تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     24-07-2016

ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا بیان پڑھ کر حیرت نہیں ہوئی‘ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا کا محاورہ یاد آیا۔
گلگت بلتستان ‘ آزاد کشمیر اور بلوچستان میں عموماً اس جماعت کو ووٹ پڑتے ہیں ‘ تخت اسلام آباد جس کی دسترس میں ہو۔ ایک بار میاں نواز شریف کے ہاں مقبوضہ کشمیر کے رہنما غلام نبی بھٹ سے ملاقات ہوئی تو کسی نے پوچھا: ''ایک طرف کشمیری عوام بھارت سے آزادی مانگتے دوسری طرف انتخابات میں حصہ لیتے ہیں، یہ تضاد ہے؟‘‘ بھٹ صاحب نے کہا: ''کشمیریوں نے جینا سیکھ لیا ہے، جیل میں بند قیدی کی طرح جوچھٹکارا چاہتا ہے مگر جب تک آزادی سے محروم ہے جیل میں سکھ چین سے رہنے کا خواہش مند بھی ہوتا ہے، لہٰذا وہ جیلر کے احکامات کی پابندی کرتا ہے‘‘۔ آزاد کشمیر ہی نہیں پورے ملک کے عوام کا یہی معاملہ ہے، وہ اس کرپٹ، انسانیت سوز اور بے حیا سیاسی‘ انتخابی‘ معاشی اور سماجی ڈھانچے سے چھٹکارا چاہتے ہیں، جس نے ان کی زندگی اجیرن کر دی ہے اور ان کے بچوں کا مستقبل مخدوش‘ مگر زندہ رہنے کے لیے اس نظام سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہیں، پنجرے میں بند طوطے کی طرح کہ اسے چُوری ملتی رہے۔ کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام پنجاب اور سندھ کے بھائی بندوں سے زیادہ مجبور اور بے بس ہیں اور ان کا تمام تر انحصار وفاق پر ہے، لہٰذا وہ وفاقی حکومت کے چہیتے اور نامزد افراد کو ووٹ ڈال کر گزارا کرتے ہیں۔ اگر بلاول بھٹو اور عمران خان کو اس کا احساس نہیں اور وہ محض نعرہ بازی کے ذریعے اپنی حکومت بنانے کا خواب دیکھتے رہے تو غلطی ان کی ہے عوام کی نہیں۔
تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کو آزاد کشمیر میں جس ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا اس کا واحد سبب مگر یہ نہیں۔ مسلم کانفرنس کو اندرونی انتشار لے ڈوبا۔ سردار سکندر حیات ‘ راجہ فاروق حیدر‘ شاہ غلام قادر جیسے اہم رہنمائوں کی علیحدگی اور مجاہد اوّل سردار عبدالقیوم خان کی وفات کے بعد سردار عتیق احمد خان اس قدیمی جماعت کو سنبھال نہ سکے اور یہ تین نشستوں تک محدود ہو گئی، ورنہ کسی زمانے میں مسلم کانفرنس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو اس کی حکومت ختم کرنے کے لیے سردار عبدالقیوم کی غیر قانونی گرفتاری اور نظر بندی کا سہارا لینا پڑا۔ سردار عبدالقیوم خان کی زندگی میں ہی مسلم کانفرنس حصوں بخروں میں بٹی۔ بقول شاعر ع
اِک دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے، کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا
پیپلز پارٹی کو بدترین پانچ سالہ کارگزاری پر بھی تین نشستیں مل گئیں، حیرت ہے۔ چودھری عبدالمجید جیسے وزیر اعظم کی قیادت میں پیپلز پارٹی کون سا تیر مار سکتی تھی۔ ایک سست الوجود‘ نا اہل اور بدنام شخص جس کی سیاسی بصیرت کا یہ عالم ہے کہ اس نے پانچ سال قبل اپنی نامزدگی پر بیان دیا کہ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد پہلے گڑھی خدا بخش حاضری دوں گا پھر مدینہ منورہ۔ یہ آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی تھی جس نے یہ بیان پڑھ اور سن کر بھی اس کے سر پر وزارت عظمیٰ کا تاج رکھ دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو زندہ ہوتے تو ٹھڈے مار کر پارٹی سے نکال دیتے کہ ایسا غیر ذمہ دار اور خوشامدی شخص پارٹی اور ان کے لیے بدنامی کا باعث ہے؛ اگرچہ مرحوم خود بھی خوشامد پسند بہت تھے۔ عبدالمجید کے دور میں ملازمتیں بکتی رہیں ‘ سرکاری ٹھیکوں میں کمیشن اور تقرر و تبادلوں میں لین دین سکہ رائج الوقت تھا اور صوبے میں امن وامان کی صورت حال مخدوش۔ تحریک آزادی کشمیر کا ذکر ہی کیا۔ موصوف کو پاکستان سے بھی صرف اس قدر دلچسپی تھی کہ وہ زیادہ تر وقت اسلام آباد میں گزارتے اور ''ادّی‘‘ کو خوش رکھتے۔ حالیہ الیکشن میں اسی بنا پر اپنی پارٹی اور حکومت کا کوئی کارنامہ بیان کرنے کے بجائے آصف علی زرداری کے لخت جگر اور بے نظیر بھٹو کے نور نظر نے میاں نواز شریف کو مودی کا یار اور ملک کا غدار ثابت کرنے کی سعی کی؛ حالانکہ پانچ سالہ دوراقتدار کے کارنامے بیان کر کے وہ پارٹی کی نشستوں میں اضافہ کر سکتے تھے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے آزاد کشمیر میں بھی اسی نااہلی‘ بے عملی اور بدعنوانی کا مظاہرہ کیا جو پاکستان میں اس کا خاصہ رہی۔ اب دھاندلی کا نعرہ لگا کر پیپلز پارٹی اس غلطی کی تلافی کرنا چاہتی ہے جو 2014ء میں عمران خان کے دھرنے کے موقع پر نواز شریف کا ساتھ دے کر اس سے سرزد ہوئی، وہ اس غلط فہمی کا شکار تھی کہ وفاقی حکومت کم از کم آزادکشمیر الیکشن میں جوابی خیر سگالی کا مظاہرہ کرے گی۔ مگر سیاست کے سینے میں دل اور آنکھ میں شرم کہاں؟
بلا شبہ وفاقی حکومت نے آزاد کشمیر میں پرکشش ترقیاتی منصوبوں اور مسلم لیگی امیدواروں کے لیے ترقیاتی فنڈز سے ووٹروں کو متاثر کیا‘ پری پول رگنگ کا یہ انداز پاکستان میں نیا نہیں۔ وفاقی وزیروں نے مسلم لیگی امیدواروں کی انتخابی مہم میں بھر پور حصہ لیا اور مختلف ترغیبات سے ووٹروں کی رائے بدلی مگر مسلم لیگ کی کامیابی میں اپوزیشن کی ناکام حکمت عملی کو دخل ہے، جس کا سب سے زیادہ نقصان تحریک انصاف کو پہنچا۔ تحریک انصاف نے آزاد کشمیر انتخابات میں پہلی بار حصہ لیا۔ بیرسٹر سلطان محمود مگر تجربہ کار سیاستدان اور ریاست کے وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں، وہ کشمیریوں کی نفسیات سے واقف ہیں اور مسلم لیگ(ن) کے حربوں سے بھی۔ مسلم کانفرنس سے اتحاد کے بعد انہیں سردار عتیق احمد خان کی کمک حاصل تھی اور عمران خان نے انتخابی مہم میں حصہ لے کر نوجوانوں کو متحرک کیا، اس کے باوجود تحریک انصاف کا تیسرے چوتھے نمبر پر آنا لمحہ فکریہ ہے۔ معلوم اسباب میں سرفہرست امیدواروں کی نامزدگی میں مجرمانہ تاخیر‘ ڈور ٹو ڈور رابطے کی کمی اور جلسوں میں مقامی مسائل کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو اجاگر کرنے کے بجائے میاں نواز شریف پر تنقید ہے جبکہ مسلم لیگی رہنما اور وفاقی وزراء سڑکوں‘ گلیوں‘ سکولوں ‘ ہسپتالوں اور ملازمتوں کا لالچ دیتے رہے۔ عین انتخابات کے دنوں میں عمران خان کی بھارت یاترا‘ سنڈے ٹائمز کو متنازع انٹرویو اور برطانیہ کے دورے کی وجہ سے ایک ہفتے کی غیر حاضری بھی اثر انداز ہوئی کیونکہ کشمیری ووٹروں نے ایک نوزائیدہ جماعت کے لیڈر کی غیر سنجیدگی کو محسوس کیا۔ عمران خان لاہور میں علیم خان اور گوجرانوالہ میں احمد چٹھہ کی انتخابی مہم کے دوران بھی اسی طرز عمل کا مظاہرہ کر چکے ہیں اور دو بار جیتی ہوئی نشست ہار کر بھی سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ شادی اور طلاق کا معاملہ بھی خان صاحب عین انتخابات کے دنوں میں نمٹاتے ہیں ع
اک معّمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
مسلم لیگ(ن) نے گھاگ سیاسی جماعت کے طور پر پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور اقتدار کی ناکامیوں‘ کرپشن اور نا اہلی کی داستانوں اور تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کے غیر سنجیدہ‘ غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کو خوب اجاگر کیا اور یہ الیکشن زندگی موت‘ عزت بے عزتی کا معاملہ سمجھ کر لڑا جبکہ فریق ثانی کے لیے یہ کرکٹ کا میچ تھا جس میں ہارنا جیتنا معمول کی بات ہے؛ گر جیت گئے تو کیا کہنے‘ ہارے بھی تو بازی مات نہیں۔ تحریک انصاف کی اندرونی دھڑے بندی بھی یقیناً اثر انداز ہوئی اور مسلم کانفرنس سے اتحاد میں تاخیر نے بھی فائدہ نہیں پہنچایا۔ تاہم اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ تحریک انصاف اور عمران خان سے یہ غلطیاں سرزد نہ ہوتیں تو تحریک انصاف آزاد کشمیر میں حکومت بنا کر میاں نواز شریف کی مسلم لیگ اور حکومت کے سینے پر مونگ دلتی۔ کامیابی پھر بھی وفاقی حکومت کے حصے میں آتی مگر لینڈ سلائیڈ وکٹری کی صورت میں نہیں، دس بارہ نشستوں کی برتری کے ساتھ مسلم لیگ کا مقدر بنتی۔ تحریک انصاف دس بارہ نشستیں لے ہی مرتی۔ آزاد کشمیر میں کامیابی پر میاں نواز شریف کی خوشی فطری ہے، پاناما سیکنڈل کے حوالے سے ان کی اشک شوئی ہوئی۔ انہیں مخالفین کے سامنے آنے اور ان پر طنز کے تیر برسانے کا موقع ملا ۔ وہ مخالفین کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا فن جانتے ہیں اور بدترین حالات میں مہلت حاصل کرنے کی تدبیر آزمانے کا بھی۔ عمران خان نے مسلم لیگ ن کو کامیابی پر مبارکباد دی‘ بیرسٹر سلطان محمود نے نتائج کو مسترد کیا جبکہ بلاول زرداری سیخ پا ہیں۔ کیا پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے اس ناکامی یا مبینہ دھاندلی سے کوئی سبق سیکھا؟ اگلے چند دنوں میں پتہ چل جائے گا۔ کہیں یہ پیپلز پارٹی کو تحریک انصاف کے ساتھ سڑکوں پر لانے کی تدبیر ہی نہ ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved