تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     24-07-2016

’’غیبی امداد‘‘

پاکستان میں ان لوگوں کی کمی نہیں، جو فوج کو بلاتے اور اہل سیاست کو ڈراتے رہتے ہیں۔ اور تو اور، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بھی ایسے عناصر موجود ہیں، جو الزام و دشنام میں ہر حد سے گزر جاتے ہیں۔ فوجی مداخلت کی پیش گوئیاں کرتے ہیں، تو ان کے دل میں لڈو پھوٹ رہے ہوتے ہیں۔ اس بدتمیزی سے وزیر اعظم، اور مختلف پارٹی قائدین کا ذکر کرتے ہیں کہ کوئی شریف آدمی اپنے چپڑاسی تو کیا خاکروب کو بھی اس لہجے سے مخاطب نہیں کر سکتا۔ دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ اہلِ سیاست سے بات اہلِ صحافت تک اور وہاں سے اہلِ عدل تک پہنچ چکی ہے۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے جواں سال بیٹے کو اغوا کیا گیا تو پورا ملک بھونچکا رہ گیا۔ ہر شخص کی خواہش اور دُعا تھی کہ ہمارے عدالتی نظام کو دبائو میں لانے کا یہ حربہ ناکام ہو، اور جلد از جلد مغوی کی بازیابی ہو جائے۔ ایسے میں سوشل میڈیا پر اس اس طرح کے افسانے گھڑے گئے، اور وہ وہ تہمتیں تراشی گئیں کہ خدا کی پناہ۔ صد شکر کہ چیف جسٹس پورے قد سے کھڑے اور پورے وقار کے ساتھ اپنے فرائض منصبی ادا کرتے رہے، لیکن ان کو دل شکستہ کرنے یا یہ کہیے کہ بدنام کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی۔ یہاں تک کہ ان تہمتوں کی جگالی الیکٹرانک میڈیا پر کی گئی، اور پیمرا اپنی تمام تر چوکسی اور بیداری کے باوجود انہیں بروقت لگام ڈالنے میں ناکام رہا... یہاں یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ پیمرا کے موجودہ چیئرمین نے اس ادارے کو حرکت میں لا کر بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے، لیکن ان سے ڈو مور کا مطالبہ ناانصافی نہیں ہو گی۔
وزیراعظم نواز شریف کی بیماری کے دوران، اور اُس کے بعد وہ کون سی تہمت ہو گی کہ جو گھڑی نہ گئی ہو، اور اچھالی نہ گئی ہو۔ سوشل میڈیا پر کس کس طرح کی کلپنگز چلائی اور مشتہر کی گئیں، اور الیکٹرانک میڈیا کے بعض بزرجمہروں نے رنگ میں کیا کیا بھنگ نہیں ڈالی... یہ ہو نہیں سکتا کہ سب کچھ اتفاقیہ ہو، یقینا کوئی منظم سیل اس کے پیچھے کام کر رہا ہے، اور ہم سب کے چہرے پر کالک مل رہا ہے... ہم وزیر اعظم یا کسی اور منصب دار یا غیر منصب دار کے وکیل نہیں ہیں، انہیں اپنا دفاع آپ کرنے کے قابل ہونا چاہئے۔ ہم انہیں فرشتہ بھی نہیں سمجھتے، لیکن اگر کوئی انہیں شیطان بنا کر پیش کرتا ہے تو اس سے بڑا جھوٹا اور لعنتی کوئی ہو نہیں سکتا۔ اس سب نقل و حرکت سے ایک ایسی فضا پیدا کر دی گئی کہ جیسے دستوری نظام کی بساط لپٹی کہ لپٹی۔ حیرت ہے کہ ریاستی ادارے ہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشہ دیکھتے ہیں، اور قوم کے اجتماعی مورال پر ڈاکہ ڈالنے والے دندناتے پھرتے ہیں۔ فوجی مداخلت کی دعوت دینے والے پوسٹر بازوں کے خلاف قانون حرکت میں آیا ہے، لیکن اس قماش کے دوسرے حضرات بلا روک ٹوک لوٹن بازیوں میں مصروف ہیں۔ کئی عشرے پہلے کی نام نہاد پاناما لیکس کے حوالے سے جو دھماچوکڑی مچائی گئی، وہ دیدنی تھی۔ پورا نظام تہہ و بالا کرنے کی خواہش پالنے والے چھلانگیں لگانے اور کلکاریاں بھرنے لگے۔ جن لوگوں کا وجود سراپا کرپشن ہے، وہ کرپشن کے خلاف جہاد کے لیے کمر کستے نظر آئے۔ نظر آنے لگا کہ مقصود کوئی تحقیقات نہیں، عوام کے مینڈیٹ کی توہین ہے۔ میدانِ انتخاب میں پیٹھ دکھانے والے اپنے زخم چھپانے میں لگے ہوئے ہیں۔ کرپشن کہانی بھی عجب ہے کہ اس سے کوئی محفوظ نہیں...ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں... ترکی کے محبوب و مقبول صدر رجب طیب اردوان کے خلاف کس کس طرح کے سکینڈل اُچھالے نہیں گئے۔ پارسائی کے ایسے دعویدار موجود ہیں جنہوں نے دُنیا جہان کا ہر الزام ان پر جڑا، اور ان کو دُنیا کا بدترین شخص قرار دینے کے لیے جان لڑا دی لیکن وہ لوہے کے چنے ثابت ہوئے۔ ترکی کے عوام نے نہ صرف اُن کی جماعت کو انتخابی فتح عطا کی، بلکہ جب ایک فوجی ٹولے نے ان کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تو دیوانہ وار ٹینکوں کے سامنے دیوارِ چین بن گئے۔ ان کا منہ موڑ دیا۔ عصر حاضر کی تاریخ میں پہلی بار فوجی بغاوت کو اس طرح ناکام بنا کر نہ صرف جمہوریت کو بچایا، بلکہ رجب طیب اردوان کا چہرہ بھی دھو دیا۔ بغاوت کی ناکامی کے بعد اردوان جو کچھ کر رہے ہیں، وہ ایک اور کہانی ہے اس سے اتفاق ضروری نہیں۔
ترکی میں جو ہوا سو ہوا۔ پاکستان کی دستوری طاقتوں کو اس طرح ایک غیبی امداد میسر آ گئی۔ یہ پیغام دور و نزدیک نشر ہو گیا کہ ٹینکوں کو کھلی چھٹی حاصل نہیں رہی۔ انہیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ عمران خان لاکھ کہیں کہ یہاں فوج آئی تو لوگ مٹھائیاں بانٹیں گے، ترکی کے واقعات کے نفسیاتی اثرات مرتب ہو چکے۔ لاقانونی دبکے، اور ٹھٹھرے کھڑے تھے کہ آزاد کشمیر کے عام انتخابات نے مسلم لیگ (ن) کو 41 میں سے 32 نشستیں عطا کر دیں۔ مخالفین مل کر نو نشستیں حاصل کر سکے۔ نواز شریف (پاکستان کے واحد کشمیری نژاد رہنما) مظفر آباد پہنچے تو گویا پورا شہر اُمڈ آیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کی موجودگی اور فوج کے زیر نگرانی ہونے والے انتخابات کو متنازعہ بنانا آسان نہیں ہے۔ یوں محسوس ہوا کہ دِل کی سرجری کے بعد نواز شریف نئے سرے سے جوان ہو گئے ہیں، انہوں نے لہرا کر کہا ''کامیابی دھرنے سے نہیں، کچھ کرنے سے آتی ہے‘‘ اور تالیاں سری نگر تک جا پہنچیں۔ عزیزہ مریم بی بی کے ٹویٹ نے بھی ماحول کو نیا ذائقہ دے دیا کہ: وزیر اعظم جہاں سے گزرتے ہیں جلسہ ہو جاتا ہے۔ عمران خان نے کمال دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نتائج تسلیم کر لیے، لیکن عزیزم بلاول بھٹو ابھی تک دم سادھے بیٹھے ہیں۔ پاکستانی سیاست کو تہہ و بالا کرنے کے خواب دیکھنے والے دانشوروں سے بھی اپنی دانش سنبھالی نہیں جا رہی۔ وہ حیرت زدہ ہیں کہ پاکستانی جمہوریت کو ایک اور غیبی امداد فراہم ہو چکی ہے۔
آزاد کشمیر کے انتخابات کا اعلان یہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) مردہ گھوڑا نہیں ہے، اس کا مقابلہ سیاست کے میدان میں کیا جائے۔ عمران خان ہوں یا بلاول بھٹو... جن کی مسحور کن شخصیت سے وابستہ توقعات کم نہیں ہیں... انتخابی سیاست کے دائو پیچ سیکھیں، انتخاب کے میدان میں قسمت آزمائیں۔ نواز شریف اور ان کے رفقا کو چاروں شانے چت گرا سکتے ہیں تو شوق سے گرا لیں... چشم ما روشن دِل ما شاد... اوچھے ہتھکنڈوں سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ جمہوریت کسی سیاست دان، اینکر پرسن یا کالم نگار کی جاگیر نہیں ہے کہ جب چاہے اُسے روندنے کے لیے زمین پر لٹا دے۔ اس پر پورے پاکستان کا حق ہے، اور انشااللہ پورا پاکستان اس کی حفاظت کرے گا۔ بس جمہوریت اہلِ پاکستان کی خدمت میں لگ جائے... ''ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد‘‘۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved