جمعہ22 جولائی کو پاکستان کی بائیں بازو کی تحریک کے ایک اہم راہنما معراج محمد خان 77 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ ان کو پریس نے کسی حد تک خراجِ تحسین پیش کیا ۔ان کی وفات پر بہت سے افراد نے دکھ اور رنج کا اظہار کیا اور ان کی زندگی کے کارناموں کو سراہا۔ لیکن سب سے تکلیف دہ تبصرہ ایک' ترقی پسند ‘دانشور کا تھا، جس میں انہوں نے معراج کی وفات کے ساتھ جدوجہد اور اس نظام کو بدلنے کی لڑائی کے عہد کے خاتمے کا اعلان کیا ۔ جو لوگ معراج کے سیاسی رفیق رہے ہیں اور ان کے سیاسی جذبے اور جدوجہد کی لگن سے واقف ہیں وہ یہ ضرور گواہی دیں گے کہ معراج کے لیے یہ بہت ہی دکھ اور اذیت کا تبصرہ ہوگا۔ کیونکہ معراج کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے ہمیشہ ہار ماننے سے انکار کیا ہے۔ ان کی سیاسی جدوجہد‘ ان کی پابند سلاسل اذیتوں کو سہنے کی قوت، ان کی ایمانداری اور سیاسی جانفشانی پر تو بہت سی باتیں ہوئیں ۔ لیکن فیض صاحب کی طرح ان کے سوشلسٹ اور کمیونسٹ نظریات اور ا ن کے اس نظریے کے تحت ہی تشخص اور پہچان کو بیشتر ہمدردوں نے فراموش کیا ہے،شائد شعوری طور پر۔ یہ شاید صرف اس عہدکے کردار کی ہی غمازی نہیں ہے بلکہ ترقی پسند اور روشن خیال دانشوروں اور لیڈروں کی اپنی مایوسی اور ہار ماننے کی کیفیت کی غمازی کرتا ہے۔معراج نے ہمیشہ اپنے آپ کو برملا کمیونسٹ کہا۔ انہو ں نے بہت سے نوجوانوں کو انقلابی عمل میں متحرک کرنے کی نہ صرف تلقین کی بلکہ خود ایسی جدوجہد کے لیے عملی مثال بن کر ان میں انقلابی جذبے بیدارکرنے اور جرأت مندانہ بنانے کی کاوشیں کیں۔ 1960ء کی دہائی کے انقلابی طوفانوں میں طلبہ تحریک کا ابھار‘ آمریتوں، اس نظام زراور ریاست سے ٹکرانے کی ہمت اور حوصلہ پیدا کرتی تھی۔ معراج نے این ایس ایف کی بنیادیں رکھنے میںاہم کردار ادا کیا تھا۔ لیکن وسیع تر محنت کشوں اور عوام تک ان کی پہچان اورپہنچ اس وقت ہوئی جب انہوں نے دوسرے بائیں بازو کے ساتھیوں سے مل کر پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ جب 30 نومبر 1967ء کو پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی تو معراج اس کے بانیوں میں سے تھے۔ پیپلزپارٹی کی بنیادی دستاویزات ا ور 1970ء کے منشور میں انقلابی سوشلزم کو نظریاتی بنیاد بنانے والوں میں معراج کا اہم کردار تھا۔ 1968-69ء کے انقلاب کا آغازبنیادی طور پر طلبہ تحریک سے ہوا تھا۔ خصوصاًکراچی میں معراج نے طلباء میں انقلابی نظریات پر کام کیا تھا، جو کیڈر بنائے تھے، وہی اس تحریک کی پہلی چنگاری بنے تھے۔ اس کے بعد پھر جب یہ تحریک مزدوروں ‘ دہقانوں اور معاشرے کی دوسری مظلوم پرتوں میں داخل ہوئی تو محنت کشوں نے اپنا اقتصادی اور سماجی کردار ادا کرتے ہوئے اس ملک کی معیشت کو روک دیا۔پہیہ جام اور عام ہڑتال سے ریاست کے وجود کو چیلنج کردیاگیا تھا۔ ایسی کیفیات میں ہی انقلابی صورتحال پیدا ہوتی ہے اور سوشلسٹ انقلاب کی منزل قریب آکر محنت کش عوام کے لیے اس اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن بنتی ہے ۔اس کیفیت میں ہی محنت کش آگے بڑھ کر اس پورے نظام کو بدل دیتے ہیں۔معراج محمد خان جیسے کارکنان، محنت کش طبقات اور انقلابی طلبہ نے یہ انقلابی صورتحال تو پیدا کردی تھی لیکن المیہ یہ تھا کہ اس انقلاب کو منظم اور فتح مند کرنے والی(انقلابی) پارٹی موجود نہیں تھی۔ پیپلز پارٹی ایک مقبول عوامی پارٹی تھی، کوئی سوشلسٹ انقلاب کرنے والی مارکسسٹ ،لینن اسٹ پارٹی کبھی نہیں تھی۔ لیکن چونکہ انقلابی ریلا چل نکلا تھا اور اس نے حکمران طبقات اور ان کی پروردہ ریاست کو جھنجھوڑکر رکھ دیا تھا، اس لیے حکمرانوں کا خوف اور کپکپاہٹ بے سبب نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے انقلابی دھارے کو روکنے سے پہلے اس ریلے کو انتخابی سیاست میں زائل کرنے کی کوشش کی گئی اور محنت کش طبقے نے جب حکمرانوں کواس طریقہ کار میں بھی مات دے دی تو انہوں نے پھر قومی شاونزم اور جنگی اقدامات کے ذریعے انقلاب کو زائل کرنے کی کوشش کی۔لیکن معراج نے حکمرانوں کی تمام چالبازیوں کے خلاف جدوجہد جاری رکھی۔ لیکن ان کی پہلی لڑائی پیپلز پارٹی کے اندر جاگیرداری اور سرمایہ داروں سے ہی تھی۔
چونکہ معراج کے پاس کوئی بڑی لینن اسٹ پارٹی نہیں تھی اور پیپلز پارٹی سوشلسٹ پروگرام کی وجہ سے 1968-69ء کے انقلاب کا اظہار بن چکی تھی اس لیے انہوں نے پیپلز پارٹی میں دائیں بازو کے خلاف جہد مسلسل جاری رکھی۔ 1970ء کے انتخابات سے پیشتر پیپلز پارٹی کے ہالا کنونشن میں معراج کا یہ فقرہ بہت مشور ہوا''ہماری سیاست پرچی نہیں برچھی کی ہے‘‘۔اس میں نہ صرف ان کی حکمرانوں کے خلاف لڑائی کی گرمائش نظر آتی ہے بلکہ اس نظام سے مکمل بغاوت کی بھی جرس سنائی دیتی ہے۔ لیکن پھر پیپلز پارٹی جب ایک زلزلہ خیز دورانیے کے بعد اقتدار میں آئی یا لائی گئی تو معراج کے لیے یہ لڑائی اور بھی کٹھن ہو گئی تھی۔کیونکہ یہاں اب صرف پارٹی کے اندر گھسے ہوئے حکمرانوں کے نمائندوں سے لڑائی نہیں تھی بلکہ جس ریاست میں پیپلز پارٹی نے اقتدار حاصل کیا تھا وہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر استوار شدہ تھی۔ عمومی طور پر یہ تاثر پھیلایا جاتا ہے کہ اقتدار میں آکر کوئی انفرادی لیڈر یا سیاسی پارٹی نظام بدل سکتی ہے۔لیکن جب اقتدار ہی نظام کا محافظ ہو تو پھر پارٹیاں اور حکومتیں اقتدار نہیں چلاتیں،اقتدار ان کو چلایا کرتے ہیں ۔ معراج کو بھٹو صاحب نے مشیر اور وزیر بھی بنایا کیونکہ وہ بائیں بازو کے توازن کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔لیکن طبقاتی کشمکش چونکہ ناقابل مصالحت ہوتی ہے اس لیے دائیں اور بائیں بازو کی حقیقی سیاست کا کبھی کوئی ملن، کوئی الحاق ممکن ہی نہیں ہوتا۔ جب کراچی کے لانڈھی اور سائٹ کے علاقوں میں مزدوروں پر فائرنگ کی گئی تو اسی روز معراج نے بھی وزارت کا بوجھ پھینک دیا۔ اس کے بعد معراج جس پر جہاں ایوبی آمریت نے ظلم ڈھائے تھے''اپنی‘‘ پارٹی کی حکومت کے ستم اٹھاتے رہے۔ ان کو ''حیدرآباد‘‘ سازش کیس تک میں زیرِ عتاب بنایا گیا۔جب ضیاء الحق نے مارشل لگایا اور کیس کو عیاری سے سیاسی طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی تو معراج نے اس کی ہر پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے اسی ضیاء الحق کے وحشیانہ جبر کے خلاف سربکف ہوگئے تھے۔ بھٹو کے خلاف سیاست کرنے سے انکار کردیا۔ ضیاء الحق نے جب معراج کو کراچی میں ''مہاجروں‘‘ کی سیاست کو ابھارنے کے لیے بھاری انعام واکرام کی پیش کش کی تو معراج نے اس نسلی اور قومیاتی سیاست کو کراچی کے عوام کی یکجہتی کو توڑنے اور شہر کو بربادکرنے کا منصوبہ قرار دے کر ضیاء کے منہ پر اس کو جھٹک دیا۔ معراج مذہبی بنیاد پرستی اور امریکی ومغربی سامراجیوں کے خلاف شدید جذبات رکھتے تھے ۔ انہوں نے ساری زندگی اس وحشت اور غلامی کی سیاست کیخلاف جدوجہد جاری رکھی۔ لیکن معراج جس' پیکنگ نواز‘ رجحان سے متاثر تھے وہاں مقامی سرمایہ دارطبقے کی جانب ایک ابہام موجود تھا۔ یہ ایک اہم نظریاتی کمی ان کی انقلابی تحریک کو درست راستہ فراہم کرنے اور انقلابی سوشلزم کے براہِ راست فتح یاب ہونے کی جدوجہد میں رکاوٹ بنا تھا۔آج اگر غور سے دیکھیں تو سامراجی جارحیت ہو یا مذہبی جنو نیت دونوں بربادیوں میں یہاں کے سرمایہ دار اور بالادست طبقات بالواسطہ یا براہِ راست شامل ہیں۔ یہاں کے حکمران طبقات کا معاشی اور سماجی کردار اتنا رجعتی ہے کہ ان میں ترقی پسندی کی ہلکی سے بھی سوچ یا رجحان جنم نہیں لے سکتا۔معراج محمد خان کوئی روائتی سیاستدان نہیں تھے بلکہ ایک بہادر حریت پسند تھے۔ انقلاب ہی ان کا مقصد اور منزل رہا ۔ گو معراج محمد خاں کو ان کی زندگی میں سوشلسٹ انقلاب کی معراج کو دیکھنا اور پانانصیب نہیں ہوا لیکن جب یہاں کے محنت کش عوام نوجوان اور طالب علم اس معراج کو حاصل کریں گے تو معراج محمد خان کا نام بھی اس سفر کے راہیوں میں نمایاں رہے گا۔