تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     25-07-2016

ترکی کی بغاوت

15جولائی کی رات ترکی میں فوجی انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی گئی، یہ بات تو عیاں ہے کہ فوجی کودیتا(Coup D'etat) اگر کامیاب ہوجائے تو انقلاب کہلاتا ہے اور ناکام ہوجائے تو بغاوت،سو اب اِسے بغاوت ہی سے تعبیر کیا جائے گا۔ ترکی کے صدر جنابِ رجب طیب اردوان نے اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت پر بھروسا کرتے ہوئے ہمت وحاضر دماغی سے کام لیا اورایسے وقت میں کہ جب الیکٹرانک میڈیا پر بھی باغی افواج قابض ہوچکی تھیں، انہوں نے سوشل میڈیا پر آکر عوام سے اس فوجی بغاوت کے خلاف مزاحمت کی اپیل کی۔
عوام فوراً سڑکوں پر نکل آئے،فوجیوں کی بھرپور مزاحمت کی،ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے اوربغاوت کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔یہ موجودہ دنیا اور بطورِ خاص عالمِ اسلام کی جدید تاریخ کا ایک منفرد واقعہ تھا اور اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت سے عوام کو کامیابی نصیب ہوئی۔پاکستان کی طرح ترکی بھی وقتاً فوقتاً فوجی انقلاب کی زد میں آتا رہا ہے،لیکن یہ پہلی بار ہے کہ فوجی مداخلت ناکام ہوئی،کہاجاتا ہے کہ اس میں فضائیہ کا کردار زیادہ نمایاں تھا اور آرمی کے سربراہ جنرل ہلوسی آکاراس کے حامی نہیں تھے،یہاں تک کہ بعض رپورٹس کے مطابق انہیں یرغمال بنالیا گیا تھا۔
یقیناً بروقت اِس عوامی مزاحمت کی پشت پر اردوان کی اپنے وطن کے لیے طویل خدمات کا دخل تھا۔ ان کے عوامی منصب پر فائز ہونے کا آغاز1994ء تا 1998ء میں استنبول کی میئر شپ سے ہوا۔ پھر وہ 2003ء تا 2014 ء وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز رہے اور 2014ء سے تا حال منصبِ صدارت پر فائز ہیں۔انہوں نے اس دوران تمام انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور اپنے اقتدار کے دوران ترکی کی بیمار معیشت کو ایک توانا معیشت میں تبدیل کردیا۔اپنے وطن کو عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی اقتصادی غلامی کے چنگل سے آزاد کیا اور آج ترک معیشت کو دنیا کی سولہویں بڑی اقتصادی طاقت تسلیم کیا جا رہا ہے۔اگرچہ ترکی آئینی اعتبار سے اب بھی ایک سیکولر ملک ہے،
لیکن ترک ماضی کی ایک عظیم اسلامی سلطنت کے وارث ہیں،اسلام ان کی رگ وپے میں شامل ہے۔ اردوان مذہبی رجحانات کی حامل نجم الدین اربکان کی رفاہ پارٹی سے ابھر کر سیاسی منظر پر آئے اور پھر بعد میں اپنی''جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی‘‘ تشکیل دی۔ ترکی میں پارلیمانی نظامِ حکومت ہے اور آئین کی رو سے وہ تیسری بار وزیرِ اعظم منتخب نہیں ہوسکتے تھے،لہٰذا انہوں نے صدارت کے منصب کو اختیار کیا،پہلے اپنے سابق وزیرِ خارجہ احمد دائود اوغلو اور پھر بن علی یلدرم کو وزیرِ اعظم بنایا،لیکن حکومت کی پالیسیوں کو بدستوراپنے ہاتھ میں رکھا۔
ہماری نظر میں ترکی اور مسلمانانِ عالم کے درمیان اردوان کی مقبولیت کا راز اس میں بھی مُضمَر ہے کہ وہ واحد مسلم حکمران ہیں جو دنیا میں امتِ مسلمہ کے مسائل پر نہایت جرأت مندی کے ساتھ توانا آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ ان میں الاخوان المسلمون کی حکومت کی جابرانہ انداز میں معزولی، فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی حالتِ زار، شام کے پناہ گزینوں کے لیے اپنے دیدہ ودل فرشِ راہ کرنا، میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم ،حکومتِ بنگلہ دیش کا 1971ء میں پاکستان کی حمایت کرنے والے مسلمان بنگالیوں کو ظالمانہ انداز میں سزائے موت دینا اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر بھارتی فوج کے مظالم ایسے مسائل شامل ہیں۔الغرض دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرکے اردوان ان کے دلوں میں مقبول رہنما کے طور پر جگہ بناتے رہے ہیں۔اس میدان میں دیگر مسلم حکمرانوں میں سے کوئی بھی ان کا ہمسرتوکُجا،ان کے قریب تر بھی نظر نہیں آتا۔سو عالمی سطح پر مسلمانوں میں اُن کی مقبولیت کا ٹھوس جواز موجود ہے۔
2008ء میں غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے حملے کے بعد اردوان نے اپنے قدیم حلیف اسرائیل کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ ترکی نے صرف احتجاج پر اکتفا نہیں کی بلکہ اس کے فوری بعد ڈاؤس عالمی اقتصادی فورم میں اردوان کی جانب سے اسرائیلی صدر شمعون پیریز کے سامنے برملا اسرائیلی جرائم کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد ڈاؤس فورم کے اجلاس کے کنوینرکی جانب سے انہیں مناسب وقت نہ دیے جانے پر اردوان نے فورم کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور وہاں سے اٹھ کرچلے گئے۔اس اقدام نے انہیں عرب اور عالم اسلام میں ہیرو بنادیا اور وطن واپس پہنچنے پر عوام نے اپنے رہنما کا نہایت شاندار استقبال کیا۔موجودہ بغاوت کو فرو کرنے میں ایک طرف سوشل میڈیا پراردوان کی تقریر نے صدرایوب خان کی 1965ء کی تقریر کی یادتازہ کی۔ پھر مساجد سے لوگوں کو گھروں سے باہر نکلنے کی جو اپیل کی گئی،اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
ان تمام باتوں میں ہمارے ہردورکے حکمرانوں کے لیے ایک سبق ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (1) ''پَس، رہا جھاگ تو وہ پھَک سے اڑ کر ختم ہو جاتا ہے، لیکن جو چیز لوگوں کے لیے نفع رساں ہو،وہ زمین میں قرارپاتی ہے ،(الرعد:17)‘‘۔ (2)'' اور باقی رہنے والی نیکیاںآپ کے رب کے حضور ثواب کے لیے بہتر ہیں اور امیدِ جزا کے لیے بہترین (اثاثہ) ہیں،(الکہف:46)‘‘۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ''بہترین انسان وہ ہے،جو انسانیت کے لیے سب سے زیادہ نفع رساں ہو،(المعجم الاوسط:5787)‘‘۔ الغرض شعلہ بیانی اور بلند بانگ دعوے کرنے سے لوگوں کے دلوں میں جگہ نہیں بنتی، بلکہ خدمت اور فیض رسانی سے حاکم کو عوام کے دلوں میں مقامِ قبولیت نصیب ہوتا ہے۔اسی طرح اَغیار پر انحصار کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ پر توکُّل اور اس کی تائید ونصرت پر یقین ہی میں مومن کے لیے کامیابی کا راز مُضْمِر ہے۔ ترکی کے لیے امکانات کی دنیا بہت وسیع ہے،مستقبل میں اس کادائرہ اثر پورے وسطی ایشیا تک پھیل سکتاہے۔جب آئینی اعتبار سے سیکولر ملک کے عوام میں ایمان کی حرارت پیدا ہو سکتی ہے تو پاکستان جیسے اسلامی جمہوری ملک میں اس کے امکانات بدرجہا زائد موجود ہیں۔
مالی معاملات کے حوالے سے میڈیا میں اردوان کے بارے میں منفی خبریں بھی آتی رہی ہیں،اُن پر اقربا پروری اور آمریت کا الزام بھی لگایا جاتا رہا ہے،ان میں حقیقت کا تناسب کیا ہے،ہمیں اس کا صحیح اندازا نہیں ہے،وہ بوجوہ مغربی میڈیا کے منفی پروپیگنڈے کے نشانے پر رہے ہیں؛ تاہم وہ بہر حال ایک انسان ہیں اور انبیائے کرام و رسل عظام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ کسی بھی انسان کومکمل طور پر خطا سے مبرّا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کسی شخصیت میں خیر غالب ہے یا شر؟یقیناً اردوان کی شخصیت میں خیر کا عُنصر غالب ہے، جس کی بنا پر اُن کی قوم نے انہیں بار بار منتخب کیا،اُن کی قیادت پر اعتماد کیا اور اُن کے خلاف بغاوت کوفروکرنے کے لیے میدانِ عمل میں نکل آئے،اس میں انسانی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت کا بھی دخل ہوتا ہے کیونکہ ؎
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد، خدائے بخشندہ
ترکی کی ایک اور نامور شخصیت فتح اللہ گولن ہیں،وہ بھی مذہبی پس منظر سے نمودار ہوئے،اُنہیں اپنی طرز کا صوفی بھی کہا جاتا ہے۔وہ اگرچہ جدید دور کے اعتبار سے اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں ہیں،لیکن یقیناً وہ ایک ذہین اورنابغہ انسان ہیں،انہوں نے تحریکِ خدمت قائم کی۔اس تحریک کے تحت انہوں نے اعلیٰ معیار کے جدید تعلیمی ادارے بنائے اور رفاہی شعبوں میں اپنا بہت بڑا حلقۂ اثر پیدا کیا۔اپنے زیرِ اثر لوگوں کو جدید معیاری تعلیم سے آراستہ کر کے نہایت حکمت کے ساتھ ترکی کے تمام اہم شعبوں میں پالیسی سازی اور فیصلہ سازی کے مناصب پر فائز کیا۔ان میں مسلح افواج،عدلیہ،تعلیم، سول انتظامیہ اور میڈیا؛ الغرض قومی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے والے تمام اہم ادارے شامل ہیں۔ اردوان کے نزدیک اب وہ ''نابغۂ شر‘‘ہیں اور ان کی حکومت کو عدمِ استحکام سے دوچار کرنے کی درپردہ سازشیںکرتے رہے ہیں۔ وہ طویل عرصے سے امریکا میںمقیم ہیں اوراہلِ مغرب کی نظروں میں پسندیدہ شخص ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ ایسے تمام جدید مسلم مصلحین کے لیے امریکا،کینیڈا اور اہلِ مغرب اپنے در کشادہ رکھتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ان کے اسرائیلی ایجنسیوں اور سی آئی اے سے بھی روابط ہیں،حقیقتِ حال اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے،لیکن جب کوئی امریکا اور مغرب میں بیٹھ کر کسی مسلم ملک میں اصلاحی تحریک برپا کرے،تو اس کی طرف انگشت نمائی فطری بات ہے۔میں نے ترکی کے دورے میں ان کے ادارے بھی دیکھے اور حالیہ ترک بغاوت کے بعد انٹرنیٹ پر دستیاب مواد کا مطالعہ بھی کیا۔یہ بھی شواہد ہیں کہ باغیوں کو ترکی میں امریکی فوجی اڈے کا تحفظ اور معاونت بھی حاصل تھی۔اردوان کا مطالبہ ہے کہ فتح اللہ گولن کو اُن کے حوالے کیا جائے۔بہرحال کوئی نہ کوئی آزادانہ تحقیق ضرور ہونی چاہیے کہ آیا ترکی کی حالیہ بغاوت میں اُن کا عمل دخل،آشیرباد یا درپردہ سازش شامل تھی ؟اگر وہ اپنی قوم کے محبوبِ نظر ہیں،تو ترکی آنے سے انہیں کوئی خوف نہیں ہونا چاہیے۔اردوان کے لیے بھی مناسب ہے کہ باغیوں کے خلاف تطہیری مہم میں اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں،انتقام اور احتساب میں جو خفیف فرق ہے، وہ ملحوظ رکھنا چاہیے۔
جدید دور میں اہلِ مغرب اور ہمارے لبرل عناصر کی خواہش ہے کہ اسلام محض ایک اخلاقی اصلاحی تحریک کے طور پر تو ضرور باقی رہے،خواہ اس پر تصوف کی چھاپ ہو یا دعوت و تبلیغ کا کوئی بے ضرر سا عنوان،لیکن وہ اسلام کو ایک نظام کے طور پر قبول کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں ۔اس لیے اصلاحی اور سیاسی اسلام کی بحث در پردہ یا برملا جاری ہے۔
تا حال عالمی سطح پر دہشت گردی کی کوئی متفقہ تعریف طے نہیں ہے۔لہٰذا دنیا کی بالادست طاقتوں کی مرضی ہے کہ کسی تحریک کو جِدّو جُہدِ آزادی سے تعبیر کریں یا اُسے دہشت گردی قرار دیں۔جب افغانستان میں مجاہدین سوویت یونین کے خلاف لڑ رہے تھے،تو وہ آزادیٔ وطن کے مجاہد تھے،اہلِ مغرب کے منظورِ نظر تھے،کیونکہ یہ اُن کے دشمن سے برسرِ پیکار تھے۔ بعد میں یہی مجاہدین دہشت گرد قرار پائے،ناپسندیدہ اور مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کردیے گئے، ولی دکّنی نے کہا تھا:
پہلے جو آپ کہہ کر بلاتے تھے ،اب وہ تو کہتے ہیں
وقت کے ساتھ خطابات بدل جاتے ہیں
پہلے تھے میخانے میں ،اب ہیں مسجد میں ولی
عمر کے ساتھ مقامات بدل جاتے ہیں
مولانا حسرت موہانی نے کہا ہے:
خرد کا نام جنوں رکھ دیا، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
حال ہی میں ایک صاحبِ نظر نے لکھا ہے کہ سی پیک کو ناکام بنانے اور چین کی مشکیں کسنے کے لیے امریکا اپنے من پسند مجاہدین کو چینی صوبے سنکیانگ میں مصروفِ عمل کرنے کے لیے وسائل فراہم کرسکتا ہے اور اس کے نتیجے میں پاکستان اور چین کے درمیان شروع سے باہمی اعتماد کا جو مستحکم رشتہ چلا آرہا ہے،خطرے سے دوچار ہوسکتا ہے۔لہٰذا ہمارے حسّاس اداروں کو ہوشیار اور خبردار رہنا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved