تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     28-07-2016

27ویں شب کا مسافر

کیا آسماں لوگ تھے جو پیوند خاک ہوگئے ؎
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوںکہ اے لیئم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے؟
وہ اپنی ذات میںادارہ تھے اور ادارہ ساز بھی، عظیم شخصیت بھی تھے اور شخصیت ساز بھی۔ ایسے برگد نہیں کہ جس کے نیچے دوسرے پودے تن آور نہ بن سکیں۔ مجید نظامی صرف 34 برس کے تھے جب بانی نوائے وقت اپنی یہ امانت، اپنے سے 13 سال چھوٹے مجید کو سونپ کر اگلے جہان روانہ ہوگئے۔
یہ پاکستان میں پہلے مارشل لاء کا دور تھا۔ جواں سال مجید نظامی کو آٹھ صفحے کا اخبار ہی نہیں، اس کی روایات بھی ملی تھیں۔ یہی روایات اس اخبار کا اثاثہ تھیں اور مجید نظامی کو ان ہی روایات کے ساتھ اس اخبار کو زندہ رکھنا تھا۔ ادھر معاملات اتنے دگرگوں تھے کہ سٹاف کو تنخواہ بھی قسطوں میں ملتی۔ اس صورتِ حال پر عطاء الحق قاسمی نے ایک نظم لکھی، جس کا یہ شعر زبان زدِ خاص و عام ہوگیا ؎
بنتے تو چار سو ہیں، فی الحال چار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ
مجید نظامی صاحب کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے حمید نظامی کے ماٹو، جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنے کا بھرم بھی رکھا اور اسے پاکستان کا ایک بڑا میڈیا ہائوس بھی بنا دیا۔ فوجی آمریت کے ادوار ہوں یا سول آمریت کا زمانہ، وہ ہر دور میں اپنے دل کی بات، بلاخوف و خطر زباں پر لے آتے۔ ڈکٹیٹروں کے ساتھ ان کے بعض مکالمے تو تاریخ کا حصہ بن گئے۔
انہیں اپنی بات کہنے کا سلیقہ بھی آتا تھا۔ وہ کہا کرتے تھے، اخبار بند کروالینا اور جیل چلے جانا یقینا ایک مشکل کام ہے، لیکن اس سے بھی مشکل یہ کہ آپ اپنی بات اس سلیقے اور اس قرینے سے کہیں کہ حکمران تلملا کر رہ جائیں لیکن قانون کی آڑ لیکر آپ پر ہاتھ نہ ڈال سکیں۔ 2جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں ان کا اخبار، فوجی ڈکٹیٹر کے مقابلے میں مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کا پُرجوش حامی تھا۔ قائداعظم کی بہن کو بدترین دھاندلی کے ذریعے ہرا دیا گیا۔ الیکشن رزلٹ کی خبر دیتے ہوئے مجید نظامی ایک بڑی آزمائش سے دوچار تھے... ''ایوب خاں جیت گئے‘‘... لیکن وہ تو دھاندلی سے جیتے تھے۔ ''مادر ملت ہار گئیں‘‘... لیکن انہیں تو دھاندلی سے ہرایا گیا تھا۔ تو پھر ہیڈ لائن کیا ہو؟ جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔''الیکشن کمشن نے ایوب خاں کی کامیابی کا اعلان کر دیا‘‘۔
وہ نظریاتی صحافت کے علمبردار تھے لیکن اس نظریے سے اختلاف کی بھی ان کے اخبارمیں معقول حد تک گنجائش تھی، چنانچہ عبداللہ ملک جیسے پکے کمیونسٹ کا کالم بھی ان کے ادارتی صفحات پر چھپتا رہا۔ ان کے اخبار پر مسلم لیگ کی چھاپ تھی ، لیکن عباس اطہر (مرحوم) جیسا بھٹو کا جیالا بھی ان کا نیوز ایڈیٹر رہا۔ صفحہ دو پر ان کا کالم بھی چھپتا تھا۔ہمارے ایڈیٹر نذیر ناجی صاحب بھی برسوں نوائے وقت میں چھپتے رہے۔
نظامی صاحب قدر سے کم آمیز تھے اور کم گو بھی چنانچہ ان کے بارے میں بہت سی غلطیاں بھی پائی جاتی تھیں، مثلاً یہ کہ وہ ایک سخت گیر شخص ہیں۔ حالانکہ آہنی اعصاب کا حامل یہ شخص اپنے پہلو میں دلِ درد مند بھی رکھتا تھا۔
اپنے سٹاف سے ان کا رابطہ براہِ راست نہیں تھا چنانچہ اکثر کارکنوں کو شکل سے پہچانتے بھی نہیں تھے۔ انہیںجو بھی کہنا ہوتا، متعلقہ شعبے کے انچارج سے کہتے۔ وہ لفٹ سے نکلتے اور سامنے اپنے دفتر میں چلے جاتے ۔ نیوز روم، رپورٹنگ روم، ایڈیٹوریل روم یا کسی اور شعبے میں شاید ہی کبھی قدم رکھا ہو۔ مجھے یاد پڑتا ہے، نوائے وقت سے میری پانچ سالہ وابستگی کے دوران انہوں نے صرف ایک بار اپنے دفتر میں رپورٹرز میٹنگ بلائی۔ اٹھارہ، انیس رپورٹر موجود تھے۔ دو، چار سینئرز کے سوا اکثر چہرے نظامی صاحب کے لیے نئے تھے۔ انور قدوائی ہمارے چیف رپورٹر تھے۔ مسکراتے ہوئے انہیں مخاطب کیا، ''ماشاء اللہ، قدوائی الیون‘‘ تو کافی بڑی ہے۔
نوائے وقت سے وابستگی سے قبل مجھے شامی صاحب کے ہفت روزہ کے لیے نظامی صاحب سے طویل انٹرویو کرنا تھا۔ یہ ایک طرح کا بائیوگرافک انٹریو تھا جس میں ان کی زندگی کے بعض اہم پہلو بھی سمٹ آئے تھے۔ قدرے سخت سوالات کا بھی انہوں نے مسکراتے ہوئے تفصیل کے ساتھ جواب دیا، مثلاً 1969ء میں نوائے وقت سے ان کی علیحدگی (اور روزنامہ ندائے ملت کا اجرائ) ایک اور سوال کچھ یوں تھا، آپ ملک میں جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔ یونین سازی ایک معروف جمہوری حق ہے لیکن خود آپ کے ادارے میں ورکرز یونین بنانے کی اجازت نہیں۔ اور اسی طرح کے چند اور سوالات لیکن نظامی صاحب کے چہرے پر ناگواری کا ذرہ برابر تاثر نہ تھا۔ اس طویل انٹرویو کے دوران انہوں نے دوبار چائے منگوائی اور دونوں بار بسکٹ پیش کیئے۔ سٹاف میٹنگ میں وہ اپنے رفقاء کو اختلاف رائے کا حق بھی دیتے، اختلافی نقطۂ نظر بھی توجہ سے سنتے اور اگر اس میں وزن پاتے تو اپنی رائے سے رجوع بھی کرلیتے۔
سیاسی و نظریاتی اختلاف کو وہ ذاتی دشمنی نہیں بناتے تھے۔ مولانا مودودیؒ کی وفات کی خبر آئی تو وہ سب سے پہلے 5 اے ذیلدار پارک اچھرہ پہنچنے والوں میں شامل تھے۔ امریکہ سے تین روز بعد مولانا کی میت کی آمد اور اگلے روز تدفین تک وہ روزانہ مولانا کے ہاں آتے رہے۔
1993 ء میں صدرغلام اسحاق خاں اور وزیراعظم نواز شریف کے مابین چپقلش میں ولی خاں، نواز شریف کی حمایت کر رہے تھے۔ خان صاحب لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں زیرِعلاج تھے۔ صدر نے پیغام بھجوایا اور حیرت کا اظہار کیا کہ پختون لیڈر، پختون صدر کی بجائے پنجابی وزیراعظم کی حمایت کر رہا ہے۔ ولی خان کا جواب تھا، مسئلہ پختون، پنجابی کا نہیں۔ بالادستی کی خواہش مند اسٹیبلشمنٹ اور ''ڈکٹیشن‘‘ کا انکار کرنے والے منتخب وزیراعظم کا ہے۔ اسلام آباد میںایک سیمینار میں اجمل خٹک (مرحوم) بھی نظامی صاحب کے ساتھ اسٹیج پر تھے۔ جنابِ نظامی نے ولی خاں اور ان کی پارٹی کے اس کردار کی دل کھول کر تحسین کی۔
میاں محمد شریف (مرحوم) نظامی صاحب سے ایک خاص تعلق رکھتے تھے۔ نواز شریف اور شہباز شریف سمیت ساری شریف فیملی نظامی صاحب کو خاندان کے بزرگ کا درجہ دیتی تھی۔ کئی نازک مواقع پر وہ نظامی صاحب سے مشاورت اور رہنمائی حاصل کرنے ان کے ہاں بھی آئے۔ اس گہرے ذاتی تعلق کے باوجود، وہ شریف برادران کی جس پالیسی کو غلط سمجھتے، اسے ہدفِ تنقید بنانے سے گریز نہ کرتے۔
پاکستان کا قیام27 ویں رمضان کو عمل میں آیا تھا۔ قدرت نے پاکستان کے اس سچے عاشق کے نصیب میں بھی یہی مقدس رات لکھی تھی۔ رات کے آخری پہر جب کروڑوں سر اپنے رب کے حضور جھکے ہوتے تھے، نظامی صاحب اس دنیا سے رخصت ہوئے اور اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے۔27 ویں شب کے اس مسافر کو ہمارا سلام!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved