تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     26-07-2016

ہر علم میں سے کم از کم حاصل کرتے جائیے

آغاز اور درمیان کے زمانوں میں ایک عام آدمی کے لیے اندازہ لگانا مشکل تھا کہ ہم یہاں اس کائنات میں ، یہاں اس زمین میں کیا کر رہے ہیں ۔ہم آخری زمانے والے صورتِ حال کو زیادہ بہتر طور پرسمجھ سکتے ہیں ؛بشرطیکہ خواہشات اور تعصبات کو ایک طرف رکھ کر عقل سے کام لیا جائے۔ ہمارے لیے یہ ممکن ہے کہ گزرے پچاس ہزار سال یا دو لاکھ برسوں کا جائزہ لیں ۔ جدید آدمی کی مکمل زندگی اسی دور تک محیط ہے ۔ ہم اس سے پہلے کے زمانوں کا جائزہ بھی لے سکتے ہیں ۔ ڈی این اے اور جانداروں کی باقیات (Fossils)کے علوم اب بہت ترقی یافتہ ہیں ۔ ان باقیات کو ہم کھول کر دیکھ سکتے ہیں ، ان کی عمر کا انداہ لگایاجا سکتاہے ؛حتیٰ کہ چند ہڈیوں کی مدد سے کسی بھی جاندار کے پورے جسم کا خاکہ بنانا بھی ممکن ہے ۔ انہی کی مدد سے ڈائنا سار اور دوسرے جانوروں کے مکمل ڈھانچے تشکیل دئیے جا چکے، ان کی شکل و صورت کا اندازہ لگایا جا چکا ہے ۔ 
بعض دوستوں اور بزرگوں کا خیال ہے کہ سیاست ، عام آدمی کی زندگی پر لکھنے کی بجائے ان ادق موضوعات ، ماضی کے بڑے واقعات، زمین ، کائنا ت اور زندگی پہ لکھتے ہوئے میں اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کر رہاہوں ۔ کرئہ ارض کی موجودہ جاندار اقسام اور تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ پچاس لاکھ سے ڈیڑھ کروڑ مخلوقات اس وقت اس زمین پر آباد ہیں ۔جب کہ ماضی کی پانچ ارب مخلوقات ختم ہو چکی ہیں۔ انسان ان میں سے صرف ایک ہے ۔بظاہر ایسا معلوم ہوتاہے کہ انسان اپنی عقل، اپنی قوت اور 
اپنی جہدوجہد سے یہاں زندگی بسر کر رہا ہے ۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ عقل سے محروم، محض جبلتوں اور محض جان بچانے کی خواہش کے بل پر زندگی گزارنے والے یہ پچاس لاکھ جاندار بھی زندہ ہیں ۔ ان کی خوراک اور دوسری ضروریات کا بندوبست بھی ہماری طرح ہی ہو رہا ہے ۔ ہم انسان بظاہر اپنی عقل کے بل پر زندہ ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیرِ زمین اور زمین سے اگنے والے وسائل پہ ہم زندگی بسر کرتے ہیں ۔ فرض کیجیے کہ بیچ ڈالنے سے گندم کا پودا یا مختلف پودوں کے بوٹے نہ پھوٹتے تو ہم کسی قابل نہیں تھے ۔ یہ زمین کی خصوصیت تھی کہ پودے اس میں پروان چڑھتے ہیں ۔ جانوروں کو ہم کھاتے ہیں اور یہ جانور اپنی نسل بڑھاتے رہتے ہیں ۔ زیرِ زمین سے ہم سونا، کوئلہ، تیل اور لوہا نکالتے ہیں ۔ یہ سب ذخائر، یہ سب وسائل اس دنیا میں رکھے گئے ہیں ۔ فرض کیجیے کہ زمین کے نیچے لوہا یا تیل موجود نہ ہوتا تو ہم کیا کر لیتے ؟ دوسرے جانوروں کی طرح ہم انسان بھی بوڑھے ہو کر مر جاتے ہیں ۔ ان حالات میں یہ پتہ لگانا زیادہ ضروری ہے کہ ہم یہاں اس زمین پر کیا کر رہے ہیں ۔ بہت سے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ یہ محض ایک اتفاق تھا کہ ماضی اور حال کی پانچ ارب مخلوقات میں سے ایک دو ٹانگوں والا جانور سر اٹھا کر کائنات کا اور خود اپنے جسم کے ایٹموں کا جائزہ لینے لگا اور 
intellectual discussionsمیں مصروف ہو گیا۔ جہاں تک سیاست پر لکھنے کا تعلق ہے ، انسانی تاریخ کا مطالعہ صرف ایک بات بتاتا ہے ۔ جہاں کہیںمعاشروں نے اپنے حکمرانوں پہ نظر رکھی اور اپنے حقوق کی جدوجہد عقل کی رہنمائی میں کی، وہاں انسان بہتر زندگی گزارنے لگا۔ جہاں معاشروں نے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑا ، وہاں وہ نیچ لوگوں کے استحصال کا شکار ہو گیا۔ بہت سے تباہ شدہ معاشروں میں انسان نے انگڑائی لی ، جدوجہد شروع کی اور بتدیج بہتری کی منازل طے کیں ۔ بہت سے ترقی یافتہ معاشرے بتدریج بے عملی اور نتیجتاً تباہی کا شکارہوتے چلے گئے ۔
کرّہ ء ارض پہ ہمیں جو زندگی درپیش ہے ، اس کا احاطہ چند جملوں میں کیا جا سکتاہے ۔ ایک ایسا جسم ہمیں دیا گیا ہے ، جس کی بہت سی خواہشات ہیں ۔انہی خواہشات کی تکمیل کی کوشش میں ہم ماں کی گود سے قبر تک کا سفر طے کرتے ہیں ۔ کرّہ ء ارض کے مختلف وسائل پہ قبضے کی خواہش بھی ان میں شامل ہے ۔ ان خواہشات کی مکمل تکمیل ہمارے بس کی بات نہیں ، خواہ ہم بادشاہ ہوں یا فقیر۔ خدا کہتا ہے : انسانوں کے لیے آراستہ کر دی گئی عورتوں ، بچّوں ، سونے چاندی کے ڈھیروں کی محبت۔۔۔(مفہوم)۔ اور یہ کہتاہے : اور اللہ کے پاس بہتر بدلہ ہے ( ان چیزوں سے ) مفہوم ۔ ان خواہشات کی آخری حد کوئی نہیں ۔ سرکارؐ نے فرمایا تھا : ایک سونے کی وادی کے بعد دوسری سونے کی وادی کی خواہش(مفہوم)۔بادشاہ پڑوسی بادشاہوں کا ملک ہتھیانے کے لیے جنگیں لڑتے ہیں ۔ غریب رشتے دار ذرا ذرا سی زمین کے لیے قتل و غارت کرتے ہیں ۔انسانی زندگی کی داستان کو اگر چند جملوں میں لکھنا ہو تو اتنا کہا جا سکتاہے کہ کچھ چیزوں میں ہمارے لیے کشش رکھ دی گئی ہے اور تمام عمر ہم ان میں اضافے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ؛حتیٰ کہ ہم موت کا منہ جا دیکھتے ہیں ۔جو زیادہ بڑے کاروباری ہوتے ہیں ، وہ ایک خاص حد سے زیادہ دولت کمانے کے بعد کسی نہ کسی انداز میں ، براہِ راست یا بالواسطہ اقتدار کی کشمکش (Power Plitics)میں شامل ہو جاتے ہیں ۔
فاسلز کی سائنس میں عبرت ہی عبرت ہے ۔ہر وہ قدیم چیز، جو فاسلز کی شکل میں ہمیں ملتی ہے ، ہم ا س کی عمرکا تعین کر سکتے ہیں ۔ فرض کیجیے کہ جو اوزار ہمیں انسانی باقیات کے ساتھ ملتے ہیں ، ان میں 28ہزار سال سے قبل کبھی بھی رسّی اگر دریافت نہیں ہوتی تو اس سے اندازہ لگا یا جا سکتاہے کہ رسی 28ہزارسال قبل ایجاد ہوئی تھی۔ ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے اگر اچانک جانداروں کے بے انتہا فاسلز دریافت ہوتے ہیں اور اگر ساڑھے چھ کروڑ سال کے بعد ان میں سے بہت سے جانداروں مثلاً ڈائنا سار کے فاسلز دریافت ہونا ختم ہوجاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تب کوئی عالمگیر ہلاکت خیزی (extinction event)رونما ہوئی تھی ۔یہ سب وہ چیزیں ہیں ، جو آج کے انسان کے پاس موجود ہیں ۔اس کے علاوہ فلکیات کا علم اب بہت ترقی یافتہ ہے ۔ انسان نہ صرف یہ کہ خلا میں کرّئہ ارض کے گرد گردش کرنے والی دوربینیں بھیج چکا ہے بلکہ ان کی قوت اور دور تک دیکھنے کی صلاحیت میں اضافہ بھی ہو رہا ہے ۔ ہبل کے بعد جیمز ویب دوربین کو اگلا بڑا قدم کہا جاتاہے ۔ ان کی مدد سے ہم کائنات کے متعلق، عناصر کی تخلیق،دوسرے سورجوں اور زمینوں کے متعلق بہت کچھ جا ن سکتے ہیں ۔ یہی حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ نے فرمایا تھا کہ ہر علم میں سے اتنا حاصل کرتے جائو، جتنا خدا کی شناخت کے لیے ضروری ہے ۔ جہاں تک روزگار کا تعلق ہے تو روزگار کی پوری سائنس اس اصول پر کھڑی ہے کہ انسان ایک کام کرنے کی کوشش کرے۔ ناکام ہو تو ناکامی کی وجوہات تک پہنچے اور اگلی دفعہ یہ کام بہتر انداز میں انجام دے ۔ جب تک آخری انسان زندہ ہے ،جب تک آخری جاندار زندہ ہے ، رزق ختم نہیں ہوگا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved