شناسائی کا بھی عجب ہی معاملہ ہوا کرتا ہے۔ ذرا دعا سلام ہوئی، بات رسمی جملوں سے آگے بڑھی اور ایک دوسرے کو جاننے کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہی سلسلہ کبھی کبھی اچانک آگے بڑھ کر کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ اور پھر معاملات اُس مقام تک لے جاتے ہیں جہاں یا تو بے پایاں مسرّت ہوتی ہے یا پھر بے حساب اذیت۔
گزشتہ دنوں محترم افتخار مجازؔ کو ایک تازہ شعر بھیجا تو جواب میں اُنہوں نے ایس ایم ایس کے ذریعے منوّر ظرف مرحوم کا ایک جملہ ارسال کیا جو کچھ یوں تھا: ''واقفیت ودھا کے میں تے وخت پا بیٹھا واں‘‘۔ شہزاد احمد مرحوم کی ایک غزل شہنشاہِ غزل مہدی حسن مرحوم نے گائی تھی جس کا مطلع تھا ؎
جل بھی چکے پروانے ہو بھی چکی رسوائی
اب خاک اڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی
پوری غزل لاجواب تھی مگر یہ شعر ہمیں زیادہ پسند ہے ؎
اب دل کو کسی کروٹ آرام نہیں ملتا
اِک عمر کا رونا ہے دو دن کی شناسائی
بے شک۔ بعض حالات میں یہی ہوتا ہے کہ ذرا سی شناسائی کچھ کی کچھ ہو کر پورے وجود کو شکست و ریخت سے دوچار کر دیتی ہے۔ پھر انسان اپنا رہتا ہے نہ اوروں کا۔ وہ ماحول کے لیے اجنبی ہو جاتا ہے اور ماحول اس کے لیے غیر متعلق سا ٹھہرتا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے یہ ہم نے کیسی سنجیدہ بحث شروع کر دی۔ بات یہ ہے کہ شناسائی اگر عمومی سطح پر ہو تو متعلقین ہی کو مسرّت سے ہم کنار یا اذیت سے دوچار کرتی ہے۔ معاملہ اگر تھوڑا خصوصی ہو تو یہی شناسائی پَر پھیلاتی ہے، خوب اونچا اڑتی ہے اور ایسی قیامت ڈھاتی ہے کہ پہلے انگشت بہ دنداں اور پھر سر بہ گریباں رہ جاتے ہیں!
شناسائی دو جوان دلوں کے درمیان ہو تو ایک نئی دنیا بسانے کی سوچ پروان چڑھتی ہے۔ اور اگر نئی دنیا بسانا ممکن نہ ہو تو کسی ندی کے کنارے، مفت کی زمین پر ایک چھوٹا سا گھر بنانے کی خواہش تو دلوں میں انگڑائی لے کر ہی دم لیتی ہے۔ دو جواں دلوں کے درمیان شناسائی ایسی آگ لگاتی ہے کہ ایک دوسرے کے لیے قائم ہونے والا تعلق باقی رہتا ہے، باقی سب کچھ بھسم ہو جاتا ہے۔ جسے بڑے ارمانوں سے پال پوس کر جوان کیا ہوتا ہے اُس بیٹے کو کوئی نازنین لے اُڑتی ہے اور والدین پہلے اُن دونوں کا منہ تکتے ہیں اور اپنے سے منہ لے کر رہ جاتے ہیں! والدین کے تمام سُندر سپنے ٹوٹ جاتے ہیں اور باقی عمر کا رونا رہ جاتا ہے ؎
ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں
پھر اُس کے بعد مسلسل عذاب آنکھوں میں
اٹھتی جوانی کی شناسائی جو گل کِھلاتی ہے اُس پر بحث پھر کبھی سہی۔ آئیے، ذرا ڈھلتی، بلکہ ڈھلی ہوئی جوانی کی شناسائی کے ہاتھوں ڈھائی جانے والی قیامت کی بات کریں۔ جب سے عمران خان، ڈاکٹر طاہرالقادری اور شیخ رشید احمد میں شناسائی کا دائرہ وسیع ہوا ہے، قوم کے سُکون کا دائرہ خاصا محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ جب بھی اِن کی ملاقاتیں ہوتی ہیں، دل دھڑکنے لگتے ہیں۔ آپ سوچیں گے دل کا کام تو ہے ہی دھڑکنا۔ اگر دل نہ دھڑکے تو انسان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایسے میں اگر اِن تینوں اصحاب کے ملنے سے دل دھڑکتے ہیں تو اچھی بات ہے کہ یہ جسم و جاں کا ناتہ برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہیں! ٹھیک ہے مگر اِن تینوں اصحاب کے ملنے سے اہلِ وطن کے دِل دھڑکتے کم ہیں، اُنہیں دھڑکے زیادہ لگے رہتے ہیں!
ڈاکٹر طاہرالقادری جب بھی سوہنی دھرتی کو قدم بوسی کا اعزاز بخشتے ہیں، ہم جیسوں کی آنکھوں میں اُمّیدیں چمکنے لگتی ہیں۔ ہمیں خوب اندازہ ہے کہ اُن کے آنے سے اندر ہی اندر بہت کچھ ہلنے جلنے لگتا ہے، کچھ نہ کچھ ایسا ویسا کرنے کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں اور سیاسی پتیلوں میں کئی طرح کی کھچڑیاں پکنے لگتی ہیں! اور یہ ساری باتیں ہم آپ کو کیوں بتا رہے ہیں؟ آپ کو بھی بہت کچھ معلوم ہے، بہت سی باتوں کا خوب اندازہ ہے! اور کیوں نہ ہو؟ ؎
اے عدمؔ! احتیاط لوگوں سے
لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں!
عمران خان کو سیاست میں شناسائی ہی نے ڈبویا ہے۔ اور حالات کی ستم ظریفی یہ دیکھیے کہ اُنہیں اب تک یہ گمان ہے کہ شناسائیوں نے انہیں ابھارا ہے۔ تحریکِ انصاف کی اٹھان ایسی بری نہ تھی۔ نئے نعرے کے ساتھ میدان میں آنے والے عمران خان نے جب تبدیلی کی بات کی تو نئی نسل تیزی سے ان کی طرف متوجہ ہوئی‘ اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کے گرد نوجوان بڑی تعداد میں جمع ہو گئے۔ یہ نوجوان دلوں میں امنگ ہی نہیں، جذبہ بھی لیے ہوئے تھے اور بہت کچھ کرنا اور کر دکھانا چاہتے تھے۔ عمران خان کے لیے مواقع کی کمی نہ تھی۔ ہاں، یہ ہے کہ اُنہیں بھرپور اور رسیلے مواقع سے کماحقہ استفادہ کرنا نہ آیا۔ عمران خان محض کرکٹر ہی نہیں، قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بھی رہے ہیں‘ اور کپتان بھی وہ جسے ہر اعتبار سے فری ہینڈ دیا گیا ہو۔ اُنہوں نے انفرادی کارکردگی کا معیار بلند رکھنے کے ساتھ ساتھ قائدانہ کردار کا گراف بھی بلند رکھا۔ اُن سے زیادہ کون جانتا ہوگا کہ کوئی ایک غلط فیصلہ معاملات کو کہاں سے کہاں لے جا سکتا ہے اور لے جاتا ہے؟
سیاست کے میدان میں عمران خان نے کرکٹ والی سوچ تو اپنائی مگر فیصلے کرنے کے معاملے میں کئی مواقع پر غُچّہ کھا گئے۔ تحمل کا مفہوم بھی اُنہیں معلوم تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ٹرپل سنچری بنانے والا بیٹسمین بھی ابتدا تو صفر ہی سے کرتا ہے۔ مگر پتا نہیں کیوں وہ سیاست کے میدان میں یہ بات بھول گئے۔ راتوں رات بہت کچھ پانے کی تمنّا جب جُنون اور اُس سے بھی ایک قدم آگے جاکر ہَوس میں تبدیل ہوئی تو برسوں کی محنت پل بھر میں خاک چاٹتی ہو گئی۔
جنوری 2013ء میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے اسلام آباد میں ''فرمائشی‘‘ دھرنا سجایا۔ یہ ملک کی تاریخ کا انتہائی انوکھا دھرنا تھا‘ جس کے دوران اسلام آباد کے حسّاس ترین علاقوں میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے چاہنے والوں کا جم غفیر رہا‘ اور ریاستی مشینری کے کانوں پر جُوں تک نہ رینگی۔ اِتنے لوگوں کو اِتنے دن تک کس بنیاد پر اسلام آباد میں رہنے دیا گیا؟ اِس امر کی وضاحت ریاستی مشینری نے اب تک نہیں کی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنے سے آرڈر پر مال تیار کرنے کے سلسلے نے جنم لیا۔ اِس دھرنے کی عدیم النظیر ''کامیابی‘‘ دیکھ کر عمران خان اور ان کے رفقا بھی اپنی سوچ بدلنے پر مجبور ہوئے۔ کوئی کینیڈا سے آکر میلہ سجانے میں کامیاب ہوگیا تھا اور یہ لوگ اپنی دھرتی پر رہتے ہوئے بھی اب تک ایسا کچھ کرنے میں ناکام رہے تھے!
سوچ بدلی تو رابطے بھی بدلے۔ نئے تعلقات کی ابتدا ہوئی۔ شناسائی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ عمران خان نے، بظاہر، ٹھان لی کہ خواہ کچھ ہو جائے، ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنے جیسا کچھ کر دکھانا ہے تاکہ کام بنے اور نام رہ جائے۔
اِس کے بعد جو کچھ ہوا وہ آپ جانتے ہی ہیں۔ 2014ء کے وسط میں عمران خان نے بھی اسلام آباد میں دھرنے کا میلہ سجایا۔ اب کے اُنہیں ڈاکٹر طاہرالقادری اور شیخ رشید احمد کی بھرپور تائید و حمایت حاصل تھی؛ البتہ عوام کے لیے یہ طے کرنا انتہائی دشوار ہوگیا کہ اس شادی میں اصل دولہا کون تھا؟ عمران خان یا ڈاکٹر طاہرالقادری؟ دھرنا ختم ہونے کے بعد ڈاکٹر طاہرالقادری نے تو غیر معینہ مدت کے لیے کینیڈا کی راہ لی۔ وضاحتیں کرنے کے لیے عمران خان رہ گئے!
اب پھر عمران خان، شیخ رشید اور ڈاکٹر طاہرالقادری میں رابطے تیز ہو رہے ہیں۔ شناسائی کو نئی توانائی فراہم کی جا رہی ہے۔ ان کے درمیان شناسائی اِک عمر کا رونا ہے مگر یہ رونا اِن کے لیے نہیں، قوم کے لیے ہے! احتجاج اور دھرنا گردی کے بعد یہ اصحاب اپنی اپنی راہ لیتے ہیں اور اِدھر قوم اپنی تقدیر پر ماتم کرتی رہ جاتی ہے! ایک بار پھر اِن تینوں اصحاب کے درمیان رابطوں میں تیزی آرہی ہے تو قوم فیصلہ نہیں کر پا رہی۔ یہ فیصلہ کہ صرف تماشا دیکھنا چاہیے یا پھر ابھی سے ماتم کی تیاری شروع کر دینی چاہیے!
قوم مزید کسی طویل دھرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ایسے میں صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ ہماری سیاسی ''تری مورتی‘‘ کی باہمی شناسائی کوئی بڑی قیامت ڈھانے سے باز رہے!