ہم لوگوں کی یادداشت بڑی کمزور ہے لیکن اس کمزوری کا الزام ہم میڈیا والوں پہ نہیں دھرا جا سکتا۔در اصل ہم سب پہ روزانہ کی بریکنگ نیوز کا چکر اس قدر حاوی ہے کہ ہم اہم معاملات کو عموماً پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔تاہم ماضی کی یادوں کا اعادہ ہمیشہ اچھا ہی رہتا ہے۔پچھلے دنوں نیو یارک ٹائمز میں ایک خبر چھپی ۔ یہ خبر ہمارے ایک ایسے کالم میں کہی گئی ہماری باتوں کی تصدیق کررہی ہے جو ہم نے گزشتہ ستمبر میں ملائشیا کے وزیر اعظم نجیب رزاق کے بارے میں لکھا تھا۔سوئس بینکوں میںنجیب رزاق کے ذاتی اکائونٹس میں منتقل کئے گئے لاکھوں ڈالروں کی کہانی میں اب ایک نیا موڑ آگیا ہے۔اب امریکی محکمہ انصاف نے ایک مقدمہ دائر کر دیاہے جس میں مؤقف یہ اختیار کیا گیا ہے کہ یہ مذکورہ پیسہ امریکہ میں بیش قیمت جائیدادوں کی خرید میں استعمال ہوا ہے۔اس ضمن میں نیویارک میں30.6ملین ڈالرز مالیت کے ایک اپارٹمنٹ، لاس اینجلس میں 39ملین ڈالرز کے ایک محل اور ہالی ووڈ میں17.5ملین کی جائیداد کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان تمام سودوں میں خریدار کی شناخت مخفی رہی ہے اور اس کے مالی ذرائع بھی چھپائے گئے ہیں۔کیا اس سے آپ کا خیال ہمارے اپنے وزیر اعظم کی اولاد کی طرف نہیں جا رہا ؟پانامہ لیکس کے مطابق میاں نواز شریف کی اولاد نے بھی لندن میں بیش قیمت اپارٹمنٹ خریدے ہیں۔ ہمارے یہاں تو حزبِ اختلاف وزیر اعظم اور ان کے بچوں کو احتساب کے کٹہرے میں لانے
میں ناکام رہی ہے لیکن امریکی حکام ملائشیا کے وزیرا عظم اور ان کے اہلِ خانہ پہ فردِ جرم عائد کرنے جارہے ہیں۔پچھلے ایک سال کے دوران ملکی و غیر ملکی سطح پر ملائشیا کے وزیر اعظم کے قریبی لوگوں کے ایک دم سے مالدار ہو جانے اور پھر ان شاہ خرچیوں کی کہانیاں بھی بار بار سنائی جاتی رہی ہیں لیکن اب امریکی حکام ان بد ترین بد عنوانیوں کی بے رحمانہ تفصیلات کے ساتھ آگے آئے ہیں اور انہوں نے کیلی فورنیا کی فیڈرل عدالت میں ان اثاثوں کے انجماد کی درخواست دے دی ہے۔اس درخواست کے مطابق ملائیشیا کے وزیر اعظم کے سوتیلے بیٹے ، قریبی دوستوں اور ساتھیوں نے ایک سرکاری مالیاتی فنڈ (یعنی ملائیشیا ڈویلپمنٹ ہیڈ) سے تین بلین ڈالرز خرد برد کئے ہیں، اور اس خر د برد کی گئی رقم سے ایک بلین ڈالرز کلائنٹ بینک اکائونٹس اور شیل کمپنیوں کے ذریعے امریکہ منتقل کئے۔ کیا سرمائے کے بیرون ملک انتقال کا یہ ذریعہ بھی ویسا ہی نہیں جیسا کہ میاں صاحب کی اولاد نے اختیار کیا تھا؟امریکہ میں یہ مقدمہ جس کمپنی نے دائر کیا ہے اس کا نام Kleptocracy Asset Recovery Initiative ہے۔ ایسے اکثریتی کیسوں میں یہ کمپنی امریکی محکمہ انصاف کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ مقدمہ ایک ایسے وقت میں قائم کیا گیا ہے جب امریکہ میں حقِ اخفائ، شیل کمپنیوں اور دنیا بھر میں ناجائز رقوم کے بہائو کے بارے میں کافی تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔دنیا بھر میں سیاستدانوں اور دیگر مخیر افراد کی غیر ملکی کمپنیوں اور خفیہ غیر ملکی اکائونٹس سے حال ہی میں پانامہ دستاویزات میں پردہ اٹھایا گیا ہے۔امریکی محکمہ خزانہ کا منصوبہ یہ ہے کہ بینکوں سے یہ کہا جائے کہ وہ اپنے ایسے کھاتے داروں کی شناخت کریں جو شیل کمپنیاں استعمال کرتے ہیں۔پانامہ دستاویزات میں کئے گئے انکشافات پہ امریکہ والوں نے تو کاروائی شروع کر دی ہے لیکن ہمارے ملک میں تاحال ٹی او آرز پر ہی بحث کی جا رہی ہے۔کیا یہ سب جان کر قارئین کو وہ ساٹھ ملین ڈالرز یاد نہیں آرہے جو آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو نے اپنے سوئس اکائونٹس میں جمع کئے تھے؟ میاں
نواز شریف تو بعد میں وزارتِ عظمیٰ پر متمکن ہوتے ہی ان اکائونٹس کو منجمد کرانے میں کامیاب رہے تھے لیکن جنرل مشرف کے این آر او کی مہربانی سے یہ اکائونٹس پھر بحال ہو گئے تھے اور یہ رقم بھی زرداری و بے نظیر کو لوٹا دی گئی تھی۔اس داستان کا اختتام یہ رہا کہ ہمارے نرم گفتار وزیر خزانہ اسحق ڈار صاحب نے کوئی دو سال قبل بڑے فخر سے یہ اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت سوئس بینکوں میںنا جائز طور پر چھپائی گئی دو سو ملین رقم کی واپسی کے عمل کا آغاز کر چکی ہے۔تاہم اسلام آباد میں سوئٹزرلینڈ کے سفیر نے فی الفور ان کے اس دعوے کو رد کرتے ہوئے بتایا کہ لوٹی ہوئی رقم کی واپسی کے لئے ان کی حکومت سے کسی نے بھی رابطہ نہیں کیا۔ انہوں نے صاف الفاظ میں یہ کہا کہ اس ضمن میں '' پاکستان نے کوئی درخواست نہیں کی ہے۔‘‘میڈیا والوں میں سے بھی شاذ ہی کوئی ڈار صاحب سے ان دوسو ملین ڈالرز کے بارے میں پوچھتا ہے۔شاید اس لئے کہ پانامہ دستاویزات کا معاملہ اب سوئس بینکوں میں چھپائی گئی رقوم پہ حاوی ہو چکا ہے۔ہمارے وزیرخزانہ صاحب بھی شاید ملائشیا ہی کی مثال سے اپنا سبق سیکھ رہے ہیں جہاں برسراقتدار وزیر اعظم کے خلاف کروڑوںڈالرز کی خرد برد کے الزامات کی تحقیقات ہو رہی ہیں لیکن اس کے باوجود فی الحال اپنے عہدے پہ وہ برقرار رہنے میں کامیاب رہے ہیں، اور وہ بھی یوں کہ نجیب رزاق کی حکومت نے ہر طرح سے تحقیقات کا راستہ روکنے کی کوشش کی ہے۔ مبینہ سودوں
کے مالی ذرائع کی شناخت کے لئے مقرر کیے گئے تحقیق کاروں کو سائیڈ لائن کر دیا گیا تھا۔نہایت اہم سوالات اٹھانے والے خبر رساں ادارے کے جرائد کی اشاعت معطل کر دی گئی ہے۔ملک کے نائب وزیر اعظم کو بھی اسی قسم کے متعدد سوالات اٹھانے کی پاداش میں عہدے سے برطرف کیا گیا ہے۔ ملائیشیا کے عوام بھی وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کا مطالبہ لے کر سڑکوں پہ نکلے بلکہ نجیب رزاق کی اپنی جماعت کے لوگوں نے بھی بیرون ممالک جا کر غیر ملکی حکومتوں اور ایجنسیوں پہ زور دیا ہے کہ وہ ان کے وزیر اعظم کے خلاف ناجائز وصولیوں اور منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیقات کریں۔ جب یہ سکینڈل سامنے آیا تونجیب رزاق کی اپنی جماعت کے ایک رکن خیرالدین ابو حسان نے سوئٹزر لینڈ، برطانیہ، فرانس، ہانگ کانگ اور سنگا پور کا دورہ کر کے متعلقہ معلومات وہاں کی حکومتوں کو فراہم کیں۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ یہ ان کے ملک کا سب سے بڑا مالیاتی سکینڈل ہے۔ تاہم اب تک ملائیشیا میں اس ضمن میں کچھ پیش رفت نہیں ہوئی ہے، جیسا کہ پاکستان میں بھی پانامہ دستاویزات کے انکشافات کے باوجود کچھ بھی نہیں ہو سکا ہے۔ہمارے محترم ساتھی کالم نگار جناب ہارون رشید کہتے ہیں کہ اسلام آباد کی فضائوں میں یہ خبریں بڑی شدت کے ساتھ گردش کر رہی ہیں کہ شاید ہمارے علیل وزیر اعظم میاں نواز شریف اسحق ڈار، خواجہ آصف یا احسن اقبال میں سے کسی کے لئے اپنی کرسی چھوڑ دیں گے ۔ تاہم ارباب اختیار یہ چاہتے ہیں کہ عنانِ اقتدار میاں صاحب کے چھوٹے بھائی شہباز شریف اپنے ہاتھ میں لیں۔ زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم کے اہلِ خانہ کے بیرون ملک اکائونٹس کے معاملے کا کیا بنے گا؟ کیا یہ خاندان تحقیقات کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو گا اور کیا اگر ان کا جرم ثابت ہو گیا تو کیا لوٹی گئی ساری رقم یہ لوگ پاکستان کے عوام کو واپس کر دیں گے؟ہمیں ایسی کوئی امید نہیں کیونکہ گزشتہ کئی دہائیوں میں جو پیسہ لوٹا جاتا رہا ہے چاہے پی پی پی نے لوٹا ہو یا پی ایم ایل ن نے، اس میں سے کوئی ایک پائی بھی واپس کرنے کا انہیں کبھی نہیں کہا گیا !