لاہور کی ایک کشادہ سڑک ہے۔ اس پر ہر طرح کا ٹریفک رواں دواں ہے۔ گھوڑوں‘ گدھوں‘ بیلوں اور انسانوں سے چلائی جانے والی گاڑیاں رواں دواں ہیں۔ رکشوں کی بھرمار ہے۔ ٹرکوں کی یلغار ہے۔ بسوں اور ویگنوں کی دوڑیں لگی ہیں۔ موٹرسائیکلوں کے مختلف کرتب دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ یہ اتنے متنوع ہیں کہ تفصیل بیان کرنا دشوار ہے۔ پہلے ایسے مناظر کراچی میں دیکھنے کو ملتے تھے۔ لیکن اب لاہور ترقی کرتا نظر آ رہا ہے اور یہی عالم رہا تو وہ دن دور نہیں‘ جب لاہور کراچی کو بھی پیچھے چھوڑ جائے گا۔ ایسے مناظر تو گزشتہ چند روز میں ‘آپ نے مختلف ٹیلیویژنز پر دیکھے ہوں گے کہ نوجوانوں کی ٹولیاں‘ موٹرسائیکلوں پر ٹریفک کے رش میں‘ مچھلی کی طرح لچکتی ہوئی‘ تیزرفتاری سے نکل رہی ہیں۔ پچھلی نشست پر کوئی مسلح شخص بیٹھا ہے اور جہاں دل چاہتا ہے فائرکرکے سارے ٹریفک کو ہراساں کر دیتا ہے۔ کسی جگہ سڑک کے عین درمیان‘ آوارہ گردوں کا ایک ٹولہ کھڑا فائرنگ کے کرتب دکھا رہا ہے۔ ہمارے ایک ٹی وی چینل کے اینکر حیرت سے سوال کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ''یہ آسمان کی طرف نشانے باندھ کر گولیاں چلانے والے آخر کس کا نشانہ لگا رہے ہیں؟ وہ کونسی آسمانی مخلوق ہے‘ جسے یہ مارنے پر تلے ہیں؟‘‘ تھانوں میں ہونے والے تشدد کے مناظر سے تو یوں لگتا ہے کہ اب باقاعدہ شوٹنگ میں عکس بند کئے جاتے ہیں۔ اس شعبے میں پنجاب‘ دوسرے صوبوں سے بہت آگے لگتا ہے۔ صوبہ خیبرپختونخوا‘ بلوچستان اور شہری سندھ میں‘ یہ تماشے نہیں دکھائے جاتے۔ وہاں سنائپرز چشم زدن میں اپنا کرتب دکھا کر‘ سڑک پہ تڑپتی لاشیں چھوڑتے ہوئے‘ تیزرفتاری سے نکل جاتے ہیں۔ لیکن پنجاب کے تھانوں میں‘ باقاعدہ تشدد کے تماشے دکھائے جاتے ہیں۔
آپ نے ایک مضافاتی تھانے کا منظر ٹیلی ویژن پر دیکھا ہو گا‘ جہاں پولیس کے سپاہی‘ نہتے انسانوں کو زمین پر الٹا لٹا کر چھتر مارتے ہیں۔ اردگرد تماشائی‘ اس بے بس انسان کی درگت بنتے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ دردناک چیخوں کی آوازیں دور تک دلوں کو دہلاتی ہیں۔ کوئی اس مجرمانہ اور وحشیانہ تماشے پر ‘پولیس کی روک ٹوک کرنے والا نہیں ہوتا۔ میں بھی دیہی علاقے کا رہنے والا ہوں اور تھانوں میں مظلوموں کی پٹائی ہوتے بھی دیکھی ہے۔ لیکن جو تماشے آج کل لگائے جاتے ہیں‘ انہیں دیکھ کر تو پرانے زمانے کی پولیس اناڑی لگتی ہے۔ زیادہ دنوں کی بات نہیں۔ خواتین کا کسی حد تک احترام کر لیا جاتا تھا۔ لیکن اب تو خواتین پر پولیس والوں کے ہاتھ‘ ٹھڈے‘ ڈنڈے اور بندوقوں کے بٹ آزادی اور بے دریغی سے استعمال کئے جاتے ہیں۔ کوئی یہ تمیز کرنے کی زحمت نہیں کرتا کہ قدرت کی نازک اور کمزور مخلوق کو‘ نشانہ بناتے وقت ذرا سی تمیز کر لی جائے۔ خواتین کو تھپڑ‘ ٹھڈے اور ڈنڈے مارتے وقت‘ وہی وحشیانہ طرز عمل اختیار کیا جاتا ہے‘ جو جرائم پیشہ مردوں سے روارکھا جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ بعض اہلکار تومظلوم خواتین کی چیخیں اور کراہیں سن کر زیادہ جوش اور مستی میں آ جاتے ہیں اور بے بس عورتوں کے بین سن کر زیادہ سرشار ہوتے ہیں۔
بچے کو پیار کرنا اور بہلانا تو انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ مگر میں نے اپنی عمر کے آٹھویں عشرے کے آغاز میں جو کچھ دیکھا‘ و ہ کبھی مشاہدے میں نہیں آیا۔ پولیس کے شیر جوان‘ چھ سات سال کے بچوں کو ‘جس بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بنا کر خوش ہوتے ہیں‘ اسے دیکھ کر تو یوں لگتا ہے کہ وہ بچوں کی تڑپ دیکھ کر‘ ان کی آہ و بکا سن کر لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔ کاش! آپ کو ایک دو دن پہلے پولیس وین کے اندر کا‘ وہ منظر ٹی وی پر دیکھنے کا موقع ملا ہو‘ جس میں جاہل والدین کے ایک مظلوم بیٹے کوپولیس اٹھا کر لے جا رہی تھی۔ یہ بدقسمت بچہ‘ اپنے بزرگوں کی خواہشات پوری کرنے کے لئے دولہا بنا بیٹھا تھا۔ کسی کی شکایت پر پولیس وہاں پہنچی۔ براتی تو بھاگ گئے اور گلے میں ہار ڈالے ‘وہ معصوم بچہ بیٹھے کا بیٹھا پولیس کے ہاتھ لگ گیا۔ پولیس اسے اٹھا کر بے رحمی سے گھسیٹتی ہوئی اپنی وین کے پاس لائی اور یوں پھینکا جیسے بھیڑ بکریاں پھینکی جاتی ہیں۔ اسے پولیس وین کے اندر لمبی نشست پر بٹھا دیا گیا اور بے رحم اہلکار اسے تھپڑ مارتے اور اس کے ہاتھوں اور بانہوں کو مروڑتے ہوئے ‘ہنس ہنس کر اس سے شادی کا مطلب پوچھ رہے تھے۔ یوں لگتا ہے کہ پولیس کی بنیادی تفریح‘ بچوں اور عورتوں پر تشدد کے نئے نئے طریقے ایجاد کرنا ہے۔
بھٹہ مزدوروں کی ایک الگ زندگی ہے۔ ان کے بچے اور عورتیں ‘ بھٹہ مالکوں اور ان کے منشیوں کے کھلونے ہیں۔ ان کی جنسی خواہشات کو پورا کرنا‘ بھٹہ مزدوروں کے بیٹے بیٹیوں کی ڈیوٹی کا حصہ ہے۔ حال میں بھٹہ مزدوروں کے ایک لڑکے لڑکی کی شادی پر تفریح کا نیا منظر سامنے آیا۔ شادی کے جرم میںنوجوان دلہن کو اذیت پسند منشیوں اور نوکروں نے ‘کس طرح اپنی تفریح کا ذریعہ بنایا؟ یہ کہانی دہکتی راکھ کے اندر جل کر راکھ ہو گئی۔ اخباروں اور ٹی وی پر دو چار خبریں آئیں اور اوجھل ہو گئیں۔ جاگیردارانہ شوق ‘ ہمارے حکمران طبقوں میں ‘یوں تیزی سے پھیلے ہیںکہ اب الیکشن میں ہارنے والے کو‘ منہ دکھانے کے لائق بھی نہیں چھوڑا جاتا۔ مخالف امیدوار اگر کمزور ہو‘ تو اسے یہ سہولت بھی نہیں ملتی کہ اپنے افراد خاندان کے ووٹ لے سکے۔ آج کے حکمران طبقے‘ ستر اسی فیصد سے زیادہ ووٹ لے کر‘ صرف کامیابی پر قناعت نہیں کرتے‘ شان بھی دکھاتے ہیں۔مظلوم کشمیریوں کو گزشتہ دنوں حکمرانوں نے ‘الیکشن کے تجربے سے گزرنے کا موقع دیا اور پھر جو کچھ ووٹروں کے ساتھ ہوا‘ وہ میڈیا پر ممنوع تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی افواج اور پولیس ‘ نہتے عورتوں اور بچوں پر تشدد کرتے ہیں۔ وہ ٹی وی پر بھی دکھائی دے جاتا ہے۔ لیکن آزاد کشمیر کے ووٹروں کو جن تجربات سے گزرنا پڑتا ہے‘ وہ میڈیا پر بھی دکھائی نہیں دیتے۔ ہمارے حکمران‘ میڈیا پر کنٹرول کرنے کی جتنی مہارت رکھتے ہیں‘ دنیا میں الیکشن کا تماشا لگانے والی‘ شاید ہی کسی قوم کے حکمرانوں کو حاصل ہو؟ آزاد کشمیر کے رہنے والے‘ ضرورت کا سارا سامان‘ پاکستان سے خریدتے ہیں۔ پاکستان کی حکومت پر چینی بنانے اور بیچنے والوں کا قبضہ ہے۔ پہلے تو شوگرملوں کے مالکان طبقاتی اجارہ داری کے ذریعے منڈیاں کنٹرول کرتے تھے۔ اب ریاستی قوانین کی طاقت سے‘ نفع خوری کرتے ہیں۔ آپ نے اخباروں میں پڑھا ہو گا کہ حکومت نے‘ شوگر ملیں لگانے کے نئے اجازت نامے دینا بند کر دیا ہے۔ ادھر یہ خبر آئی‘ ادھر مل مالکان یعنی ہمارے حکمرانوں نے‘ چینی کے ریٹ 53 روپے سے 73 روپے فی کلو کر دیئے۔ یہی صورتحال آٹے‘ دالوں‘ سبزیوں اور دیگر اشیائے ضرورت کی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگ اپنی ضرورت کا سامان‘ پاکستانی منڈیوں سے بھی مہنگا خریدتے ہیں۔ جبکہ انہیں محنت مشقت کا معاوضہ پاکستانیوں سے کم ملتا ہے۔ لیکن انہوں نے‘ پاکستان کی حکمران جماعت کو جس وارفتگی سے بے تحاشا ووٹ دیئے‘ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کی جمہوریت کے خواب دیکھنے والا عمران خان‘ اس غلط فہمی میں تھا کہ وہ جمہوری تحریک چلا کر‘ پاکستان میں ووٹ حاصل کر لے گا۔ اسے اپنے حامی بھی مل گئے۔ پیار کرنے والے بھی دستیاب ہو گئے۔ ایسے لوگ بھی جو حقیقی جمہوریت کے منتظر تھے‘ وہ بھی عمران خان کے ساتھ آ ملے۔ اس کے جلسوں اور جلوسوں میںعوام کی بھاری شرکت دیکھ کر‘ حکمرانوں نے کیا کیا؟ کوئی رعایت نہیں دی۔ زندگی میں کوئی آسانی فراہم نہیں کی۔ روزگار نہیں کھولا۔ دال روٹی کی قیمتیں کم نہیں کیں۔ پولیس کا ڈنڈا ڈھیلا نہیں کیا۔ صرف پنجاب میں آزمایا ہوا ایک حربہ استعمال کیا اور نتیجہ وہی نکلا جو پنجاب میں نکلتا آ رہا ہے۔ مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات کے نتائج کا ‘کسی نے فرق پوچھا‘ تو جواب بہت تکلیف دہ تھا۔ مقبوضہ کشمیر والوں کوآزاد کشمیر کے مقابلے میں‘ ووٹ دینے کی زیادہ آزادی ہے۔ لیکن فرزندان و دخترانِ کشمیر کی زندگی میں زیادہ فرق نہیں۔ مقبوضہ کشمیروالے پانچ سات سال میں ایک مرتبہ سڑکوں پر نکل کر ‘دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں ۔ یہاں والے تو وہ بھی نہیں نکال سکتے۔ووٹ بھی نہیں ڈالتے اور نتیجے بھی خواہشوں کے خلاف نکلتے ہیں۔ جیل میں بھٹو صاحب کا پسندیدہ گیت تھا ''دکھاں دی ماری مینڈی جندڑی علیل اے۔‘‘بھٹو صاحب کے دل میں غریب عوام بستے تھے۔