صدر بن جائیں!
اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم کے بزرجمہروں نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ وہ وزارت عظمیٰ چھوڑ کر صدر مملکت بن جائیں تاکہ استثنیٰ حاصل کر کے وہ پاناما لیکس‘ منی لانڈرنگ‘ قرضے معاف‘ ٹیکس چوری اور کرپشن وغیرہ کے الزامات سے صاف بچ جائیں۔ تجویز کے مطابق وزیر اعظم مستعفی ہو کر اپنی جگہ پر میاں شہباز شریف کو لے آئیں اور خود صدر مملکت منتخب ہو جائیں تاکہ آئندہ الیکشن بھی اپنی نگرانی میں کروا سکیںپ؛ البتہ نئے وزیر اعلیٰ کا فیصلہ شہباز شریف خود کریںگے۔ معلوم ہوا ہے کہ راہِ نجات سمجھتے ہوئے اس تجویز پر سنجیدگی سے غور بھی ہو رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم کی ٹیم میں کسی چھوٹے موٹے وکیل نام کی کوئی چیز نہیں ہے جو انہیں بتا سکے کہ استثنیٰ انہیں صرف ان جرائم پر حاصل ہو گا جو وہ بطور صدر مملکت کریں گے اور جو ایسے کام وہ صدر بننے سے پہلے کر چکے ہیں‘ وہ استثنیٰ کی ذیل میں نہیں آئیں گے۔ اس سے تو یہ ہو گا کہ وہ وزارت عظمیٰ سے بھی جائیں اور بعد میں دھر بھی لیے جائیں یعنی ؎
آدھی چھوڑ ساری کو جائے
آدھی ملے نہ ساری جائے
شعر کا مخمصہ
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب نے لندن سے‘ جہاں وہ اپنے بچوں سے ملنے کے لیے گئے ہوئے ہیں، فون پر بتایا ہے کہ متنازع شعر اس طرح سے ہے یعنی ؎
شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثلِ برق
وہ طفل کیا کرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے
ساتھ ہی انہوں نے وہ پورا بند بھی پڑھ کر سنایا جس کے آخر پر یہ شعر آتا ہے۔ لیکن میں نے عرض کیا کہ جھگڑا تو اس مصرعے پر ہے جو مصرع اوّل کے طور پر مشہور ہو گیا اور اس ناچیز سمیت ایک زمانہ اسے استعمال کرتا آیا ہے یعنی ع
گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں
تو انہوں نے کہا کہ آپ ٹھیک کہتے ہیں اور اس کے بعد لائن ڈراپ ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد ان کے ایک شاگرد غالباً عاطف بٹ کا فون آیا کہ ڈاکٹر صاحب کے فون میں کوئی مسئلہ ہو گیا تھا چنانچہ انہوں نے کہا ہے کہ میں آپ کو وہ پورا بند لکھوا دوں۔ میں نے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ صحیح شعر میں پہلے نقل کر چکا ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ آخر یہ مصرع کس کا ہے۔
کالم چھپا تو ایک عزیز نے بتایا کہ ایسی تحریفات فلموں وغیرہ میں کر لی جاتی ہیں جیسے کہ غالباً مغلِ اعظم میں یہ شعر ؎
عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
بہادر شاہ ظفرؔ کے نام لگا دیا گیا‘ شاید اس لیے کہ اسی زمین میں ان کی بھی غزل ہے جس کا یہ شعر ہے ؎
ہے کتنا بدنصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
اور یہ بھی اس لیے ہوا کہ دونوں ایک ہی زمین میں کہے گئے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ متنازع مصرع غالباً آغا حشر کے ایک ڈرامے میں کسی نے ٹانک دیا تھا۔ تاہم یہ جستجو ہی رہے گی کہ اتنی شہرت حاصل کر جانے والا یہ آوارہ مصرع ہے کس کا؟
خواجہ سگ پرست (ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا)
یہ ایک پمفلٹ نما کتابچہ ہے جس کے ٹائٹل پر خواجہ صاحب کی تصویر شائع کی گئی ہے اور جس کے جستہ جستہ مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ یہ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا اور خالد شریف کے کسی مخالف نے ان کے خلاف اپنے بغض کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسے آخر میں تحقیقی اور تخلیقی مضمون قرار دیا گیا ہے؛ حالانکہ بظاہر یہ نہ تحقیقی ہے نہ تخلیقی۔ اور لطف یہ ہے کہ اس پر محقق اور تخلیق کار کا نام تک درج نہیں ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نامعلوم مصنف اس تحریر کو یا تو سچ سمجھتا نہیں یا اسے گمان ہے کہ اسے چیلنج کیا جائے گا ورنہ وہ اس کی ملکیت سے یوں دامن نہ چھڑاتا اور جس مصنف میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہے، اس کی تخلیق یا تصنیف پر کوئی رائے بھی ظاہر نہیں کی جا سکتی جبکہ یہ روش بجائے خود افسوسناک ہے۔ اس میں استعمال کی جانے والی زبان بھی ادبی کم اور سوقیانہ زیادہ ہے بلکہ کچھ اور شرفا کو بھی اس معرکے میں ملوث کرنے کی کوشش کی گئی ہے مثلاً آخر پر مصنف لکھتے ہیں:
اس کی تیاری کے سلسلے میں مجھے چند شخصیات کا بطور خاص''شکریہ‘‘ ادا کرنا ہے جن کا اس مضمون میں حصہ مجھ سے کم نہیں۔ میں سپاس گزار ہوں خالد شریف (راولپنڈی) سید باقر علی شاہ‘ جنید امجد (جھنگ) احتشام علی‘ آرٹسٹ ریاظ‘ صاحبزادہ قاسم جلالی(عارفوالہ) جمیل احمد عدیل (بورے والا) ڈاکٹر سعادت سعید‘ ڈاکٹر انوار احمد‘ آزر تاج سعید (پشاور) پروفیسر سیف اللہ خالد (فورٹ عباس) محمد امین انصاری (جھنگ) اور ٹی وی پروڈیوسر علی رضا (ساہیوال) کا جنہوں نے مجھے حق‘ سچ پر سمجھ کر میرے ساتھ بھر پور تعاون کیا۔
بینر لگوائے۔۔۔!
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سردار لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ چوہدری نثار نے وزیر اعظم بننے کے لیے بینر لگوائے ۔ خدا لگتی بات تو یہ ہے کہ بینر لگوانے والوں کی اتنی پسلی ہی نہیں تھی کہ یہ کام خود کرتے جبکہ اس میں ان کا کوئی اپنا مفاد بھی بظاہر نظر نہیں آتا۔ واضح رہے کہ فوج کی طرف سے اس سلسلے میں زور دار تردید پہلے ہی آ چکی ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ یہ فوج کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ قیافہ تو یہی کہتا ہے کہ وزیر داخلہ سے کم کسی کی بھی شہ پر اتنا بڑا کام نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کے علاوہ یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ اس واقعے کے بعد سے وزیر اعظم اور چوہدری نثار کے تعلقات ایک دم کشیدہ ہو گئے ہیں جیسے چوہدری نثار کی یہ سازش پکڑی گئی ہو۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی بطور خاص قابل غور ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق کابینہ کے اجلاس میں پچھلے دنوں جب وزیر داخلہ نے کچھ معاملات کے حوالے سے وزیر اعظم کو متوجہ کرنے کی کوشش کی تو وزیر اعظم نے انہیں بری طرح نظر انداز کیا جس کے بعد چوہدری نثار نے کھانا بھی وہیں بیٹھ کر کھایا اور اس کے لیے وہ دوسروں کے ساتھ گورنر ہائوس بھی نہیں گئے، جہاں کھانے کا انتظام کیا گیا تھا اور اب تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ چوہدری نثار وزیر اعظم کے قُرب و جوار میں کہیں نہیں دیکھے جاتے ع
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
پنجابی ادبی صفحہ۔۔۔!
ایک معاصر قومی روزنامہ میں ہفتہ وار پنجابی ادبی صفحے کے اجرا کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اس سے بہت پہلے روزنامہ ''امروز‘‘ میں احمد ندیم قاسمی مرحوم کی ادارت میں ہفتہ وار پنجابی صفحہ شامل کیا جاتا تھا۔ اس صورت حال میں کہ پنجاب کے دل'لاہور‘ سے پنجابی رسالے بھی بہت کم تعداد میں شائع ہوتے ہیں اور ایک آدھ گم نام اخبار بھی‘ اس صفحے سے بہت سی کمیاں پوری ہونے کا امکان ہے۔ اس ایڈیشن میں استاد دامن پر فیچر‘ پروین ملک کا انٹرویو اور دیگر ادبی سرگرمیوںکے ساتھ ساتھ پنجابی شاعری کو بھی جگہ دی گئی ہے''گلی‘‘ کے عنوان سے زاہد مسعود کی یہ نظم دیکھیے:
مینوں/ اوس گلی توں باہر آئون لئی کیہ کرنا چاہیدا اے/ جس وچ/ باگاں ورگے مکان/ تے تاریاں ورگیاں باریاں نیں/ مکاناں دیاں پرچھتیاں اتے/ گیتاں جہیاں چڑیاں/ آہلنے پاندیاں نیں/ دروازیاں اتے چاننی دے پردے/ تے یاداں دیاں نیم پلیٹاں لگیاں ہوئیاںنیں/ ایس گلی وچ رہن والے/ بیتے ورھیاں دے پہاڑے یاد کردے نیں/ تے وچھڑے سجناں دیاں تاہگاں/ واء دی کندہ اُتے الیکدے نیں/ اوہ سارے اپنے آپ نال گلاں کر دے نیں/ تے/ اک دُوجے نوں ویکھدیاں ای چپ ہو جاندے نیں/ مینوں/ ایس گلی توں باہر آئون لئی کیہ کرنا چاہیدا اے؟
آج کا مطلع
درپیش ہے صحرا وہی صحرا سے گُزر کر
دُنیا میں ہی موجود ہوںدُنیا سے گُزر کر