں کے بارے میں نرم رویہ رکھنے پر زور دیںگے۔ جنرل راحیل شریف سے ملاقات کے بعد جان مکین نے امریکی اور پاکستانی فوجی حکام کے ہمراہ فاٹا اور وزیرستان کا دورہ کیا اور وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وزیرستان کے مشکل ترین علاقوں میں پاک فوج نے دہشت گردوں کا مکمل صفایا کر دیا ہے۔ خاص طور پر شوال جیسے علا قے میں پاکستان کاجھنڈا لہرانا نا قابل یقین حقیقت معلوم ہوتی تھی۔ اعلیٰ فوجی حکام کی جانب سے بریفنگ میں جب انہیں بتایا گیا کہ شوال اور وزیرستان آپریشن میں اب تک پاکستانی فوج کے5800 سے زیادہ افسر اور جوانوں کے علاوہ 70000 کے قریب پاکستانی شہری دہشت گردوںکے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں تو وہ ہکا بکا رہ گئے۔ انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ پاکستان اب تک اس قدر قربانیاں دے چکا ہے۔ اس موقع پر امریکی سینیٹر نے ملکی اور غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، میرے لیے یہ نئی خبر ہے، اس سے پہلے مجھے علم نہیں تھا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف اس قدر قربانیاں دے چکا ہے۔ انصاف سے سوچیے، یہ کس کا قصور ہے؟ یہ آئی ایس پی آر کی ذمہ داری تھی یا سول حکومت کی دو اہم اور متعلقہ وزارتوں خارجہ و اطلاعات کا فرض منصبی تھا؟ پیپلز پارٹی اپنے پانچ سالہ دور اور نواز لیگ تین سال میں اتنا سا کام بھی نہیں کر سکی۔
یہ ہماری خارجہ پالیسی کی نا اہلی ہے یا پھر امریکہ میں پاکستان سفارتی خانے کی، جہاں پریس قونصلر بھی ہے اور پریس اتاشی بھی۔ ہتھ جوڑی کرنے والوں کی جانب سے اگر شیری رحمان اور سینیٹر فرحت اﷲ بابر کی یہ بات مان بھی لی جائے کہ خارجہ امور پر فوج کا نہیں بلکہ سویلین کنٹرول ہو نا چاہیے تو پھر ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر خارجہ پالیسی پر فوجی کنٹرول ہوتا تو کیا سینیٹر جان مکین پاکستان کے فوجی اور سویلین نقصان سے اس طرح بے خبر ہوتے؟ فوج تو کوئی کام کرنے کا ارادہ ہی کرتی ہے کہ آپ کے انتہائی باخبر ادارے اپنے کسی نہ کسی مہرے کو اس کے خلاف کھڑا کر دیتے ہیں جیسے ابھی حال ہی میں ہیومن رائٹس کی ''چیمپئن‘‘ عاصمہ جہانگیر کو سپریم کورٹ میں سامنے لایا گیا کہ فوج اپنی تشہیر کے لئے فلمیں اور ڈرامے کیوں بناتی ہے؟ کیا ہماری وزارت اطلاعات کا کام صرف عمران خان کے خلاف بیان داغنا ہی رہ گیا ہے؟ ہر وقت عمران خان کو رگیدنے کی بجائے کیا یہ بہتر نہیںکہ وہ دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف اپنی فوج اور عوام کی قربانیوں کو اجا گر کرے۔
فوج کے تعاون سے بنائی گئی فلم ''خدا کے لئے‘‘ کو دنیا بھر میں جس قدر پسند کیا گیا کیا وہ کسی ترقی پسند اور لبرل سے پوشیدہ ہے؟ اس میں دہشت گردی کے خلاف جو پیغام دیا گیاکیا اس نے دنیا بھر میں کروڑوں لوگوںکو پاکستان کے بارے میں اپنا نقطہ نظر ہمدردانہ کرنے پر مجبور نہیں کیا؟ کیا اس سے نو جوان نسل نے القاعدہ کے ترتیب دیے گئے فریب اور جھوٹ کے پردے چاک نہیں کیے؟ کیا اس نے طالبان اور فرقہ وارانہ تنظیموں کی دہشت گردی کو دین اسلام کا سب سے بڑا دشمن ثابت نہیں کیا؟ تو کیا پھر یہ الزام لگانا کچھ عجیب نہیں لگتا کہ فوج کا ادارہ فلمیں، ڈرامے کیوں بناتا ہے؟ اگر عاصمہ جہانگیرکو فوج کی جانب سے بنائی جانے والی فلموں اور ڈراموں پر اتنا ہی دکھ اور تکلیف ہے تو انہیں بھارتی فوج کے شعبہ اطلاعات کی جانب سے بنائی جانے والی فلموں اور بالی وڈ کی تیارکردہ دو درجن سے زائد فلمیں دیکھ کر بتانا چاہیے کہ یہ فلمیں خصوصی ہدایات کے تحت ہندوستان بھر کی چھائونیوں میں فوجی
جوانوں کوکیوں دکھائی جاتی ہیں تاکہ ان میں پاکستان کے خلاف نفرت بڑھائی اور مورال بلند کیا جائے۔ ابھی چند دن پہلے بھارت کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے خصوصی اشتراک سے ایک فلم بنائی گئی جس میں شہریوں کو بتایا گیا ہے کہ وہ جو درخت لگائیںگے اس سے ان کی سینا کو فوجی مشقوں اور جنگوں کے دوران دشمن کے جاسوسوں اور دشمن کے حملوں سے بچنے میں مدد ملے گی۔کیا عاصمہ جہانگیر بھارت کی سپریم کورٹ سے یہ پوچھنے کی کوشش کریں گی کہ اس فلم کے اخراجات کس نے ادا کیے؟ کشمیر میں صرف ایک ہفتے میں درجنوں کشمیری بھارتی فوج کی جانب سے استعمال کی جانے والی پیلٹ گنوں کی فائرنگ سے اپنی بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔
برہان مظفر وانی اور اس کے دو ساتھیوں کو قتل کرنے کے بعد ان کے جسموں کو خنجروں سے چیتھڑوں میں تبدیل کرنے کے بعد ان کی لاشوں کو کئی میل تک جیپوں کے پیچھے باندھ کر سڑکوں پر گھسیٹتے ہوئے مردہ خانے لا پھینکا گیا۔ اور بربریت کی انتہا دیکھیے کہ لاشوںکو جیپوںکے پیچھے گھسیٹنے کی باقاعدہ فلمیں بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئیں۔ یہ فلمیں دیکھ کرمیرے جیسے پاکستانی خوف سے نہیں بلکہ بھارتی درندوں کے خلاف نفرت سے جلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ خدا جانے ہمارا وزیر اعظم سفاک اور قاتل نریندر مودی کے پیار بھرے فون کس طرح سن لیتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کو آئی ایس پی آر کے نام نہاد ایف ایم ریڈیو تو یاد آ جاتے ہیں لیکن ملا فضل اﷲ کے سوات میں اور تحریک طالبان پاکستان کے جنوبی وزیرستان کے ریڈیوکیوں یاد نہیں آتے؟