تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     25-07-2016

ترکی کے ایک شب خون کا آنکھوں دیکھا حال

ترکی کے حالیہ شب خون کی ناکام کوشش نے اس سے پہلے پیش آنے والے ایک اور واقعے کی یاد تازہ کر دی۔ بیس مئی 1963ء کو ترکی میں اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش ایک مضحکہ خیز ڈرامے کی صورت اختیار کر گئی تھی ۔ میں اُس وقت انقرہ کی مڈل ایسٹ ٹیکنیکل یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ یہ اُس یونیورسٹی کے ابتدائی ایام تھے، اور اس کا کیمپس شہر سے باہر تعمیر کیا جا رہا تھا۔ عارضی طور پر بنائی گئی بیرکس میں کلاسیں ہوتیں، ہاسٹل ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ میں تھا، اور یہ دونوں یعنی بیرکس اور اپارٹمنٹ، شہر کے مرکز سے قریب تھے۔
ایک شام ہم میں سے کچھ کیفے ٹیریا میں چائے پی رہے تھے، جب ریڈیو کی نشریات روک کر ایک اعلان کیا گیا... ''جنرل ہیڈکوارٹرز آرمڈ فورسز ریوولوشن نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا ہے، کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے، اسمبلی تحلیل کر دی گئی ہے‘‘۔ کیفے ٹیریا میں ایک ہنگامہ سا مچ گیا، تمام طلبہ اپنے دوستوں کو آوازیں دینے لگے۔ سب ریڈیو کے گرد جمع ہو گئے اور جلد ہی سارا کمرہ بھر گیا۔ سب ریڈیو کی طرف متوجہ تھے۔ جلد ہی ہاسٹل کے ڈائریکٹر نے اعلان کیا کہ وہ عمارت کے تمام دروازے بند کرنے جا رہے ہیں۔ اُنہوں نے طلبہ کو باہر جانے سے روک دیا۔ ایک گھنٹہ یا کچھ دیر بعد ریڈیو پر ایک اور اعلان نشر ہوا۔ اس مرتبہ انائونسر نے ہمیں اطلاع دی کہ ملک پر حکومت کا مکمل کنٹرول ہے، لیکن مزید اطلاع آنے تک، شہری اپنے گھروں میں ہی ٹھہریں۔ ان متضاد اعلانات نے طلبہ کو شش و پنج میں مبتلا کر دیا۔ ان میں سے اکثر فوج حکمرانی کی مخالفت کر رہے تھے۔ اس دوران باہر سے گن فائر کی اکادکا آوازیں بھی آرہی تھیں۔ 
رات بیت گئی، صبح پھوٹ رہی تھی، جب میرے ایک ترک دوست، سلیمان نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں باہر جا کر کچھ دیکھنا چاہتا ہوں؟ نوجوان، چنانچہ جوشیلا اور کم عقل ہونے کے ناتے میں فوراً ہی تیار ہو گیا۔ ہم دونوں فرسٹ فلور کی بالکونی سے لٹک کر باہر کود گئے۔ باہر انقرہ کی صبح ہماری منتظر تھی، اور قریب سے فائرنگ کی آوازیں بھی آ رہی تھیں۔ خوفزدہ ہوئے بغیر ہم اسمبلی کی عمارت کی طرف چلنا شروع ہو گئے۔ جب فائرنگ ہوتی تو ہم کسی کار کے پیچھے دبک جاتے۔ اچانک ایک فوجی دکھائی دیا جو گولیوں کی زد میں آ گیا تھا۔ اُس نے اپنا سینہ تھام لیا اور نیچے زمین پر گر گیا۔ میں نہیں جانتا کہ وہ بچ گیا تھا یا نہیں۔ قزلے سکوائر (Kizlay Square) میں ہمیں بہت سے فوجی دکھائی دیے جو پورے جنگی یونیفارم میں تھے۔ بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ وہ حکومت کے حامی دستے تھے، اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ سر پر جیٹ فائٹر پرواز کر رہے تھے۔ اُن میں سے کچھ نچلی پرواز کرتے ہوئے بعض مقامات پر فائرنگ بھی کر رہے تھے۔ ایک پائلٹ نے غلطی سے جلدی ٹرائیگر دبا دیا، اور بہت سے فوجی فائرنگ کی زد میں آ گئے۔ فائرنگ اتنی شدید تھی کہ وہ جہاں کھڑے تھے وہیں گر گئے۔ بھاگ کر جان بچانے کا موقع نہ ملا۔ ہمیں بعد میں تمام واقعہ کا علم ہوا۔ یہ اتنا معمولی تھا کہ اسے فوجی بغاوت کہنا بھی غلطی تھا۔ یہ ایک سابق کرنل، ایدمیر (Aydemir) کی طالع آزمائی کا نتیجہ تھا۔ اس کی کمانڈ میں انقرہ کے کیڈٹ کالج کے جوانوں کے علاوہ کوئی دستہ نہیں تھا۔ اُس نے کچھ دیگر افسران کو بھی شب خون مارنے کے لیے اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ نے ہامی بھری ہو لیکن وہ عین وقت پر وعدے سے پھر گئے ہوں۔ اُس بغاوت کو کچلنے میں دیر نہ لگی۔ ایدمیر اور کچھ دیگر افراد کو سزائے موت سنائی گئی۔ کالج کے تمام کیڈٹس کو یا تو جیل بھیج دیا گیا یا کالج سے نکال دیا گیا۔ مجھے اُن پر افسوس ہوا کیونکہ میں نے بھی ایک مرتبہ کیڈٹ کالج جا کر اُن کے ساتھ ٹیبل ٹینس کھیلی تھی۔ 
ترکی کے شب خونوں کی تاریخ میں 1963ء کی کوشش بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ترکی کی طاقتور فوج نے ہمیشہ خود کو کمال ازم کے محافظ کے طور پر پیش کیا تھا۔ جنرلز اور ایڈمرلز کو ہمیشہ سیاست دانوں پر شک رہا کہ وہ اتاترک کے سیکولر ترکی کے نظریات سے روگردانی کر رہے ہیں؛ چنانچہ کئی عشروں تک آئینی عدلیہ کے ساتھ مل کر ترک فوج نے مذہب کی سیاست میں مداخلت کا راستہ روکے رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک مغربی نظریات کی طرف گامزن رہا۔ یہاں یونیورسٹیوں میں طالبات کے سر ڈھانپنے پر سختی سے پابندی تھی؛ تاہم ترکی کا اناطولیہ کا اندرونی علاقہ بنیادی طور پر دقیانوسی رہا۔ اس دوران، رجب طیب اردوان کی ''اے کے پارٹی‘‘ کے عروج سے پہلے، شہروں کی اشرافیہ ہی فوج کی پشت پناہی سے اقتدار سنبھالتی تھی؛ تاہم ترک معیشت کی تیز رفتار بحالی نے طیب اردوان کی شہرت کو چار چاند لگا دیے اور چند برسوں کے اندر وہ انتہائی طاقتور حکمران بن کر ابھرے‘ جنہوں نے ملک کو معتدل خطوط پر استوار کر دیا تھا۔ سب سے اہم یہ کہ اُنہوں نے طاقتور فوج کو واپس بیرکس میں بھیج دیا۔ اُنہوں نے فوجی سازش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی ایک جنرلوں کو جیلوں میں ڈال دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ آج بہت سے مبصرین اُس سازش کو من گھڑت قرار دیتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد صرف طاقتور جنرلوں کو سبق سکھانا تھا۔ اور وہ سازش انٹیلی جنس ایجنسیوں کی تیارکردہ تھی۔
جب بہت سی ریکارڈ شدہ گفتگو منظر عام پر آئی تو پتہ چلا کہ طیب اردوان کے قریبی حلقے اور خاندان کے افراد بھاری بدعنوانی میں ملوث ہیں۔ یکایک مسٹر اردوان کو انکشاف ہوا کہ فتح اﷲ گولن اقتدار پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ فتح اﷲ گولن معتدل مزاج مذہبی عالم ہیں اور ان کا ترکی اور بہت سے ممالک میں سکولوں اور کالجوں کا نیٹ ورک ہے۔ ریاستی اداروں میں ان کے پیروکاروں کی بھاری تعداد موجود ہے۔ اردوان اور گولن، جو کبھی اتحادی تھے، اب ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ یہی وجہ 
ہے کہ حالیہ شب خون کے پیچھے ترک صدر نے گولن کا ہاتھ ہونے کا الزام لگایا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اب تک ساٹھ ہزار سے زائد افراد کو بغاوت میں ملوث ہونے کے شبے میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ہزاروں سرکاری ملازمین کو گولن کے ساتھ وابستگی کا الزام لگا کر ملازمت سے نکال دیا گیا ہے۔ 
فوجی بغاوت کے بعد اس وسیع پیمانے پر صفائی کی جانے والی کوششوں کو دیکھ کر کچھ کو شک ہے کہ اس شب خون کا سکرپٹ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے لکھا تھا تاکہ اس کی آڑ میں حکومت سیاسی مخالفین کے خلاف کریک ڈائون کر سکے؛ تاہم ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد سے ایسا لگتا ہے کہ معاملہ کہیں گڑبڑ ہو گیا۔ فی الحال ترک حکومت گولن تحریک کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکی۔ چونکہ فتح اﷲ گولن ترکی کی سیکولر فوج کو ناپسند کرتے ہیں، اس لیے ان کی طرف سے اس طرح اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ دوسری طرف طیب اردوان کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالی، ایمرجنسی کے نفاذ اور صفائی کے بے رحم عمل نے بہت سے غیر ملکی دوستوں کو ترکی سے دور کر دیا ہے۔ بہت سے مبصرین اُنہیں ایک آمر حکمران سمجھتے ہیں جس نے جمہوریت کا لبادہ اُوڑھ رکھا ہو؛ چنانچہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملک میں اپنی مقبولیت کے باوجود طیب اردوان اپنے لیے مشکلات بڑھا رہے ہیں۔ اگرچہ حالیہ دنوں اُنہوں نے روس اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی ہے لیکن کرد آبادی پر وحشیانہ کریک ڈائون کرنے کی وجہ سے وہ مغربی طاقتوں کی حمایت کھو رہے ہیں۔ اس وقت اُنہیں عالمی افق پر مسائل کے حل کی بجائے ایک مسئلے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved