تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     29-07-2016

کچھ اِدھر کی‘ کچھ اُدھر کی

...دُھندلی سی ایک تصویر دیکھ
ایک مؤقر قومی انگریزی روزنامے کی رپوٹ کے مطابق پنجاب کے حکمران سیاسی خاندانوں کی ملکیتی چھ شوگر ملوں نے حکومت کو چھ ارب روپے واپس کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اب یہ معاملہ ایک پارلیمانی کمیٹی کے پاس پہنچ چکا ہے جو اس پر اگلے ماہ غور کرے گی۔ دستیاب دستاویزات کے مطابق ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان نے جو کامرس منسٹری کا ایک ذیلی ادارہ ہے‘ پنجاب کی چھ شوگر ملوں کو زائد از دو ارب روپے وہاں سے چینی خریدنے کے لیے ادا کیے لیکن ان شوگر ملوں نے نہ تو حکومت کو چینی سپلائی کی اور نہ ہی روپے واپس کئے۔ ٹی سی پی افسران نے حکومت سے پیشگی اجازت لیے بغیر دو ارب روپے کی سرمایہ کاری کر دی۔ اُس اتھارٹی کا،جو پبلک فنڈ کا خیال رکھنے کی ذمہ دار ہے، کہنا ہے کہ یہ پبلک فنڈز غیر محفوظ ہیں۔ اس نے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی تحقیقات اور ذمّہ داروں کا تعین کیا جائے۔
پاکستان تمباکو بورڈ کے افسران نے جو کرپشن زدہ کامرس منسٹری کا ذیلی ادارہ ہے‘ 35ملین روپے 75ایکڑ زمین خریدنے پر خرچ کیے جو ملک کے مختلف حصوں میں واقع تھی اور جو تحقیقی مقاصد کے لیے خریدی گئی تھی۔ اس زمین پر بااثر لوگوں کا قبضہ ہے اور جو اسے خالی کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ پاکستان تمباکو بورڈ نے 50ایکڑ اراضی ضلع جام پور میں خریدی جو بعد میں صوبے کی مختلف بااثر شخصیات کے حوالے کر دی گئی دستاویزات کے مطابق پاکستان تمباکو بورڈ نے بلوچستان کے ضلع پشین میں25ایکڑ اراضی خریدی جس کے لیے 25ملین روپے ادا کیے گئے‘ اراضی کا قبضہ لیے بغیر اب اس پر مقامی لوگوں کا قبضہ ہے۔
پارلیمانی کمیٹی میں جمع کی جانے والی دستاویزات کے مطابق نعمان بشیر نے ‘ جس کی تعیناتی غیر قانونی ڈیکلیر کی جا چکی تھی‘ غیر قانونی طور پر بورڈ میں41افسر بھرتی کر لیے جس سے حکومتی خزانے کو 5ملین کا نقصان پہنچا ایکسپو لاہور کی انتظامیہ نے جو کہ کامرس منسٹری کا ایک اور ذیلی ادارہ ہے 163ملین کے خرچ سے 12چلرز خریدے تاکہ نمائش کے ہال کو ٹھنڈا رکھا جا سکے۔ ان میں سے صرف 6چلرز نصب کیے جا سکے جبکہ باقی ضائع ہو گئے۔ معاملہ کامرس منسٹری کے نوٹس میں لایا گیا لیکن اس نے کوئی کارروائی نہ کی۔ ذرائع کے مطابق ایکسپو لاہور نے غیر ضروری طور پر بہت مہنگے قالین2.5ملین کی لاگت سے خریدے جو بعد میں کہیں غائب ہو گئے۔
سٹیٹ لائف انشورنس کمپنی کے افسران کی بدعنوانی اورکاہلی کی وجہ سے سرکاری خزانے کو 3ملین کا نقصان پہنچا کیونکہ ان افسروں نے لوگوں کی طرف سے دائر کردہ ڈیتھ کلیمز کی پیش رفت میں تاخیر کر دی۔ نیشنل انشورنس کمپنی کی انتظامیہ‘ جو کہ ایک سرکاری ادارہ ہے اور جو اربوں روپے کے سکینڈل کی وجہ سے خبروں میں رہی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے عہد اقتدار میں برسر کار تھی‘ قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قانونی مشیر بھرتی کر لیے جس سے سرکاری خزانے کو 26ملین کا نقصان پہنچا۔ پاکستان ری انشورنس کمپنی لمیٹڈ جو کامرس منسٹری کا ایک اور ذیلی ادارہ ہے‘ کے افسران نے منظور نظر پالیسی ہولڈرز کے 84لاکھ رائٹ آف کر دیے جبکہ کمپنی کے سفری اور مشاورتی اخراجات میں ایک سال کے اندر147فیصد اضافہ ہوا۔ اخبار مذکورہ کی طرف سے کامرس منسٹر خرم دستگیر خان سے ان معاملات پر ان کے کمنٹس حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیا گیا لیکن یہی بتایا گیا کہ وہ ایک ڈنر میٹنگ میں مصروف ہیں! واضح رہے کہ یہ صرف ایک وزارت کے جزوی احوال ہیں...
لوہارا ترکھانا
ایک برادرِ اسلام نے مورخہ27جولائی کو اپنے کالم''ناتمام‘‘ بعنوان ''عجیب لوگ‘‘میں یہ شعر اس طرح نقل کیا ہے ؎
شیخ محشر میں جو پہنچے تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
شعر وزن سے محروم ہے ۔ یہ بھی نہیں کہ ٹائپ کی غلطی ہو یا کوئی لفظ اِدھر اُدھر ہو گیا ہو کیونکہ ان الفاظ کو کسی ترتیب سے بھی باندھیں پہلا مصرع بے وزن ہی رہتا ہے۔ ایک اور مشکل یہ رہی کہ شاعر کا نام بھی درج نہیں ورنہ اس کے کلام سے استفادہ کر لیا جاتا۔ البتہ لفظ''شیخ‘‘ کو نکال دیں تو مصرع موزوں ہو سکتا ہے یعنی ع
محشر میں جو پہنچے ہیں تو اعمال ندارد
لیکن اس میں کلیدی لفظ''شیخ‘‘ ہی ہے جس پر چوٹ کی گئی ہے اور جس کے بغیر شعر کا مزہ بھی نہیں آتا۔ میں عروض تو نہیں پڑھا اس لیے اس کی بحر نہیں بتا سکتا اور نہ ہی تقطیع کرسکتا ہوں‘ یقیناً اس بحر کا کوئی نام بھی ہو گا مثلاً بحر رجز یا بحرِ رمل وغیرہ۔ مجھے کسی شعر کے حوالے سے کوئی شک ہو تو حضرات ڈاکٹر تحسین فراقی یا ڈاکٹر خورشید رضوی سے پوچھ لیا کرتا ہوں۔ پوچھنے میںکوئی حرج بھی نہیں کہ آدمی سیکھتا تو عمر بھر ہی رہتا ہے لیکن ان میں سے اب اتفاق سے کوئی بھی دستیاب نہیں تھا۔ تاہم‘ شک بھی آدمی کو تبھی پڑ سکتا ہے اگر اس فن میں تھوڑی بہت آگاہی رکھتا بھی ہو یعنی کچھ اتا پتا ہو ہی تو آپ شک بھی کر سکتے ہیں۔ بہرحال‘ اٹکل سے‘ اور سمجھانے کی غرض سے عرض کرتا ہوں کہ اس کی بحریہ ہو سکتی ہے:
فعلن فعلا تن فعلا تن فعلن
چنانچہ اس حساب سے مصرع کے شروع میں لفظ شیخ آ ہی نہیں سکتا البتہ مصرع کے شکل یہ ہو سکتی ہے ع
محشرمیں گئے شیخ تو اعمال ندارد
مصرع موزوں تو ہو گیا لیکن میری نظر میں ڈھیلا ہے‘ یعنی اگر میں یہ مصرع کہتا تو ہرگز اس طرح نہ کہتا۔ واللہ اعلم بالصواب
ذاکر حسین ضیائی کبھی کبھار کچھ دوستوں کا کلام بھجواتے رہتے ہیں آج انہوں نے کراچی سے کاشف حسین غائر کے کچھ شعر بھجوائے ہیں کاشف کا شمار ہمارے عمدہ شعراء میں ہوتا ہے۔ اب تو انہوں نے خوب رنگ نکالنا شروع کر دیا ہے تازہ ''دنیا زاد‘‘میں ان کی غزلیں ایک سوغات سے کم نہیں۔ ان کے شعر دیکھیے:
اب راستے میں سوچ رہے ہیں حضور کیا
جب چل پڑے ہیں آپ تو نزدیک و دور کیا
خود کو سمیٹنا تھا تو کیوں اتنی دیر کی
اب چل پڑی ہوا تو ہوا کا قصور کیا
جس چیز کی بساط ابھی ہے ابھی نہیں
میرے عزیز کیجیے اُس پر غرور کیا
غائر یہ سارے ایک قبیلے کے لوگ ہیں
مرزا رسا و جون کیا انور شعور کیا
بس آخری شعر میں تھوڑی گڑ بڑ کر گئے ہیں جس کا ہرگزکوئی جواز نظر نہیں آتا‘ یعنی لفظ ''کیا‘‘ وزن سے باہر ہو گیا ہے کیونکہ مصرع کا وزن''ک‘‘ ہی سے پورا ہو جاتا ہے جبکہ ی اور الف زائد ہیں۔ مصرعے کا ہر وزن اور رواں ہونا تو شرائط اوّل میں سے ہے ورنہ کھینچ تان کر تو وزن پورا کر ہی لیتے ہیں کیونکہ اگر اس مصرع کو اسی طرح پڑھا جائے تو یہ کسی اور بحر میں داخل ہو جائے گا یعنی ع
بحرِ رجز میں ڈال کے بحرِ رمل چلے
آج کا مطلع
لہو کی سرسبز تیرگی ہے کہ رنگ اُڑتے لباس کا ہے
سمجھ میں آئے کہاں کہ منظر حواس کے آس پاس کا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved