اس کائنات کی سب سے بڑی شخصیت محمدبن عبداللہ دنیا میں آئے تو باپ کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا۔ چھ سال کی عمر میں والدہ بھی داغِ مفارقت دے گئیں۔ دادا عبدالمطلب نے اپنے پوتے کو اپنی سرپرستی میں لے لیا، مگر دوسال بعد ان کا بھی آخری وقت آگیا۔ انھوں نے اپنے آخری لمحات میں اپنے یتیم پوتے کو اپنے بیٹے ابوطالب کی تحویل میں دے دیا۔ آنحضورﷺکے چچا اور پھوپھیاں مختلف ماؤں سے تھے۔ نبی اکرم ﷺکے والد عبداللہ اور ابوطالب ماں جائے بھائی تھے۔حقیقی چچا ہونے کے علاوہ بھی ابوطالب بہت حوصلہ مند، نرم مزاج اور صلہ رحمی کے معاملے میں معروف تھے۔ فطری طور پر عبدالمطلب کو اپنے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد یتیم پوتے کی سب سے زیادہ فکر تھی۔ انھوں نے اپنے بیٹے ابوطالب سے کہا کہ اب محمد بن عبداللہ تمھاری تحویل میں ہے اس سے محبت کرنا اور اس کی بہترین انداز میں دیکھ بھال کا اہتمام کرنا۔ جناب ابوطالب نے اپنے والد کی وصیت کے عین مطابق سرپرستی کا حق ادا کیا۔ وہ اپنے بچوں سے زیادہ اپنے یتیم بھتیجے محمد بن عبداللہ کی دیکھ بھال اور سرپرستی فرماتے تھے۔ جب کہیں جاتے تو اپنے ساتھ رکھتے۔ کھانا اپنے ساتھ کھلاتے اور سونے کے وقت میں بھی انھیں اپنے ساتھ سلاتے۔ اس وقت آنحضورﷺکی عمرمبارک آٹھ، ساڑھے آٹھ سال تھی۔
ابوطالب کے بارے میں مورخین نے لکھا ہے کہ وہ اپنے بچوں میں سے کسی کو کھانے کے وقت موجود نہ پاتے تو کبھی فکر مند نہ ہوتے۔ البتہ اپنے بھتیجے محمد بن عبداللہ کو کھانے کے وقت نہ دیکھتے تو دسترخوان کی طرف اس وقت تک ہاتھ نہ بڑھاتے جب تک آنحضورﷺکو بلوا نہ لیا جاتا۔ وہ کہا کرتے: لااکل حتی یحضرا ابنی۔ میں اس وقت تک کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک میرا بیٹا نہ آجائے۔ ایک اور بڑی اہم بات جو ابن سعد نے بیان کی ہے ، وہ یہ ہے کہ جب آنحضورﷺکھانے میں موجود نہ ہوتے تو اہلِ خانہ بہت زیادہ کھانا کھانے کے باوجود خود کو سیر نہ سمجھتے۔ آپؐ کی موجودگی میں تھوڑے کھانے سے بھی آسودگی اور اطمینان مل جاتا اور کھانا کافی بچ بھی جاتا۔ اسی وجہ سے ابوطالب آپؐ سے خوش ہو کر آپ سے کہا کرتے تھے: انک لَمُبَارَکٌ یعنی بے شک تیرے اندر بہت برکات ہیں۔ عبدالمطلب کی وفات کے بعد بنوہاشم کی قیادت متفقہ طور پر ابوطالب کے سپرد ہوئی۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج۱، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص410 )
سردار قبیلہ ہونے کی وجہ سے بطحا میں ابوطالب کی مجلس لگتی تو وہاں ایک گدّا بچھایا جاتا جس پر ایک بڑے تکیے سے ٹیک لگا کر وہ بیٹھا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ محمد بن عبداللہ وہاں تشریف لائے جبکہ ابھی ان کے چچا وہاں نہیں پہنچے تھے تو انھوں نے وہ گدّا ایک جانب بچھایا اور اس کے اوپر لیٹ گئے۔ اسی دوران آپ کی آنکھ لگ گئی۔ ابوطالب مجلس میں آئے تو گدّا غائب پاکر اس کے بارے میں پوچھا۔ لوگوں نے کہا کہ وہ آپ کے بھتیجے نے لے لیا ہے اور اس پر لیٹ گیا ہے۔ ابوطالب اس بات پر مکّدر ہونے کی بجائے مسرت سے کہنے لگے: ''بطحا کی حلت کی قسم! بلاشبہ میرا یہ بھتیجا نعمت کا قدردان ہے۔‘‘ ایک مرتبہ ابوطالب کی مجلس میں آمد سے قبل وہ گدّا جو ان کے لیے بچھا دیا گیا تھا، اس پر آنحضورﷺتشریف فرما ہوئے۔ آپ کی عمر اس وقت کچھ زیادہ نہ تھی۔ ابوطالب آئے تو اپنے بھتیجے کو وہاں بیٹھا دیکھ کر کہا قسم ہے قبیلہ ربیعہ کے معبود کی میرا یہ بھتیجا نعمت کی حقیقی قدر جانتا ہے۔ (طبقات ابن سعد، ج۱، ص120، البدایۃ والنہایۃ، ج۱، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص409 )
ابوطالب کے ساتھ آنحضورﷺنے اپنے دادا کی وفات سے لے کر خود ان کی وفات تک بیالیس سال گزارے۔ اس سارے عرصے میں چچا بھتیجے کے درمیان کبھی کوئی خاص اختلاف رائے یا رنجش پیدا نہیں ہوئی۔ اس میں عظیم المرتبت بھتیجے کا کمال تو ہے ہی، لیکن سچی بات یہ ہے کہ چچا کی شفقت ومحبت اور عظمت وفراخ دلی کا بھی اس میں بہت بڑا حصہ ہے۔ جب کبھی ابوطالب مکہ سے باہر سفر کے لیے کہیںروانہ ہوتے، توآنحضورﷺکو اپنے ساتھ رکھتے۔ اس حوالے سے خاص طور پر ایک سفر بڑا یاد گار ہے، جو شام کی طرف کیا گیا تھا۔ اس وقت آنحضورﷺکی عمر مبارک ۱۲سال کے قریب تھی۔ اس سفر کی خاص بات بُحیرا راہب کی آپؐ سے ملاقات ہے۔اس کی تفصیل مورخین نے یوں بیان کی ہے۔
شام کے سفر میں قافلہ ایک منزل پر رکا تو ایک شخص ان کے پاس آیا۔ اس نے عیسائی راہبوں کا لباس پہن رکھا تھا۔ اس نے اہلِ قافلہ سے پوچھا تمھارے درمیان کوئی بہت نیک آدمی ہے؟ اہل قافلہ نے جواب دیا کہ ہمارے درمیان ایسے لوگ موجود ہیں جو مہمان نوازی کیا کرتے ہیں، مجبور قیدیوںاور غلاموں کو رہا کرتے ہیں اور نیکی اور خدمت خلق کے کاموں میں دل چسپی لیتے ہیں۔ بُحیرا راہب کی اس جواب سے تسلی نہ ہوئی۔ اس نے پھر کہا تمھارے درمیان ایک پاک طینت اور صالح آدمی ہے۔ اس کے بعد خود ہی اس نے آنحضورصلی اللہ علیہ وسل کی طرف اشارہ کیا اورپوچھا کہ اس لڑکے کے والد کہاں ہیں؟ ابوطالب کی طرف اشارہ کرکے کسی نے اسے بتایا کہ یہ اس کے ولی اور سرپرست ہیں۔ یہ سن کر راہب نے ابوطالب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: احتفظ بھذالغلام ولا تذہب بہ الی الشام، ان الیہود حُسُدٌ وانی اخشاہم علیہ، قال: ما انت تقول ذاک ولکن اللہ یقولہ، فردّہ، قال: اللّہُمّ انی استودعک محمّداً! ثم انہ مات، فردّہ ابوطالب معہ الی مکۃ۔یعنی اس لڑکے کی حفاظت کی فکر کرو، اسے شام نہ لے جاؤ، وہاں یہودی ہیں جو بہت حاسد ہیں۔ اس لڑکے کے بارے میں ان کے شر سے مجھے خوف ہے۔ اس پر ابوطالب نے کہا: یہ تم نہیں کہہ رہے بلکہ حقیقت میں یہ اللہ کا قول ہے۔ چنانچہ جناب ابوطالب آگے جانے کی بجائے آنحضورﷺکو لے کر وہیں سے واپس مکہ چلے آئے۔ (طبقات ابن سعد، ج۱، ص121-120، البدایۃ والنہایۃ، ج۱، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص411 )
بُحیرا راہب نے آخری بات جو کی وہ یہ تھی اے اللہ! میں محمد ﷺکو تیرے سپرد کرتا ہوں۔ یہ بات کہہ کر وہ وفات پاگیا۔ کیا خوب انسان تھا۔ دراصل اہل کتاب کو آنحضورﷺکی علامات ان کی مقدس کتابوں میں بتا دی گئی تھیں۔ جو خوش نصیب تھے، انھوں دیکھتے ہی پہچان لیا جیسے بُحیرا راہب اور اہلِ حبشہ کا20رکنی وفد جو مکہ آیا تھا اور اسلام قبول کیا تھا۔ قرآن مجید کی سورۂ القصص میں ان لوگوں کا تذ1کرہ کیا گیاہے۔ جب انھوں نے اسلام قبول کرلیا تو ابوجہل اور دیگر سردارانِ قریش نے انھیں برا بھلا کہا اور گالیاں دیں۔ ان بے ہودہ باتوںکو سن کر انھوں نے قرآن کے الفاظ میں یہ جواب دیا: اور جب انھوں نے بے ہودہ بات سنی تو یہ کہہ کر اس سے کنارہ کش ہوگئے کہ ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمھارے اعمال تمھارے لیے، تم کو سلام ہے، ہم جاہلوں کا سا طریقہ اختیار کرنا نہیں چاہتے۔‘‘ (القصص:55)۔
اسی طرح حضرت عبداللہ بن سلامؓ کی اعلیٰ مثال موجود ہے جنھوں نے مدینہ میں آنحضورﷺکو پہلی نظر دیکھ کر ہی گواہی دی کہ یہ کسی جھوٹے انسان کا چہرہ نہیں ہے اور پھر کلمہ طیبہ پڑھ لیا۔ اس کے برعکس جو شیطان کی راہ پر چلنے والے تھے وہ پہچاننے کے باوجود مخالفت اور دشمنی پر اڑے رہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس بات کو اس طرح غیرمشتبہ طور پر پہچانتے ہیں جیسے ان کو اپنے بیٹوں کے پہچاننے میں کوئی اشتباہ پیش نہیں آتا۔ مگر جنھوںنے اپنے آپ کو خود خسارے میں ڈال دیا ہے وہ اسے نہیں مانتے۔ (الانعام6:20)
آنحضور ﷺکے بچپن کے واقعات دل چسپ بھی ہیں اور ایمان افروز بھی۔ اللہ کے نبی پیدایشی طور پر نبی ہوتے ہیں۔ ان کی بعثت کا وقت خود اللہ تبارک وتعالیٰ مقرر کرتا ہے، جب ان پر وحی نازل کرکے ان کو اپنا نمایندہ بنانے کا اعلان کرتا ہے۔ نبی اکرمﷺکو چالیس سال کی عمر میں پہلی وحی اور تاج نبوت عطا کیا گیا۔ اس سے قبل آپؐ کے بچپن اور جوانی کا دور بھی اتنا عظیم الشان ہے کہ اس کے اندر کہیں کوئی کمزوری یا عیب نظر نہیں آتا۔ سنگ ریزوں کے درمیان یہ لعلِ درخشاں یوں چمک رہا تھا کہ بُحیرا راہب نے تو الہامی کتابوں کی روشنی میں آپ کو پہچان لیا، مگرعام آدمی بھی آپ کے اخلاق حسنہ کو دیکھ کر پکار اٹھتا تھاکہ یہ شخص کسی خاص اور اعلیٰ مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ مولانا ظفر علی خان مرحوم نے کیا خوب کہا ہے: ؎
وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں
اک روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں
جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا اور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا
وہ راز اک کملی والے نے بتلا دیا چند اشاروں میں