صبح صبح الپاسو ٹائمز(EL Paso Times) کے صفحہ اول پر نظر پڑی تو حیرت ہوئی کہ گزشتہ شام جو لیڈ سٹوری طے ہوئی تھی وہ سرے سے غائب ہے ۔اتنی اہم خبر لیڈ سٹوری کے طور پر نہ سہی سکینڈ لیڈ یا تین چار کالمی خبر کے طور پر شائع ہو سکتی تھی مگر پورا اخبار چھان مارا‘ کہیں نہ ملی۔
دنیا کے چھبیس ممالک کے تیس صحافیوں کا یہ وفد امریکی حکومت کی دعوت پر سات ریاستوں کے ڈیڑھ درجن شہروں کے اہم اخبارات و جرائد‘ ٹی وی چینلز اور یونیورسٹیوں کے شعبہ ابلاغیات و سیاسیات کا مطالعاتی دورہ کرتا‘ ریاست ٹیکساس کے شہر الپاسو پہنچا تھا اور ایک روز قبل الپاسو ٹائمز کی ایڈیٹوریل میٹنگ میں شریک ہوا‘ جہاں طویل بحث مباحثے کے بعد چیف رپورٹر کی ایک سٹوری بطور لیڈ شائع کرنے کا فیصلہ ہوا ۔یہ میکسیکو کے ٹیکساس سے داخل ہونے والے غیر قانونی تارکین وطن کے بارے میں تھی۔ رپورٹر نے کافی محنت کی تھی۔ داخلے کے طریقہ کار‘ انسانی سمگلروں کی وارداتوں‘ ٹیکساس اورامریکہ کی معیشت اور سماج پر ان نکمّے اور زیادہ تر ان پڑھ افرادکے منفی اثرات اور مجرمانہ سرگرمیوں پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی تھی۔ ایڈیٹوریل بورڈ کے علاوہ مہمان صحافیوں کی اکثریت کا خیال تھا کہ خوب مرچ مصالحہ لگا کر تیار کی گئی یہ رپورٹ تہلکہ مچا دے گی۔ مگر صبح اخبار دیکھ کر مایوسی ہوئی۔ اس روز لیڈ سٹوری ایک حادثے کے متعلق تھی۔ ایک کار سوار‘ رات گئے سڑک پار کرتے ایک بچے کو کچل کر فرار ہو گیا تھا۔ بچے کی جان اگرچہ بچ گئی تھی مگر وہ شدید زخمی اور ہسپتال میں زیر علاج تھا۔
ناشتے کے بعد اخبار کے دفتر پہنچے۔ گزشتہ شام یہ طے ہوا تھا کہ مطالعہ کے بعد ہم لوگ اخبار کے گیٹ اپ‘ خبروں‘ فیچرز اور ادارتی مضامین کے بارے میں اپنی اپنی رائے دیں گے۔ میٹنگ شروع ہوئی تو برونائی‘ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ پاکستان‘ اردن‘ یوگوسلاویہ اور کئی دیگر ممالک کے صحافیوں نے تارکین وطن کے بارے میں سٹوری شائع نہ کرنے اور تیز رفتار کار کی زد میں آنے والے بچے کو لیڈ سٹوری کا موضوع بنانے کا سبب پوچھا۔ روس‘ سنگا پور اور آرمینیا کے صحافی البتہ خاموش رہے۔ الپاسو ٹائمز کے ایڈیٹر نے کہا‘ تارکین وطن والی سٹوری ایکسکلو سو ہے‘ کسی دن چھپ جائیگی مگر کم سن بچے کو کچل کر فرار ہونے والے ڈرائیور کی خبر کئی لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے۔ ایک تو اس نے تیز رفتاری کا جرم کیا‘ ممکن ہے وہ نشے میں دھت ہو‘ دوسرے وہ حادثے کے بعد رکا نہیں اور بچے کو ہسپتال پہنچانے کے بجائے موقع واردات سے فرار ہو گیا۔ انہوں نے دیگر اخبارات دکھائے جن کے صفحہ اول پر یہ خبر اسی انداز میں شائع ہوئی تھی۔
مجھے برسوں پرانا یہ واقعہ گزشتہ روز پنجاب حکومت کی ایک رپورٹ پڑھ کر یاد آیا جسے اخبارات نے صفحہ اول یا آخر پر بمشکل سنگل اور ڈبل کالم شائع کیا۔ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ چھ ماہ کے دوران پنجاب میں652بچے اغوا ہوئے ۔سب سے زیادہ بچے صوبائی دارالحکومت لاہور سے اغوا ہوئے ‘جن کی تعداد312ہے۔ دوسرا نمبر راولپنڈی کا ہے ‘جہاں سے ساٹھ بچے اغوا ہوئے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ دس کروڑ آبادی کے صوبے میں چھ ماہ کے دوران652بچوں کا اغوا معمول کی بات ہے ‘جس پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ گزشتہ روز میں نے انٹرنیٹ پر الپاسو کو کلک کیا تو پتا چلا کہ گزشتہ چار سال سے امریکہ کے محفوظ ترین بڑے شہر کے طور پر آل امریکہ سٹی ایوارڈ حاصل کر رہا ہے۔ جس شہر میں ایک بچے کا حادثے میں زخمی ہونا اخبارات کی لیڈ سٹوری ہو‘ وہ یقیناً اس اعزاز کا مستحق ہے۔ اور لاہور؟ یہاں صرف بچے ہی اغوا نہیں ہوتے‘ ڈمپر رکشہ موٹر سائیکلوں کو ٹکر مار کر بآسانی فرار ہو جاتے ہیں۔ دو بچوں سمیت چار افراد کی ہلاکت پر اہل علاقہ احتجاج کرتے ہیں تو ایل ڈی اے کی طرف سے وضاحت یہ آتی ہے کہ اس ڈمپر کا اورنج لائن منصوبے سے تعلق نہیں جبکہ نشتر کالونی میں بجلی کی ناقص تاریں گرنے سے جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو دس دس لاکھ روپے معاوضہ دے کر حکومت بری الذمہ ہو جاتی ہے۔ نشتر کالونی میں آئندہ ایسے حادثات کی روک تھام کے لیے کوئی تدبیر نہ حادثات کے ذمہ دار افراد کے لیے سخت تعزیر۔ متعلقہ ادارے کا موقف ہے کہ ہائی وولٹیج تار گرنے کا واقعہ بارش کے باعث پیش آیا ‘جس کا ذمہ دار کسی کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا ع
جو بات کی‘ خدا کی قسم لاجواب کی
کہنے کو ہم مسلمان ہیں‘ انسان کو اس کرہ ارض پر اشرف المخلوقات اور اللہ کا نائب قرار دیتے ہیں مگر انسانوں کو برہمن اور شودر کے خانوں میں بانٹ کر الگ الگ سلوک کا مستحق سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی ماں باپ کو اپنے لخت جگر ‘ نور نظر کے اغوا کی اذیّت سے دوچار نہ کرے۔ مخدوم یوسف رضا گیلانی‘ سلمان تاثیر اور جسٹس سجاد علی شاہ کا خاندان اس اذیت سے گزرا۔ وہی جانتا ہے کہ اولاد ہنستے کھیلتے آنکھوں سے اوجھل ہو جائے اور یہ بھی معلوم نہ ہو کہ کہاں‘ کس حال میں ہے تو والدین کی حالت کیا ہوتی ہے؟ شہباز تاثیر‘ علی حیدر گیلانی اور اویس شاہ کے اغوا پر ریاست‘ حکومت‘ میڈیا اور معاشرے نے جو مثبت اور ہمدردانہ ردعمل ظاہر کیا وہ قابل داد تھا۔کاش لاہور اور دیگر شہروں میں غریب کے بچوں کی گمشدگی پر اس کا عشر عشیر ہی سامنے آتا! غریبوں سے محبت اور دھرتی سے عشق کے دعویدار حکمران غریب والدین سے ہمدردی کے چند بول بولنے کے روادار بھی نہیں۔ تلاش میں سرگرمی کی تو کسی کو فرصت ہے نہ دماغ۔
اغوا کا کاروبار پاکستان میں ہمیشہ منفعت بخش رہا ہے۔ امیر کا بیٹا تاوان کے لیے اغوا کیا جاتا ہے جبکہ غریب کا بچہ مستقل آمدنی کا ذریعہ بنتا ہے ۔بڑے شہروں کے چوراہوں پر بھیک مانگنے والے بیشتر نوجوان بچے‘ معذور اور خواتین ‘خرکاروں کے جال میں پھنسنے سے قبل ہماری اور ہمارے بچوں کی طرح آزاد زندگی گزارتے اور اپنے والدین‘ عزیز و اقارب کے ساتھ ہنستے کھیلتے تھے مگر اب گاڑی اور موٹر سائیکل سوار لوگوں کے جذبہ ہمدردی سے فائدہ اٹھا کر خرکاروں کی تجوریاں بھرتے ہیں۔ ان میں سے کتنے صرف بھکاری اور کتنے دہشت گردوں‘ بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کے گماشتے ہوتے ہیں‘ کسی کو کچھ معلوم نہیں حکومتی ادارے چاہیں تو گداگری کا کاروبار بند کر کے اغوا کاروں کی سرکوبی کر سکتے ہیں مگر ان کی بلا سے۔ہر چوراہے میں درجنوں بچے اور بڑے‘ قانون کا منہ چڑاتے اور ٹریفک کے بہائو میں خلل ڈالنے کے لیے موجود نظر آتے ہیں مگر کوئی پوچھتا نہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ ان بھکاریوں اور اغوا کاروں کا کاروبار پولیس سے مک مکا کے بغیر چل نہیں سکتا۔ چل رہا ہے تو باہمی رضا مندی اور لین دین کے طے شدہ اصولوں کے مطابق۔
کسی زمانے میں اغوا کاروں کو قبائلی علاقوں میں محفوظ پناہ گاہیں میسر تھیں ‘اب پورا ملک ہی جرائم پیشہ افراد کے لیے محفوظ پناہ گاہ اور شریف شہریوں کے لیے غیر محفوظ ہے ۔بچے گھر میں محفوظ ہیں نہ گلی بازار میں اور نہ تعلیمی ادارے میں۔ اغوا کاروں سے بچ جائیں تو کوئی نشئی ڈرائیور اوربے قابو ڈمپر ان کی زندگی چھین لیتا ہے اورقاتل کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ کسی مہذب ملک میں چھ ماہ کے دوران652 افراد کے اغوا کی خبر شائع ہوتی ‘جن میں سے 312کا تعلق صوبائی دارالحکومت سے ہوتا تو طوفان برپا ہو جاتا۔ پارلیمنٹ تڑپ اٹھتی اور میڈیا آسمان سر پر اُٹھا لیتا مگر پاکستان کے عوام‘ حکمرانوں‘ سول سوسائٹی اور میڈیا کی قوت برداشت مثالی ہے ع
یہ خون خاک نشیناں تھا رزاق خاک ہوا
ہمارا قانون‘ ضمیر اور جذبہ انسانی ہمدردی کسی بڑے آدمی اور اس کے عزیز‘ رشتہ دار کے ساتھ مجرمانہ سلوک پر جاگ اٹھتا ہے اور قانون نافذ کرنے والے سول وفاقی اداروں کی بھاگ دوڑ‘ مستعدی اور فرض شناسی دیکھنے والی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ دولت مندوں‘ طاقتوروں ‘ حکمرانوں اور بااختیار لوگوں کو اپنے عزیز و اقارب سمیت اپنے حفظ و امان میں رکھے مگر ریاست کو کچھ خیال ان بے آسرا‘ بے وسیلہ اور بے امان لوگوں کا بھی رکھنا چاہیے‘ جن کے بچے اغوا ہو گئے‘ ہو رہے ہیں مگر کسی کے کانوں پر جوں رینگتی ہے نہ دو حرف تسلی کے ان کے نصیب میں ہیں۔ جس معاشرے کو راہ چلتے ایک بچے کی فکر نہیں بشرطیکہ وہ کسی غریب کا ہو‘ وہاں سینکڑوں بچے اغوا ہوں‘ اڑھائی کروڑ بچے تعلیم سے محروم یا ساٹھ لاکھ نوجوان بے روزگار! وہاں لیڈ سٹوری قائم علی شاہ کی فراغت اور کسی لیڈر کی طبی حالت بن سکتی ہے ۔قارئین بھی یہی چاہتے ہیں۔ بچوں کے اغوا‘ چنگچی سواروں کی ہلاکت اور بجلی کے تاروں سے اموات کی خبریں اور تحریریں کون پڑھتا ہے؟