تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     28-07-2016

بیچاری تبدیلی

سندھ کی سیاست ‘ اجرک کے ڈیزائن ‘ سماجی زندگی ‘ طبقاتی نظام اور وڈیرا شاہی کے طور اطوار میں صدیوں سے ایک ہی طرزپرچلی آ رہی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کا سب سے زیادہ ترقی پسند اور انقلابی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو‘ سندھ میں پیدا ہوا۔ اس نے پاکستان کی سیاسی اور سماجی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں برپا کیں۔ لیکن پاکستان کے جاگیردارانہ نظام کے ہاتھوںشہید ہو کر‘ بھٹو سندھ کے مزاروں میں ایک مزار اور ایک پیر کا اضافہ کرنے کے سوا ‘ نیا سماج تخلیق نہ کر سکا‘ جس کا وہ پوری طرح اہل تھا۔ اس کا قصور بھی نہیں تھا۔ جتنی بڑی تبدیلی وہ لانا چاہتے تھے‘ پاکستان کے روایتی جاگیردارانہ سماجی ڈھانچے میں اس کی گنجائش نہیں ۔ پاکستان برصغیر کے جس حصے میں قائم ہوا‘ وہ تضادات سے بھرپور تھا۔ اس نے صنعتی عہد میں پہلا قدم بھی نہیں رکھا تھا اور سیاست کے میدان میں ‘وہ ہندوستان کی صنعتی‘ تعلیمی‘ سیاسی اور سماجی زندگی میں بہت پیچھے تھا۔ بنگال جو پورے کا پورا پاکستان میں شامل ہو سکتا تھا‘ اس کا صرف مشرقی حصہ پاکستان کو ملا‘ جو اپنے صوبے کا پسماندہ ترین علاقہ تھا اور صنعت و تجارت میں متحدہ ہندوستان کا ترقی یافتہ علاقہ مغربی بنگال تھا‘ جو بھارت کے حصے میں گیا۔ یہی صورتحال مغربی پاکستان میں تھی۔ پنجاب کا جو حصہ تعلیم و ترقی کے عمل میں آگے بڑھ رہا تھا‘ وہ بھارت کو مل گیا اور انتہائی پسماندہ علاقہ پاکستان کو ملا۔ یہی وہ سماج تھا‘ جس میں نوزائیدہ پاکستان کو گردوپیش کی دنیا میں اپنا مقام حاصل کرنا تھا۔ پاکستان میں کوئی سیاسی نظام موجود نہیں تھا اور نہ ہی ٹریڈیونین اور سیاسی جماعتوں کی کوئی روایت تھی۔ معیشت زرعی تھی اور سیاست وڈیروں‘ جاگیرداروں‘ سرداروں اور خوانین کے کنٹرول میں تھی‘ جو بھارت کی ترقی یافتہ سیاست سے بہت پیچھے تھی۔ پاکستان کو جو سیاسی قیادت میسر آئی‘ وہ ہندوستان کے نسبتاً ترقی یافتہ علاقوں سے آئی تھی اور مغربی پاکستان کے جاگیردارانہ نظام میں‘ ترقی یافتہ سیاسی روایات ‘ سماجی حقائق کی پسماندگی میں جڑیں نہ پکڑ سکیں۔
میری یہ بات چند الفاظ میں واضح ہو سکتی ہے کہ ہم نے ہندوستان کی ترقی یافتہ سیاست کی روایت سے جڑے ہوئے‘ ان تمام لیڈروں کو کسی نہ کسی انداز میں ملکی سیاست کے منظر سے ہٹا دیا۔ کسی کو قتل کیا۔ کسی کو سیاست سے باہر کر دیا۔ کسی کو ناکامیوں اور محرومیوں کے اندھیروں میں دھکیل دیا اور بدترین مثال یہ ہے کہ ہم نے بانی پاکستان کو بھی‘ ایئرپورٹ سے شہر تک کے راستے میں‘ بے یارومددگار ‘ زندگی کے آخری سانس لینے پر مجبور کر کے‘ اپنی دنیا سے باہر کر دیا۔ لیاقت علی خان کو شہید کیا۔ بھٹو کو پھانسی لگائی۔ سہروردی کو مایوسیوں اور ناکامیوں میں دھکیل کر جلاوطنی کی موت مارا۔ غرض یہ کہ جہاں جہاں بھی انسانی تجربے اور ذہانت کی روشنی موجود تھی‘ ہمارے سماج نے اسے بجھا کر رکھ دیا۔ ہمارے پاس اندھیروں کے سوا کچھ نہ رہا۔ ہم آج تک انہی اندھیروں میں قدم بقدم تاریخ کی شاہراہ پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ جہالت اور پسماندگی کے اندھیروں سے نکل کر‘ ہم تنگ نظری اور عقائد کے خونریز راستوں پر چل نکلے ہیں۔ مختلف کہانیوں اور طورطریقوں سے‘ ہم ایک ہی تاریکی اور ایک ہی جہالت کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ 
ہم نے جہالت‘ بے ہنری اور تہذیبی ترقی سے منہ موڑ کے ‘ اپنے لئے جو راستہ چنا‘ اس کی مثالیں ہمارے پورے ملک میں قدم قدم پر دکھائی دے رہی ہیں۔ سندھ میں ایک پیر اور وڈیرے کی جگہ‘ دوسرے نے لی اور ہم نے اسے ''تبدیلی ‘‘کا نام دیا اور آج میں نے اس پر لکھنے کا ارادہ کیا‘ تو اپنے آپ کو سوچوں‘ خیالوں اور تصورات کے صحرا میں تنہا پا رہا ہوں۔ میرے سامنے وہی غلاموں اور آقائو ں کی منڈیاں ہیں۔ جہالتیں پھیلاتی‘ قدیم و جدید درسگاہیںہیں اور سماج کی پسماندگی ‘ روایتی تبدیلی کے اسی راستے پر گامزن ہے‘ جو صدیوں سے ایک کینچلی اتار کے‘ دوسری کینچلی میں آنے کو‘ تبدیلی قرار دیتی ہے۔ میں حیران ہوں کہ جس عمل کو پاکستان میں تبدیلی قرار دے کر‘ تبصرے اور تجزیئے کئے جا رہے ہیں‘ اس میں وہ چیز کیسے تلاش کروں؟ جسے دنیا ''تبدیلی‘‘ کہتی ہے۔ پاکستان میں جنم لینے والی کوئی بھی انسانی فصل ‘ اس تبدیلی سے ناآشنا ہے‘ جو ترقی اور جدت کی راہوں پر آگے بڑھتی ہے۔ ہم اجتماعی طور پر حالت جمود میں ہیں۔ ہماری سیاست ویسی کی ویسی ہے‘ جو ہمیں اپنا ملک حاصل کرتے وقت‘ پرانی نسلوں سے ملی۔ صرف ایک شخص‘ جس کا نام ذوالفقار علی بھٹو تھا‘ وہ ہمارے ملک کے سب سے دقیانوسی‘ عقیدہ پرست اور جہالت میں ڈوبے ہوئے معاشرے میں پیدا ہوا۔ بیرونی تعلیم نے اس کی خداداد صلاحیتوں کو جلا دی۔ سماجی روایات نے اسے نسلی سیاست کے راستے پر ڈالا۔ جن قدامت پرستوں کو وہ تبدیلی کے راستے پر چلانا چاہتا تھا‘ انہوں نے اسے پھانسی دے دی۔ عقیدت مندوں نے اس کا مزار بنایا۔ سندھ کے پرانے مزاروں میں‘ ایک نئے مزار کا اضافہ ہو گیا۔ بھٹو کی بیٹی نے اپنے باپ کے راستے پر چلنے کی کوشش کی۔ اسے بھی شہید کر کے‘ سندھ میں نیا مزار بنا دیا گیا۔ اب وہاں چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں اور قدیم ریت رواج میں‘ ایک نئی ریت کا اضافہ ہو گیا‘ جو یہ ہے ''ووٹ بھٹو کا اور نذرانہ پیر سائیں کا‘‘۔ 
سندھ کے تعلیم سے محروم معاشرے میں‘ آج بھی لوگ ایک نئے پیر کی حیثیت سے اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔ تعصبات کی تاریکیوں نے‘ بھٹو کے نام کو اپنی آغوش میں لے کر‘ پاکستان کی سیاسی اور سماجی زندگی سے نکالنے کی جدوجہد شروع کر رکھی ہے۔ اب بھٹو صرف سندھ کے مریدوں کا ایک پیر ہے۔ مجاوری ایک چھوٹے سے زمیندار کے بیٹے نے‘ دامادی کے رشتے سے سنبھال لی ہے۔اب بھٹو کی گدی پر ایک چرواہے کا بیٹا براجمان ہے۔ روایت پسند سندھی معاشرے میںپرانے پیر کی جگہ ایک نئے پیر نے سنبھال لی ہے اور وہ ہے بھٹو کا نام‘ جس کا مجاور بھٹو کی نسل سے تعلق نہیں رکھتا۔ سندھ کی سیاست پہلے وڈیروں اور سیّدوں میں بٹی ہوئی تھی۔ اب یہ بھٹو اورسیّدوں میں تقسیم ہے۔ لیکن سیدوں کی سماجی طاقت بھٹو کے سامنے ماند پڑ گئی۔ اب سیّد ‘ بھٹو کی سیاسی طاقت سے فائدہ اٹھانے کے لئے‘ اس کی پارٹی میں شامل ہوتے ہیں اور یہی وہ ''تبدیلی‘‘ ہے‘ جو سندھی روایات میں رونما ہو رہی ہے۔ 
بھٹو کی پارٹی ‘سندھ کی سیاست میںحرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے۔ ریاستی طاقت نے وہاں بھٹو کو سیاسی منظر سے ہٹا کر‘ متعدد تجربے کئے۔ لیکن بھٹو کی سیاسی طاقت کو ختم کرنے میں ناکام رہی۔ قدیم سندھی تہذیب کا بڑا سائیں‘ جو سیّد کی شکل میں سماجی برتری سے لطف اندوز ہو رہا تھا‘ آج وہ آہستہ آہستہ سیّد کی روایتی سماجی برتری پر بھٹو کا رنگ چڑھا کر‘ اقتدار سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ ریاستی طاقت نے متعدد ناکام تجربوں کے بعد‘ آخر کاربھٹو کے نام کو تسلیم کر لیا اور سندھی تہذیب میں‘ سیّد نے بھٹو کی اجرک اوڑھ کر‘ سماجی برتری کا نیا فارمولا تلاش کر لیا۔ گزشتہ آٹھ سال قائم علی شاہ اقتدار میں رہے۔ ان سے پہلے سیّد عبداللہ شاہ سندھ کے وزیراعلیٰ رہے۔ اب قائم علی شاہ گئے ہیں‘ تو پھر سے اقتدار عبداللہ شاہ کے گھر میں چلا گیا۔ ''سیّد پلس بھٹو‘‘ کا یہ فارمولا اب سندھی سیاست کے اقتدار کی ایک نئی کیمسٹری سامنے لا رہا ہے۔ بلوچ سرداروں کے معاشرے میں‘ ایک محنت کش بلوچ کا بیٹا‘ دامادی کے بل بوتے پر حکمران طبقوں کا حصہ بننے میں مشکلات سے دوچار رہے گا۔ سندھ کے ایک قابل احترام سیّد خاندان کے سربراہ‘ پیر صاحب پگاڑا شریف نے‘ بھٹو ازم کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو کبھی برابر کا درجہ نہیں دیا۔نئے پیر پگاڑا‘ بھٹو کی پارٹی کے ایک سیّد وزیراعلیٰ کے گھر بڑی خوشی سے چلے گئے۔ سیاست نے پگاڑا خاندان کو تقسیم کیا تھا۔ سیاست نے ہی اسے قریب کرنے کی راہ ڈھونڈ لی ہے۔ پیرپگاڑا کی میزبانی کر کے مرادعلی شاہ‘ مخدوم طالب المولیٰ کے فرزند کے گھر چلے گئے۔سندھ کی آئندہ سیاست میں سیّدوں کی برتری بحال ہو رہی ہے اور ایک محنت کش کا بیٹا‘ سرداروں کے نئے سماج میں‘ جگہ ڈھونڈنے کی جدوجہد ضرور کرے گا۔ لیکن صدیوں کی روایات پر غالب آنا‘ اس کے لئے آسان نہیں۔بھٹو کا نواسہ سندھی سماج میں‘ نانا کا ورثہ حاصل کرنے میں دشواریوں کا سامنا کرے گا اور رہ گیا باپ کا ورثہ؟ پنجاب کے نئے حکمران خاندان میں‘دامادی کے بل بوتے پر‘ شاہی کروفر میں کسی کو حصہ نہیں ملے گا۔روایات اور ریت رواج کے بندھنوں میں جکڑا ہوا ہمارا یہ معاشرہ ‘یونہی سست رفتاری سے تاریخ کے ریتلے راستوں پر چلتا رہے گا۔علم و ہنرسے فیض یاب ہونے والے افراد‘ آگے نکلنے والوں سے جا ملیں گے اور ہجوم ‘ پیروں فقیروں کے مزاروں پر دھمالیں ڈالتا رہ جائے گا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved