تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     24-07-2016

کامیابی کیسے ممکن ۔۔۔۔؟

اس بار میٹرک کے امتحان میں پوزیشن لینے والوں میں 17طالبات ایسی ہیں جن کا تعلق انتہائی غریب گھرانوں سے ہے۔ کسی کا باپ گدھا گاڑی چلاتا ہے‘ کوئی مزدور کی بیٹی ہے‘ کسی کا باپ نائی ہے تو کسی کا دھوبی۔ ایک بچی کی والدہ گھروں میں کام کاج کر کے گھر کا خرچہ چلاتی ہیں۔ ان خستہ حال‘ غریب گھرانوں میں دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہے مگر آفرین ہے ان بچیوں پر جنہوں نے نامساعد حالات میں بھی محنت اور امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور اپنے مضبوط ارادے سے دنیا کو وہ کر دکھایا جس پر سب حیرت زدہ ہیں۔
یہ خبر مجھے حیران کر گئی اور میں سوچنے پر مجبور ہوئی کہ ایک طرف ہزاروں ایسے طلبہ و طالبات ہوں گے جن کے گھروں میں دنیا کی ہر سہولت اور آسائش موجود ہے۔ گرمیوں میں پڑھنے کے لیے ایئر کنڈیشنڈ کمرے اور سخت سردیوں میں ہیٹر لگے ہوئے تاکہ باہر کے موسم کی شدت کمرے پر اثر انداز نہ ہو۔ آرام دہ ماحول میں کھانے کے لیے وہ سب کچھ حاضر جس کی خواہش کی جا سکتی ہے۔ بہترین ادارے‘ مہنگی ٹیوشن ‘ ماں باپ کی طرف سے اچھے گریڈ لینے پر مہنگے موبائل دلوانے کی ترغیبات اس کے سوا۔ الغرض ایک طالب علم کو پڑھنے کے لیے آرام دہ اور پر آسائش ماحول دستیاب مگر اس کے باوجود ایسے ہزاروں طالب علموں کا امتحانی نتیجہ ان کی 
اچھی کارکردگی کی صورت میں سامنے نہیں آتا۔ اس کے مقابلے میں اِن 17طالبات کے ماحول کا اندازہ کیجیے جنہوں نے معاشی اور سماجی طور پر انتہائی نامساعد حالات میں پڑھا۔ تنگ وا تاریک گھر ‘ خستہ در و دیوار، سردی اور گرمی کی شدت کو سہتے ہوئے اور کنبے کے تمام افراد کے لیے صرف ایک کمرہ! ان ذہین بچیوں کو پڑھنے کے لیے کوئی الگ کونہ تک میسر نہیں تھا۔ اسی ایک کمرے میں گھر کے بچے، بزرگ ‘ والدین سبھی رہنے پر مجبور۔ گرمیوں کی طویل لوڈشیڈنگ میں یو پی ایس یا جنریٹر کی سہولت بھی نہیں۔ محنت کش ماں یا باپ کی انتہائی قلیل آمدنی میں دو وقت کی روٹی کھانا مشکل کجا کہ پھل‘ برگر‘ پیزا یا پسند کی کسی دوسری چیز کا سوچا جا سکے۔ جہاں معاشی مسائل زیادہ ہوں وہاں گھروں کے ماحول بھی تلخ ہو جاتے ہیں۔ ضرورتیں منہ کھولے عفریت کی مانند دکھائی دیتی ہیں۔ جیب خالی ہو اور ضرورتیں پہاڑ کی طرح تو زندگی میں تلخی گھل جاتی ہے۔ ایسے نامساعد حالات میں خواب دیکھنا اور پھر ان خوابوں کو تعبیر دینے کے لیے مصمم ارادہ کرنا کسی معجزے سے کم نہیں۔ مگر ان 17طالبات نے یہ سب کر دکھایا۔ انہوں نے اپنے حالات اور مجبوریوں کے سامنے شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ یوں ان کے لیے بہترین سہولتوں سے آراستہ گھر‘ آسائش‘ مہنگے ادارے اور مہنگی ٹیوشنیں سب بے معنی ہو گئیں۔ اس انکار نے ان کے اندر ایک غیر متزلزل ارادے کو جنم دیا اور ان کے ذہن کی کیمسٹری ہی بدل گئی۔ اپنے حالات کو بدلنے اور کچھ کر دکھانے کی دُھن میں انہوں نے اپنے اردگرد ایک نئی دنیا تعمیر کی جو ان کے مصمم ارادے‘ کڑی محنت اور ہار نہ ماننے کے جذبے سے سجی ہوئی تھی۔ یہی ان کی کامیابی کا فارمولا تھا اور اسی فارمولے پر عمل کر کے محنت کش غریب گھرانوں کی بچیوں نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ آسائشوں سے آراستہ زندگی گزارنے والے طلبہ و طالبات انہیں رشک سے دیکھتے رہ گئے۔ وزیر اعلیٰ نے ان ذہین اور قابل رشک طالبات کی حوصلہ افزائی بھی اچھے انداز میں کی۔ لیپ ٹاپ اور کیش انعامات سے یقیناً انکے حوصلے بلند ہوئے ہوں گے۔
خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ ہر برس میٹرک یا ایف اے/ ایف ایس سی کے امتحانات میں کچھ ایسے جوہر قابل ابھر کر سامنے آتے ہیں جو انتہائی غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ غالباً گزشتہ برس بی اے کے امتحان میں اول پوزیشن لینے والا ایک طالب علم حافظ آباد میں تندور پر روٹیاں لگاتا تھا ۔ خبر کے مطابق اس کا والد کتابوں سے اس قدر تنگ تھا کہ ایک بار اس نے غصے میں آ کر کتابیں تندور میں پھینک دیں‘ مگر اس طالب علم نے ہمت نہ ہاری۔ زندگی میں کامیابی ایسے ہی غیر متزلزل ارادوں سے حاصل ہوتی ہے۔ جب آپ اپنی نظر اونچے مقاصد پر رکھتے ہوئے پختہ ارادے کے ساتھ حالات کے سامنے شکست تسلیم کرنے سے انکار کردیتے ہیں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت آپ کو کامیاب ہونے سے نہیں روک سکتی۔
آپ ایک کامیاب کاروباری کیسے بنتے ہیں؟ کامیاب ماں کیسے بنتی ہے؟ کامیاب طالب علم ہونے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ کامیاب سیلز مین کی خوبیاں کیا ہیں؟ زندگی کی دوڑ میں کامیابی کیسے حاصل ہو؟ یہ سوالات دنیا بھر میں پرکشش سمجھے جاتے ہیں‘ ان موضوعات پر دنیا بھر میں ورکشاپس ہوتی ہیں، سیمینارز منعقد کیے جاتے ہیں‘ لائف کوچنگ کے ماہرین بھاری فیسیں لے کر لوگوں کو کامیابی کے گر بتاتے ہیں۔ Brain Tracry ایک ایسے ہی عالمی شہرت یافتہ ٹرینر(Trainer)ہیں۔ میں انٹرنیٹ پر ان کو اکثر پڑھتی ہوں۔ یو ٹیوب پر ان کی موٹی ویشنل تقریریں موجود ہیں۔ وہ لوگوں کو سکھاتے ہیں کہ کس طرح آپ اپنی زندگی کی ناکامیوں کو کامیابیوں میں بدل سکتے ہیں۔ آپ اپنے ارادوں اور خوابوں کو کس طرح عملی شکل میں ڈھال سکتے ہیں۔ میں نے اس موضوع پر بہت پڑھا اور پڑھتی رہتی ہوں‘ اگر چند لائنوں میں اس کا خلاصہ بیان کیا جائے تو اس کا عملی نمونہ ہماری یہ 17طالبات ہیں۔ پہلی سٹیج پر ایک خواب‘ ایک مقصد متعین کرنا۔ پھر اس کے حصول کے لیے ڈٹ جانا۔ روز انہ کی بنیاد پر یہ جانچنا کہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے آج کیا کیا۔ وقت کی بہترین تقسیم اور اس کا سلیقے سے استعمال کامیابی کے حصول کا بنیادی گر ہے۔ مسلسل محنت اور مستقل مزاجی کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری جز ہیں۔ ایک انگریزی مقولہ ہے:
Success is the child of drudgery and perseverance. It cannot be coaxed or bribed, pay the Price and it is yours.

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved