تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     29-07-2016

شور شرابہ

قیامِ امن، روزگار، نظامِ انصاف، معاشی نمود، ٹیکس وصولی، پھر سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر تعلیم کا فروغ۔ باقی شور شرابہ ہے، باقی سب فلسفے ہیں۔ ملک کا ان سے بھلا نہ ہو گا۔ فقط عذاب کی نوعیت بدل جائے گی۔
غدار نہ سہی کہ ماضی میں یہ لفظ حکومتی مخالفین کے خلاف برتا جاتا رہا مگر ریاست کے خلاف بات کرنے اور اس کا انکار کرنے والے؟ اعلانیہ یا ڈھکے چھپے الفاظ میں جو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا کوئی جواز نہ تھا۔ دور از کار کے دلائل چھوڑیے، 1946ء کے الیکشن میں، 75.6 فیصد ووٹروں نے پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالا تھا۔
مکرّر عرض ہے کہ ذکر حکومت کے مخالفین کا نہیں۔ حکومت سے اختلاف کا حق کسی حال میں سلب نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح فوجی قیادت سے بھی۔ فوج کیا فرشتوں کی ہے کہ اس پر تنقید نہ کی جائے۔ یہ تنقید مگر پاکستانی عوام کے نقطہء نظر سے کی جائے گی، بھارت یا امریکہ کے تجویز کردہ خطوط پر نہیں۔ 
ایک آدمی جب یہ کہتا ہے کہ ''را‘‘ کبھی بیرونِ ملک آپریشن نہیں کرتی، آئی ایس آئی البتہ کرتی ہے تو اس کا مطلب کیا ہے؟ وزیرِ اعظم کے ایک حلیف ارشاد کرتے ہیں کہ پشتون علاقے کبھی افغانستان کا حصہ تھے تو وہ کیا پیغام دیتے ہیں؟ دہلی میں کھڑے ہو کر ایک لیڈر جب یہ فرمان جاری کرتا ہے کہ پاکستان کا قیام انسانی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی تھی تو کیا وہ یہ نہیں کہتا کہ پاکستان کی بساط لپیٹ دی جائے؟
غلطی سے نہیں، غلطی پر ڈٹ جانے سے تباہی آتی ہے۔ ''را‘‘ کو معصوم اور آئی ایس آئی کو مجرم قرار دینے والا اپنی غلطی تسلیم کرے۔ پشتون علاقوں کی تاریخ بے وقت کی راگنی ہے۔ وہ کبھی دہلی کے زیرِ نگین بھی رہے۔ جس آدمی نے دہلی میں کھڑے ہو کر پاکستان کو حرفِ غلط کہا تھا، وہ اعتراف کر لے اور معافی مانگے۔
جہاں تک حقوق طلبی کا سوال ہے تو جمہوریت نام ہی اسی کا ہے۔ ساٹھ برس تک قومی خزانے سے بلوچستان کو اس کا جائز حصہ نہ دیا گیا۔ پنجابی محاورے کے مطابق ہاتھوں سے دی گئی گانٹھیں دانتوں سے کھولی گئیں۔ شہری سندھ پر کوٹہ سسٹم مسلط کر دیا گیا۔ ملازمتوں کے دروازے ان پر بند کر دیے گئے۔ بلدیاتی الیکشن اوّل تو ہوتے نہیں، ہو جائیں تو انہیں اختیارات نہیں دیے جائیں گے۔ تجربہ تو یہ ہے کہ جماعتِ اسلامی کے نعمت اللہ خان اور ایم کیو ایم کے مصطفی کمال میئر بنے تو ترقی کے میدان میں شہر زقندیں بھرتا ہوا آگے بڑھا۔
مہاجروں اور بلوچوں ہی کا نہیں، یہ سارے ملک کا مسئلہ ہے۔ قبائلی بلوچستان، دیہی سندھ اور سرائیکی پٹی میں رلا دینے والی غربت ہے۔ افتادگانِ خاک کے لیڈر اکثر بے حس ثابت ہوئے۔ اپنے لوگوں کے حقوق کی بجائے اپنے لیے مراعات اور وزارتوں کے بھکاری۔ کشمیر اور شمالی علاقوں والے دانا ہیں۔ اپنے بچّوں کو پڑھانے، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کے لیے اپنا حصہ وصول کرنے میں مستعد۔ جو مطالبات منوا لیے، منوا لیے۔ باقی کے لیے جدوجہد جاری رکھتے ہیں۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد اختیارات صوبوں کے پاس ہیں۔ چھ عشروں تک خزانہ اور کوڑا مرکز کے ہاتھ میں رہا۔ صوبائی قیادتیں اب نیا ''استعمار‘‘ ہیں۔ سندھی جاگیردار کراچی سے انصاف نہیں کرتا؛ اگرچہ خود اپنے لوگوں کے باب میں بھی اتنا ہی سفاک ہے۔ پرویز خٹک نوشہرہ پر سرمایہ لٹاتے ہیں۔ شریف برادران کے لیے لاہور ہی سب کچھ ہے۔ گلبرگ کی سڑک پہ دو ارب لٹا دیے؛ حالانکہ بھلی چنگی تھی۔ ملتان روڈ پر گیارہ ارب لگے‘ اورنج ٹرین کے لیے کھدائی کے بعد پھر سے بنے گی۔ جنوبی پنجاب کے قبرستانوں اور ہسپتالوں تک کے فنڈز اس گاڑی کی نذر ہو گئے۔
پورا ملک یرقان (ہیپاٹائٹس) کی زد میں ہے۔ سکول اور ہسپتال برباد ہو چکے۔ 80 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ اڑھائی کروڑ بچّے سکول کا منہ نہیں دیکھتے۔ آدمی کی سب سے بڑی ضرورت روزگار ہے۔ اور سب کچھ گوارا کر بھی لے مگر بھوکا کیسے جیے؟ سرمایہ ملک سے باہر فرار ہو جاتا ہے۔ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کیوں نہیں؟ مظفر گڑھ میں حد نظر تک ریت کے ٹیلے ہیں۔ پانی موجود ہے مگر سرمایہ ان کے پاس کہاں۔ 40، 50 لاکھ روپے میں وگرنہ 25 ایکڑ سونا اگلنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ کارخانوں کے لیے زمین اگر مفت دے دی جائے، جس طرح چین میں دی جاتی ہے تو پانچ سات برس میں شرح ترقی شاید دس فیصد پہ جا پہنچے۔ ایک ڈیڑھ عشرے میں بے روزگاری کا نام و نشان تک نہ رہے۔ کان کنی اس کے سوا ہے۔ فواروں سے کھیتوں کو پانی دے کر 90 فیصد بچا لیا جائے تو کم از کم آٹھ گنا مزید رقبہ زیرِ کاشت آ جائے۔ اچھے بیچ، سستی کھاد ا ور کم نرخ کی بجلی اگر بھارت میں مہیا ہو سکتی ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں؟ جی نہیں، ایک دن، ایک آدھ سال میں نہیں مگر ابتدا تو کیجیے۔ 
پاکستان آئی ٹی کے پروگرام برآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ 1990ء میں آغاز کیا جاتا، جس کی بعض نے دہائی دی تھی تو ایک ارب ڈالر کی بجائے ہم بیس ارب ڈالر سالانہ کما رہے ہوتے۔ 
کیسے ہو مگر یہ کیسے ہو؟ حکمران جب ملک سے باہر کاروبار فرمائیں گے۔ یہ تاثر دیں گے کہ پاکستان غیر محفوظ ہے تو باقی لوگ ان کی پیروی کیوں نہ کریں گے۔ لو گ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں... اور سرمایہ بہت حساس ہوتا ہے۔ 
کبھی فوج حکومت پہ چڑھ دوڑتی ہے اور کبھی سیاسی قیادت اس کے خلاف سازش اور جوڑ توڑ میں لگی رہتی ہے۔ بہت سے لوگ بے چین ہیں کہ نواز شریف کو اکھاڑ پھینکیں۔ اللہ کے بندو، اس سے حاصل کیا ہو گا؟ پشتو محاورہ یہ ہے کہ پڑوسی کی دیوار گرنی چاہیے، خواہ میں اس کے نیچے دب کے مر جائوں۔ 
کوئی شبہ نہیں، شریف خاندان کا طرزِ حکمرانی غلط ہے اور یکسرغلط۔ شہباز شریف کے فرزند ان کے سیکرٹریٹ میں تشریف فرما رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آج اگر عمران خان کو اقتدار سونپ دیا جائے تو کیا وہ انقلاب برپا کر دے گا؟ پہلے اپنی پارٹی تو منظم کرے۔ تین برس میں پختون خوا میں کون سے چاند ستارے ٹانک دیے؟ سارا وقت ایجی ٹیشن میں برباد کر ڈالا۔ 
ایک ادارہ بچ رہا ہے، پاکستان آرمی۔ پاکستان کے سارے دشمن اس پہ پل پڑے ہیں۔ بھارت اور امریکہ ہی نہیں، ان کے تمام کارندے۔ وہ سارے شائیلاگ جو ایک پونڈ گوشت کا مطالبہ داغ رہے ہیں۔
ہر روز طرح طرح کی افواہیں ہم سنتے ہیں۔ شہباز شریف سپہ سالار سے ملے اور اپنی خدمات پیش کیں۔ اندر خانہ (In House) تبدیلی کی تیاری ہے۔ ٹیکنوکریٹس آرہے ہیں۔ آرہے ہوں گے مگر حاصل کیا ہو گا؟ ہاں، کچھ لوگوں کے جذبہء انتقام کی تسکین ہو جائے گی۔ اقتدار کے کچھ بھوکوں کا پیٹ بھر جائے گا، پھر وہی رونا پیٹنا۔
جی نہیں، ملک کو ایک جامع منصوبہ درکار ہے۔ قیامِ امن، روزگار، نظامِ انصاف، معاشی نمود، ٹیکس وصولی، پھر سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر تعلیم کا فروغ۔ باقی شور شرابہ ہے، باقی سب فلسفے ہیں۔ ملک کا ان سے بھلا نہ ہو گا۔ فقط عذاب کی نوعیت بدل جائے گی۔ 
پسِ تحریر: کراچی کے ایک صاحب نے شور اٹھایا کہ اس ناچیز نے مہاجروں کو ''بے حیا‘‘ کہا۔ ہرگز نہیں کہا، کبھی نہیں کہا۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ایسی گھٹیا بات زبان سے نکلے۔ بے حیا ضرور کہا مگر قاتلوں اور ان کے وکیلوں کو۔ نومبر 2011ء میں ذوالفقار مرزا نے مہاجروں کو گالی دی تو سب سے بڑھ کر ان کا دفاع کس نے کیا تھا؟... کس کس نے؟ ریکارڈ پر ہے، سب کچھ ریکارڈ پر۔ ہر چیز فنا ہو جاتی ہے‘ باقی صرف سچائی رہ جاتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved