تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     27-07-2016

شکر گزاری

شعیب چٹھہ صاحب ایک کامیاب تاجر ہیں اور ان کے پاس اللہ تبارک وتعالیٰ کا دیا ہوابہت کچھ ہے۔ حال ہی میں جب انہوں نے اپنے نئے گھر کو تعمیر کیا تو اپنے قریبی دوست احباب کو دعوت پر مدعو کیا۔ مجھے بھی اس دعوت میں جانے کا موقع ملا۔ اس موقع پر مجھ سے اس بات کا تقاضا کیا گیا کہ اپنی چندگزارشات کو دوست احباب کے سامنے رکھوں۔ چونکہ شعیب چٹھہ صاحب کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے نئے گھر سے نوازا تھا اس لیے میں نے موقع کی مناسبت سے اس بات کا ارادہ کیا کہ نعمتوں کی شکر گزاری کے حوالے سے اپنی چند گزارشات کو قرآن و سنت کی روشنی میں دوست احباب کے سامنے رکھوں۔ انہی گزارشات کو میں قارئین کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ ابراہیم کی آیت نمبر34میں اس بات کا ذکر کیا ہے'' کہ اگر تم اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو انہیں شمار نہیں کر سکتے۔‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نحل کی آیت نمبر53 میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ'' تمہارے پاس جتنی بھی نعمتیں ہیں سب اسی کی دی ہوئی ہیں۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں ان گنت نعمتوں سے نوازنے کے بعد سورہ ابراہیم کی آیت نمبر7 میں اس امر کا اعلان فرمایا کہ'' جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاہ کر دیا کہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقینا میرا عذاب بہت سخت ہے۔‘‘ گویا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کو نعمتیں عطا فرمانے کے بعد ان سے اس بات کاتقاضا کرتے ہیں کہ وہ اس کی نعمتوں کا شکر ادا کریں۔ 
نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے حوالے سے انسان کو سب سے پہلے اپنی سوچ وفکر ، جذبات اور احساسات کی اصلاح کرنی چاہیے اور نعمتوں کی نسبت اپنے زورِبازو سے کرنے کی بجائے اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات سے کرنی چاہیے اور دل میں شکر گزاری کے احساسات کو جگہ دینی چاہیے۔ بعض لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی نسبت اپنی ہنر مندی، اپنے علم، فہم اور شعور کے ساتھ کر کے اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناراضگی کو دعوت دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ زمر کی آیت نمبر 49 میں اس امر کا اعلان فرمایا ''انسان کو جب بھی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارنے لگتا ہے اور جب ہم اسے اپنی طرف سے نعمت عطا فرما دیں تو کہنے لگتا ہے اسے تو میں اپنے علم کی وجہ سے دیاگیا ہوںبلکہ یہ آزمائش ہے اور ان میں سے اکثر لوگ لا علم ہیں۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اگلی آیت نمبر اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے کہ اس قسم کی باتیں کرنے والے لوگ دنیا میں پہلی مرتبہ نہیں آئے بلکہ اس سے قبل لوگ بھی اس قسم کی باتیں کرتے رہے۔ اللہ تبار ک وتعالیٰ سورہ زمر کی آیت نمبر 50 میں فرماتے ہیںکہ '' ان سے اگلے بھی یہی بات کہہ چکے ہیں پس ان کی کارروائی ان کے کچھ کام نہ آئی۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سور ہ قصص میں اپنی ذات ، علم اور ذہانت کے خبط میں مبتلا قارون کے واقعہ کو بڑی شرح وپسط سے بیان کیا ہے کہ اس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اتنا بڑا خزانہ عطا کیا تھا کہ اس کی چابیوں کو اُٹھانے کے لیے طاقتور لوگوں کی ایک جمعیت کی ضرورت تھی۔ اس کی قوم کے لوگ اس کو کہا کرتے تھے کہ جو کچھ اللہ نے تجھے دے رکھااس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ اور اپنے دنیاوی حصے کو بھی نہ بھول اور جیسا کہ اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کر اور زمین پر فساد کا خواہاں نہ ہو یقین مان کہ اللہ تبارک وتعالیٰ مفلسوں کو نہ پسند رکھتا ہے۔ قارون نے اس موقع پر کہا تھا کہ یہ سب مجھے میری سمجھ کی وجہ سے ہی دیا گیا ہے کیا اسے اب تک یہ معلوم نہیں تھا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس سے پہلے بہت سی بستی والوں کو غارت کیا اور وہ اس سے بہت سے زیادہ قوت اور جمع پونجی رکھنے والے تھے ۔ قارون نعمتوں پر اتراتا رہا اور اللہ تبار ک وتعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کو نہ تو اس کی طرف سے ماننے پر آمادہ ہو ااور نہ اس میں سے اس کے حق کو ادا کرنے پر تیار ہوا اور نہ ہی اپنی سوچ اور فکر کی اصلاح پر آمادہ وتیار ہوا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کو اس کے تکبر پر غصہ آیا اور اس کو محل سمیت زمین میں دھنسا دیا اور کوئی اس کی مدد کرنے والا نہیں تھا۔ انسان کو اپنی سوچ وفکر کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اپنی زبان سے بھی اللہ تبار ک وتعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ جسم کا واحد حصہ جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے دنیا میں قوت گویائی عطا کی ہے وہ انسان کی زبان ہے۔ انسان کے باقی جوارح ر اپنے عمل سے حق یا باطل کا چناؤ کرتے ہیں لیکن زبان الفاظ کی ادائیگی کے ذریعے غلط اور صحیح راستے کا انتخاب کرتی ہے۔ انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کے مل جانے پر خود پسندی ، غرور اور گھمنڈمیں مبتلا ہونے کی بجائے اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کی عطاکردہ نعمتوںپر الحمدللہ کہتے رہنا چاہیے۔ زبان اور دل سے شکرادا کرنے کے بعداللہ تبارک وتعالیٰ انسان کو اس کے جوارح اور اس کو ملنے والی نعمتوں کے استعمال سے جانچتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو ہاتھ دیے ہیں اگر ہاتھوں کو صحیح راستے پر استعمال کیا جائے ،ان سے کسی کی توہین ،کسی کی تنقیص اور کسی کا استہزاء کرنے کی بجائے ان کو شفقت ،ہمدردی اور لوگوں کے کام آنے کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ ہاتھ کی نعمت کا شکر ہو گا۔ اسی طرح قدموں کو بازار گناہ ، غلط راستوں اور غلط کاموں کی طرف چلانے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی بندگی، اس کی اطاعت، انسانیت اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے کام آنے کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ قدموں کی شکر گزاری ہو گی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطا کر دہ آنکھوں کو غلط، فحش اور قبیح مناظر دیکھنے کی بجائے صحیح باتوں کو اخذ کرنے اور درست چیزوں کا مطالعہ کرنے ، صحت مند اور درست مناظر دیکھنے کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ آنکھوں کی نعمت کی شکرگزاری ہو گی۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ کا عطا کردہ دماغ اس کی عطا کردہ توانائیوں اور اس کے عطا کردہ مال کا معاملہ ہے۔ اگر انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کے عطا کردہ مال ، اس کی عطا کردہ ذہانت اور اس کی عطاکردہ صلاحیتوں کو درست راستے پر استعمال کرے گا تو اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی نعمتوں کو بڑھا دے گا اور اگر انسان ان کو غلط راستے پر استعمال کرے گا تو جلد یا بدیر اس کی نعمتیں اس سے چھن جائیں گی۔ حدیث پاک میں ایک کوڑی، گنجے اور اندھے کا واقعہ مذکو ر ہے جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے شفاء دے کر اپنی عطاکردہ نعمتوں کے ساتھ متمول کر دیا۔پھر ایک عرصہ گزر جانے کے بعد ان کو سوال کرنے والوں کے ذریعے ازمایا گیا۔ کوڑی اور گنجا اس آزمائش میں ناکام ہوئے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو ان کی سابقہ حالت کی طرف پلٹا دیا۔ جب کہ اس کے بالمقابل اندھے نے اپنے پاس موجود نعمتوں کی نسبت اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات سے کی اور سائل کو یہ بات کہی جو کچھ اللہ تبارک وتعالیٰ کا دیا ہوا میرے پاس موجود ہے اس میں سے تو جتنا چاہتا ہے لے جا۔ اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے فضل اور نعمتوں کو برقرار رکھا اور اس کے رزق اور صحت میں کسی قسم کا زوال نہیں آیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نحل کی آیت نمبر 112 میں ایک بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جوامن اور اطمینان سے تھی اور اس کی روزی اس کے پاس بافراغت چلی آ رہی تھی۔ تو اس نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کاکفر کیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسے بھوک اور ڈر کا مزہ چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بستی کے امن وامان کو خوف کے ساتھ اور بستی کے رزق کو بھوک کے ساتھ بدل دیا یہ کفرانِ نعمت کا نتیجہ تھا ۔ اس کے مد مقابل جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا رہتا ہے اور ان نعمتوں کو صحیح طریقے سے استعمال کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے بارے میں جو فیصلہ فرماتے ہیں اس کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت نمبر 147 میں یوں کیا ہے کہ ''اللہ تمہیں سزا دے کر کیا کرے گا اگر تم شکرگزاری کرتے رہو اور باایمان رہواللہ تعالیٰ بہت قدر کرنے والا اور پورا علم رکھنے والا ہے۔‘‘ یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کوانسانوں کے اعمال اور ان کی نیتوں کا پوری طرح پتہ ہے۔ جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی نعمتوں کو بڑھاتے چلے جاتے ہیں اوراگر انسان نا شکری کے راستے پر چلتا رہے ہے توجلد یا بدیر نعمتیں چھن جاتی ہیں اور نعمتوں پر زوال آجاتا ہے۔ چٹھہ صاحب کے گھر موجود احباب نے میری ان گزارشات کو بہت توجہ کے ساتھ سنا اور میں امید رکھتا ہوں کہ وہاں پر موجود دوستوں میں سے چند دوست آنے والی زندگی میں شکرگزاری کے راستے کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے ضرور اختیار کریں گے۔ قارئین کے سامنے بھی ان گزارشات کو رکھنے کا مقصد یہی ہے کہ شاید میری ان گزارشات کو پڑھنے کے بعد کوئی قاری اللہ تبارک وتعالیٰ کی شکر گزاری کے راستے پر چل کر زوال نعمت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوجائے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved