میں ایک عرصے سے مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان کے چیئرمین کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہا ہوں ۔میں نے اس منصب کے لیے نہ کوئی درخواست دی تھی اور نہ ہی کسی کے آگے اس خواہش کا اظہار کیا تھا ،تاہم جب یہ ذمے داری مجھے تفویض کردی گئی تو میں اپنی اہلیت وصلاحیت کے مطابق دیانت داری سے اس فریضے کو انجام دیتا رہا ہوں ۔میں ایک سے زائد مرتبہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر یہ واضح کرچکا ہوں کہ اس منصب کے عوض مجھے کوئی مشاہرہ یااعزازیہ نہیں ملتا۔لیکن اس کے باوجود آئے دن کوئی نہ کوئی شخص کالم میں یا اسٹوڈیوز میں بیٹھ کر بڑہانکتا رہتا ہے کہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی پر قومی خزانے سے بے انتہا پیسہ خرچ ہوتا ہے،اس جھوٹ کا بھی ہمارے پاس کوئی علاج نہیں ہے ۔
میڈیا کے تمام حدود وقیود سے آزاد ہونے کے بعد بہت سے کالم نگاروںاور اینکرپرسنز نے از خود اپنے آپ کو ملک وملت ، قوم اور دین کے لیے مُصلِحِ اعظم بنالیا ہے اور حقِ خود اختیاری کے طور پراس منصب پر فائز ہوگئے ہیں ۔اسٹوڈیوز میں بیٹھ کر جس پر چاہیں الفاظ کی چاندماری کریں ،اگر آپ مظلوم ہیں تو آپ کے لیے کوئی جائے فریاد نہیں ہے ،عدالتیں بھی اس معاملے میں بے بس ہیں ۔ہم نے بہت سے نامور لوگوں کے بیانات پڑھے کہ انہوں نے ازالۂ حیثیتِ عرفی کے لیے عدالت سے رجوع کیا اور اپنی عزت کی پامالی کے عوض کروڑہا یا اربوں روپے معاوضے کا قانونی نوٹس بھیجا ،کچھ نے عدالتوں کے چکر بھی لگائے ،لیکن حاصل کچھ نہ ہوا۔یہ تو وہ لوگ تھے جو بڑی بڑی قانونی فیسیں ادا کرنے کے قابل تھے یا ماہر وکلا کی مفت قانونی مدد انہیں حاصل تھی، ہم جیسے فقیر تو یہ علامتی اقدام بھی نہیں کرسکتے، البتہ غالب کے الفاظ میں یہی فریاد کرسکتے ہیں: ؎
حد چاہیے سزا میں ،عقوبت کے واسطے
آخر گناہ گار ہوں ،کافر نہیں ہوں میں
سوال یہ ہے کہ آپ بھی تو معصوم عن الخطا نہیں ہیں، آپ کی اصلاح کون کرے گا یا آپ کا ڈسا ہوا آپ کے زہر کا تریاق تلاش کرنے عراق کیسے جائے گا۔بعض حضرات کہتے ہیں کہ اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے آجائو ،ہمارے صفحات یا ہمارا اسٹوڈیو حاضر ہے، لیکن جسے ذلت سے لطف اندوز ہونا ہو ،وہ تو ہوچکا ، اب بار بار اس تجربے سے گزرنے کا کیا فائدہ ، کیونکہ ڈرائیونگ سیٹ پر آپ ہیں،مائیک یا قلم آپ کے پاس ہے تو کیسی فریاد اور کیسی داد؟۔
انتہا یہ ہے کہ بعض دوستوں نے بتایا کہ سندھ کی صوبائی حکومت کے مشیرِ مذہبی امور ڈاکٹر عبدالقیوم سومرو نے کسی چینل پر کہا : '' مفتی منیب الرحمن حکومت کا تنخواہ دار ملازم ہے ،اسے یہ انداز اختیار نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ سومرو صاحب کو اس غلط بیانی کا استحقاق کہاں سے حاصل ہوا اور مجھے کون سے سرکاری شعبے سے تنخواہ دی جارہی ہے،جولیس سیزر کا یہ جملہ ان کے پیشِ خدمت ہے:''بروٹس یو ٹو ‘‘۔
کوئی شخص اپنے مزاج کے خلاف اگر کبھی کوئی بات کرتا ہے یا رویہ اختیار کرتا ہے ،تو اس کا کوئی سیاق وسباق ہوتا ہے ، متعلقہ شخص سے حقیقتِ حال معلوم کرلینی چاہیے۔رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کوئی صاحبِ'' خُلُقِ عظیم‘‘ نہ کوئی تھا، نہ ہے اور نہ ہوگااوراس کی سند آپ کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے۔لیکن اس کے باوجود آپ کی حیاتِ مبارکہ میں ایسے لمحات آئے کہ آپ نے شدید غضب فرمایا ، حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں:''ہم تقدیر پر بحث کر رہے تھے ، رسول اللہ ﷺ اس پر غضب ناک ہوئے ،یہاں تک کہ آپ کا چہرۂ مبارک سرخ ہوگیا اور ہمیں ایسا لگا کہ آپ کے رخسارانِ مبارک پر گویا انار نچوڑ دیا گیا ہواور آپ ﷺ نے فرمایا: کیامجھے تمہاری طرف اس لیے مبعوث کیا گیا ہے کہ اس طرح کی بحثیں کرو؟،(سنن ترمذی: 2133)‘‘۔ماضی میں جب وفاقی اور صوبائی وزراء رؤیت ہلال کے تنازعے میں فریق بن کر آئے ،تو میں نے میڈیا پر آکر اُن کا سامنا کیا اور یہ میرے منصب کا تقاضا تھا ۔اس کے بعد گزشتہ کئی سالوں سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے دوستوں کی خواہش کے باوجود میں اس تنازعے میں نہیں الجھا اور نہ اس کی ضرورت محسوس کی ، قوم کے ذی شعور لوگوں کو حقیقتِ حال معلوم ہے۔
کچھ عرصہ پہلے سینیٹ میں جنابِ فرحت اللہ بابر نے زور شور سے مجھے اپنی تنقید اور توجہات کا ہدف بنایا۔ وزیرِ مملکت برائے مذہبی امور جنابِ پیر امین الحسنات شاہ نے ان کو مدلّل جواب دیا اور بتایا کہ ہماری حکومت کے کئی سال گزرنے کے باوجود تاحال جنابِ سید خورشید شاہ کے نامزد کیے ہوئے ممبران کی رکنیت جاری وساری ہے ،جن میں سے اکثریت کا تعلق اندرونِ سندھ سے ہے۔ تمام مسالک کے علماء کو کسی ایک بات پر متفق کرنا آسان کام نہیں ہے،اس کے باوجود ہمارے سارے فیصلے اتفاقِ رائے سے ہوتے ہیں۔ اس سال رمضان المبارک کے چاند کی رؤیت کا اعلان کرتے ہوئے میں نے بتایا تھا :''مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان میں ایک بھی ممبر میری منظوری یا سفارش سے شامل نہیں کیا گیا اور نہ ہی مجھے تقرّر سے پہلے کوئی اطلاع دی گئی۔ اس کے باوجود میں سب کے ساتھ اتفاق رائے سے چل رہا ہوں ‘‘،تو حضور والا!یہ پلِ صراط ہے ،بازیچۂ اطفال نہیں ہے، غالب نے کہا ہے: ؎
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزؤ میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدہ بینا نہ ہوا
میرا سوال ہے کہ جنابِ سینیٹر فرحت اللہ بابر پانچ سال ایوانِ صدر میں رہے اور اس وقت کے صدر جنابِ آصف علی زرداری کے مقرّبین خاص میں شامل رہے ،تو اس وقت انہیں یہ خیال کیوں نہ آیا ؟۔پاکستان میں سب سے بڑی دینی قوت دینی مدارس وجامعات کی پانچ تنظیمات کا الائنس،اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان ہے، میں تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان کا صدر ہونے کے علاوہ اس اتحاد کا بھی سیکرٹری جنرل ہوں ،تو کیا ان حضرات کی دیدۂ بینا کے لیے اتنا ثبوت کافی نہیں ہے کہ پاکستان میں موجود مختلف مسالک کے منتخب اکابر مجھ پر اعتماد کرتے ہیں اور یہ بات میں کسی عُجب واستکبار کی بنا پر نہیں ،بلکہ انتہائی عَجز وانکسار، تحدیثِ نعمت اورحقیقتِ واقعہ کے طور پربیان کررہا ہوں ۔یہ حقیقت عالمی سطح پر بھی سب کو معلوم ہے اور جن عالمی قوتوں کے سر پر مدارس کا جِن سوار ہے اور وہ ان کی اصلاح کے درپے رہتے ہیں،وہ بھی ہم ہی سے رابطہ کرتے ہیں ۔
رمضان المبارک ،شوال المکرم ،ذوالحجہ اور محرم الحرام کے اَہِلَّہ (New Moons) چونکہ حسّاس ہوتے ہیں ، اس لیے میں تمام ٹیلی ویژن چینلز سے اپیل کرتا ہوں کہ لِلّٰہ! کوئی غیر مصدّقہ اور عبوری خبر نہ دیں اور ٹِکر نہ چلائیں ،جب بھی مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان اتفاقِ رائے سے حتمی فیصلہ کرے گی ،تو ایک ہی وقت میں میڈیا کے سامنے اعلان کیا جائے گا ۔اگر غیر مصدَّقہ خبروں پر ٹِکر چلائے جائیں کہ اتنے آدمیوں نے چاند دیکھ لیا اور بعد میں فیصلہ عدمِ رؤیت کا ہو ا تو یہی میڈیا تبصر ے کرے گا کہ شہادتوں کو قبول نہیں کیا گیا ۔اکثر پاکستانیوں کے پاس ایک یا ایک سے زائد موبائل فون موجود ہیں اور لوگ شرارتاً یا شوقیہ بھی فون کرسکتے ہیں ۔ لہٰذا ہماری ذمے داری ہوتی ہے کہ یہ شہادتیں علماء اور ماہرین کی موجودگی میں بند کمرے میں لی جائیں ۔پہلے یہ بات طے کرنی ہوتی ہے کہ آیا ٹیلی فون کرنے والا ذمے دار آدمی ہے اور اس کی شناخت معلوم ہے ،پھر دیکھا جاتا ہے کہ فنی اعتبار سے اس کی شہادت درست ہے اور پھر قریب ترین زونل کمیٹی یا کسی عالم کے پاس بھیج کر شرعی اعتبار سے اطمینان کیا جاتا ہے ۔ان مراحل سے اطمینان بخش طریقے سے گزرنے کے بعد حتمی فیصلہ کیا جاتا ہے ،کیونکہ یہ کروڑوں مسلمانوں کے روزے کی عبادت کا مسئلہ ہے، اگر یہ محض ایک تہوار ہوتا تو دیگر قومی تہواروں کی طرح پارلیمنٹ اس کو بھی طے کرلیتی۔
کراچی میں محکمۂ موسمیات کے تعاون سے ہم فول پروف انتظامات کرتے ہیں اور اس کے لیے میں ہمیشہ محکمہ موسمیات کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔اس سال وفاقی وزارتِ مذہبی امور نے لاہور میں مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان کا اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کی ذمے داری صوبۂ پنجاب کے اوقاف و مذہبی امور کے اعلیٰ ذمے داران کو تفویض کی ۔میں نے تین دن پہلے ان کو سارا فارمیٹ بتایا کہ :(1)حتمی اعلان کے لیے کامن روم بڑے سائز کا ہونا چاہیے ،جہاں میڈیا کے لیے تمام سہولتیں دستیاب ہوں۔ (2)مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان اور زونل کمیٹی لاہور کے ممبران پر مشتمل اجلاس کے لیے بڑا کمرا ہونا چاہیے ، جہاں میڈیا کی رسائی نہ ہو۔(3) شہادتوں کے وصول کرنے اور جانچنے کے لیے الگ کمراہو اور وہاں بھی میڈیا کی رسائی نہ ہو اور یہ بھی تاکید کی کہ کوئی بھی خبر حتمی فیصلے سے پہلے میڈیا کو نہ دی جائے ۔ہم اجلاس میں بیٹھے تھے کہ محکمۂ اوقاف کے ذرائع سے ٹیلی ویژن چینل پر ٹِکر چلنے شروع ہوئے کہ دو شہادتیں آگئیں وغیرہ۔میں نے اوقاف کے سیکرٹری اور ڈائریکٹر جنرل سے پوچھا کہ یہ خبریں کون دے رہا ہے؟،انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے ہاں سے کوئی نہیں دے رہااور کوئی خبر لیک نہیں ہورہی ۔ میں مجبوراً شہادتیں وصول کرنے کے کمرے میں گیا اور ان سے پوچھا کہ آپ کے درمیان کوئی خبر تو لیک نہیں کر رہا،انہوں نے جواب دیا : ہرگز نہیں۔ پھر میں میڈیا کے پاس گیا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا واسطہ دے کر کہاکہ لِلّٰہ! اس طرح کی خبریں چلانا بند کردیں ، یہ کروڑوں مسلمانوں کی عبادت کا مسئلہ ہے۔ اتنے میں میری نظر محکمہ اوقاف کے ایک اہل کارپرپڑی جو میڈیا کے سامنے ٹیبل پر ٹیلی فون لیے بیٹھا تھا اورغیر مصدّقہ خبریں وصول کرکے میڈیا کو فراہم کر رہا تھا ،تو میرے پاس ٹیلی فون کاتارنکالنے کے سوا کوئی چارۂ کارنہ تھا ، اتنی تاکیدات کے بعد بے احتیاطی پر غصہ آنا فطری بات ہے ،سو اس حقیقت کو فسانہ بناکر داستانیں تخلیق کرنا کونسا ذمے دارانہ فعل ہے ؟۔
پسِ نوشت:ایبٹ آباد میں پاکستان کرکٹ کی ٹیم کے ٹرینرکرنل صاحب سے ملاقات ہوئی، انہوں نے بتایا: سینئر کھلاڑیوں یونس خان اور مصباح الحق کی فٹنس نوعمر کھلاڑیوں کے مقابلے میں بہتر تھی۔