کراچی کے وہ قاتل کیمرے‘ جو وہاں کی سڑکوں پر رونما ہونے والے واقعات کا ریکارڈ رکھنے کے لئے لگائے گئے ہیں‘ کسی کام نہیں آ رہے۔ زیورات کی دکانوں پر پڑنے والے ڈاکوں کے منظر دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے‘تو ان میں سے بھنبھناتی ہوئی مکھیاں نکلتی ہیں۔ ایک اور واردات کا سراغ لگانے کے لئے جب کیمرہ چلا کر دیکھا گیا‘ تو ایک بھارتی فلم شروع ہو گئی۔ ان کیمروں کا سب سے المناک واقعہ یہ ہوا کہ رینجرز کے دو جوان‘ کراچی کے ایک پررونق علاقے میں پارکنگ پلازہ کے اندر گئے‘ تو ان کے تعاقب میں آنے والے دو موٹرسائیکل سواروں نے غضب کا نشانہ لگاتے ہوئے‘ انہیں شہید کر دیا۔دونوں موٹرسائیکل سوار ‘رینجرز کی گاڑی کا تعاقب کرتے ہوئے آئے۔ رش والے موڑ پر ایک اتر کے گاڑی کے پیچھے بھاگنے لگا اور ذرا آگے چل کر پھر موٹرسائیکل پر بیٹھ گیا۔ دونوں موٹرسائیکلوں کی جوڑی ‘بائیں طرف سے گاڑی کے قریب پہنچی اور بدبختوں نے ایسی مہارت سے نشانہ لگایاکہ گولیاں رینجرز کے دونوں جوانوں کے عین سروں پر جا کر لگیں۔ ایک موقع پر ہی شہید ہو گیا جبکہ دوسرا ہسپتال پہنچ کر خالق حقیقی سے جا ملا۔
جب سے سندھ پولیس نے جرائم کا سراغ لگانے کے لئے کیمروں کا استعمال شروع کیا ہے‘ نہ صرف جرائم کی تعداد بڑھ گئی بلکہ مجرموں کی فنی مہارت میں اضافہ ہوگیا اور وہ ٹھیک ٹھیک نشانے لگانے لگے ۔ رینجرز کے دو جوانوں کی شہادت سے ان کیمروں کا ایک انوکھا استعمال سامنے آیا ہے۔ تخلیقی صلاحیتیں رکھنے والے تجارت پیشہ لوگ‘ ان کیمروں کو ٹھیکے پر لینے کی سکیمیں بنا رہے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ اگر شہر میں خالص شہد پیدا کرنے کے لئے ان کیمروں کے ٹھیکے لے کر‘ شہد کے چھتے لگا دیئے جائیں‘ تو یہ نفع بخش کاروبار رہے گا۔ پولیس ان کیمروں کی دیکھ بھال کے لئے جتنا خرچ کرتی ہے‘ اس کا بوجھ محکمے سے اتر جائے گا اور شہد سے جو آمدنی ہو گی‘ وہ تاجروں اور محکمے کے اخراجات پورے کرنے میں کافی مددگار ثابت ہو گی۔ نفع الگ ملے گا۔ اگر پورے کراچی میں کیمرے لگا کر شہد کے چھتوں سے پیداوار حاصل کرنا شروع کر دی جائے‘ توپاناما میں‘آف شور کمپنیاں بنائی جا سکتی ہیں۔ آپ کو شاید یقین نہ آئے کہ جب سے پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر شروع ہوئی ہے‘ پاکستان کے قومی وسائل ‘ہماری حکومتوں اور افسر شاہی کی ضروریات نہ صرف پوری کر رہے ہیں بلکہ دولت محفوظ کرنے کے لئے پاناماکے وسیع تر لاکرز بھی حکمرانوں اور افسروں کی
ضروریات آسانی سے پوری کر سکیں گے۔ آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ جب سے پاناما میں خزانے چھپانے کی سہولت میسر آئی ہے‘ حکمرانوں اور افسر شاہی کو قومی وسائل سے ضروریات پوری کرنے کے لئے کانٹ چھانٹ کرنے کا جوکھم نہیںاٹھانا پڑتا۔ اقتصادی راہداری کے تعمیراتی کام‘ آنے والے دس برسوں تک تو انشاء اللہ جاری رہیں گے۔ اس پر صرف ہونے والی رقم 46 ارب ڈالر ہے۔چینی خواہ کچھ بھی کر لیں‘ یہ 46 ارب کی رقم خرچ کرنے کے لئے پاکستانیوں سے بہرحال مددلینا پڑے گی۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ پاکستان جیساتہی دست ملک‘ جہاں سے نہ تیل نکلتا ہے اور نہ برآمد کرنے کے لئے گیس‘ ہمارے حکمرانوں نے اتنی دولت ہتھیا لی ہے کہ وہ تیل پیدا کرنے والے بادشاہوں‘ امیروں اور شیخوں کے برابر نہیںتو بہرحال زیادہ دولت مندضرور ہو چکے ہیں۔
صحرا نشینوں کو جدیدرہائشی سہولتوں سے فیضیاب ہونے کے طور طریقے نہیں آتے۔ وہ مغربی ملکوں میں اپنے بڑے بڑے محلات تعمیر کر کے خوش رہتے ہیں۔ انہیں پتہ ہی نہیں کہ مے فیئر کے انتہائی مہنگے فلیٹ‘ جو باہر سے عام سی عمارتوں کا حصہ لگتے ہیں‘ وہ اندر سے کیسے کیسے شاہی لوازمات سے آراستہ ہیں؟ ان شیخوں اور امیروں کے بنائے ہوئے محلات‘ لاکھوں اور کروڑوں میں بنے ہوں گے‘ جبکہ مے فیئر کے فلیٹس کی مالیت ‘اربوں بلکہ کھربوں روپے میںہے۔ یہ دولت انہوں نے پاکستان جیسے مفلوک الحال ملک سے نکالی ہے۔ جب چینی حکومت‘ 46ارب ڈالر یہاں خرچ کرے گی اوراس کا تیسرا حصہ بھی پاکستانیوں کے ہاتھوںخرچ کرایا گیا‘ تو مے فیئر کے فلیٹ کیا؟ مے فیئر کا سارا علاقہ ‘ ایجویئر روڈ کی تمام پراپرٹیزاور لندن کے سارے رئیسانہ ہوٹل‘ انشاء اللہ ہم پاکستانیوں کی ملکیت ہو جائیں گے اور وہاں ہماری پراپرٹیز کی دیکھ بھال کے لئے‘ چینی مین پاور کام کیا کرے گی۔ اگر آپ کو اپنے وطن کی ترقی کی فکر ہے‘ تو اس سے بے نیاز ہو جایئے۔ ہمارے حکمرانوں نے ترقی کا ایسا فارمولا دریافت کیا ہے کہ آم کے آم ‘ گٹھلیوں کے دام کی پرانی کہاوت فرسودہ دکھائی دے گی۔ مثلاً ہماری ایئرلائنز‘ جو دنیا کی اعلیٰ ترین فضائی کمپنی کہلاتی تھی اور اس کا شمار ہمارے قومی اثاثوں میں ہوتا تھا‘ اب وہ بڑی نزاکت سے ٹھمک ٹھمک چلتی ہوئی‘ شاہی خاندان کے اثاثوں میں شامل ہوتی جا رہی ہے۔ ایئرلائن بے شک شاہی خاندان کی ملکیت بن جائے لیکن اس کی سروس اور جہازوں کا معیار مثالی ہو گا۔ چینیوں کے جس تعمیراتی پراجیکٹ سے ہم دولت کما کر بڑے بڑے ادارے کھڑے کریں گے‘ وہ پرتعیش ہوائی سفر کے لئے پی آئی اے میں سفر کرنے آیا کریں گے۔
ہماری ایک سٹیل مل ہوتی تھی‘ جس کا شمار ایشیا کے بہترین اداروں میں ہوا کرتا تھا۔ اس کی مشینوں کا لوہا آج بھی انتہائی قیمتی ہے اور ہمارے حکمرانوں سے زیادہ لوہے کے کاروبار کو کون سمجھتا ہے؟ وہ سٹیل مل کے پرزے بیچنے کے لئے‘ ایسی ایسی منڈیاں اور گاہک تلاش کریں گے کہ سٹیل مل کے خریداروں سے بازار میںسب سے مہنگے بھائو وصول کئے جائیں گے۔ ہماری سٹیل مل کے پاس مشینوں کے لئے مخصوص زمین کے ساتھ بہت بڑا رقبہ بھی خالی مل جائے گا۔ یہ زمین انتہائی قیمتی ہو چکی ہے۔ اس کی قیمت وصول کرنے میں ہمارے شاہی خاندان سے بہتر دام کوئی نہیں لے سکتا۔ پاکستان کی ترقی کے لئے یہاں جو صنعتیں لگائی جائیں گی‘ وہ سٹیل ملز جیسی نہیں بلکہ فارم ہائوسز‘ جدید مرغی خانے جن میں انڈے کے اندر سے نکلے ہوئے چوزے کو دو ہفتوں میں پوری مرغی یا مرغا بنا کر فروخت کیاجائے گا۔ان مرغیوں کا شاہی گوشت خریدنے والوں کی قطاریں لگا کریں گی۔ جدیدمرغی خانوں میں حاصل کئے گئے انڈے نہ صرف کھانے کے کام آئیں گے بلکہ یہ گوشت کے لئے مرغیاں بھی فراہم کریں گے اور جن مرغیوں کی مانگ میںاضافے کے لئے‘ ملک کا وزیرخزانہ پروموٹر کا کام کرے گا‘ وہاں یہ صنعت کیسے دن دونی اور رات چوگنی ترقی نہیں کرے گی؟ ہمارے شاہی خاندان نے حکمرانی میں دولت کمانے کے جو طور طریقے ایجاد کئے ہیں‘ وہ دنیا کے دوسرے کسی جمہوری ملک کے حکمرانوں کو نصیب نہیں ہوئے۔
اقتصادی راہداری جب مکمل ہو گی‘ تو چینیوں کو پتہ چلے گا کہ جس جس زمین پر یہ راہداری اور اس کی تعمیرات بنائی گئیں اس کی رجسٹری پہلے سے شاہی خاندان کے نام ہو چکی ہے‘ جو سرداروں اور خوانین سے بہت پہلے کوڑیوں کے بھائو خرید کر‘ مفت میزبانوں کی نذر کی جا چکی ہے۔ جب سارا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ گیا‘ تو چینیوں کے شاہی میزبان‘ بڑی محبت سے کہیں گے کہ ''زمین‘‘ تو ہم نے آپ کو بطور مہمان دے دی‘۔ ''جو دام آپ کو اونے پونے دکھائی دیں‘ وہ ہمارے عزیز و اقارب کو تحفے میںدے دیجئے گا۔‘‘ آپ نے کمال دیکھا کہ جو کاروبار ‘سی سی ٹی وی کیمروں میں شہد کے چھتوں سے شروع ہوا تھا‘ کہاں سے کہاں پہنچا؟ اسی کو کہتے ہیں ''تجارت سے حکمرانی تک‘‘۔